پی ایچ ڈی کی ڈگری تحقیق کے سفر کی پہلی سیڑھی ہے

320

پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل سے تحقیق کے موضو ع پر تفصیلی تبادلہ خیال

(ساتواں حصہ)
ایک اور اہم سوال کیا کہ ’’یہ بھی بتائیے کہ باقی دنیا میں ایک تحقیق کار کے لیے ریاست کیا سہولتیں فراہم کرتی ہے؟کیوں کے تحقیق کار کے ساتھ بھی تو ایک پیٹ لگا ہوا ہے اور اس کے اوپر دیگر ذمہ داریاں بھی ہیں۔وہ اپنے اخراجات کہاں سے پورے کرے؟
اس پر ڈاکٹر سید معین الدین عقیل کا کہنا تھا کہ ’’بیرونی ممالک میں ایک محقق کو جو پی ایچ ڈی کرتے ہیں‘میں نے کسی سرکاری وظیفے یا کسی قسم کی اعانت سے مستفید ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ عام طور پربیرونی ممالک میں طالب علم جب یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں تو خود ہی اپنے اخراجات پورے کرتے یا جزو وقتی ملازمتیں کرکے خود کفیل ہوجاتے ہیں۔ میں نے شاذ ہی کسی طالب علم کو جزو وقتی ملازمت نہ کرتے ہوئے یا والدین پر انحصار کرتے ہوئے دیکھاہے۔اور یہ بھی شاذ ہی دیکھاہے کہ ایک ہونہار طالب علم کو دوران تحقیق یونیورسٹی یا کسی علمی رفاہی ادارے سے مالی مدد ملتی ہے جو صرف تحقیق کے لیے سفر خرچ کے طور پر ہوتی ہے۔تحقیق میں لائبریری کی اہمیت پر سوال کرتے ہوئے میں نے پوچھا کہ ’’چوں کہ آپ خود ایک بڑی لائبریری کے مالک رہے ہیں اور اس پر بھی بہت اور خوب کام بھی کیاہے یہ بتائیے کے ایک تحقیق کار کے لیے لائبریری کی کیا اہمیت ہے۔؟ہمارے یہاں کیا صورتحال ہے اور باقی دنیا میں تحقیق کار کو اس حوالے سے کیا سہولیات دی جاتی ہیں؟ تو اس سوال کے جواب میں آپ کا کہنا تھا کہ لائبریری تو ایک بنیادی وسیلہ ہوتی ہے مواد و ماخذ کی فراہمی کا، جو چاہے عام کتب خانہ ہو یا ذاتی و تخصیصی کتب خانہ ہو۔ایسا کم ہی ہوسکتاہے کہ کسی محقق کو کبھی کسی لائبریری جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ادب میں ایسے موضوعات ہوسکتے ہیں کہ کوئی کلاسیکی یا قدیم متن(نثر یا نظم) مرتب کرنا ہو تو اس کے لیے بس ایک بار اس متن کے جو دوسرے نسخے کہیں کتب خانوں میں موجود ہیں ان کے عکس حاصل کرلیے جائیں۔ ہوسکتاہے کہ اس متن کے نسخے زیادہ ہوں تو ہر اس کتب خانے سے جہاں وہ نسخہ موجود ہو اس کے عکس کے حصول کے لیے رجوع کرنا پڑتاہے۔ شاذ ہی کوئی ایسا متن ہو جس کا کوئی نسخہ کہیں موجود نہ ہو اور واحد نسخہ ہو۔ اس صورت میں بھی کم از کم توثیق کے لیے کہ وہ واقعی واحد نسخہ ہے تقریبا ً سارے ہی اہم یا ممکنہ کتب خانوں سے اس کے ذخائر کی فہرستیں دیکھنے کے تو رجوع کرنا ہی پڑتاہے۔ اس لیے چاہے ادب یا متن کی تدوین ہی کیوں نہ ہو کتب خانوں سے رجوع کیے بغیر کوئی کام ممکن نہیں جب کہ ادب میں اس متن کا مقدمہ تو لکھنا ہے اس کے لیے بھی کتب خانوں سے رجوع کیے بغیر کام نہیں ہوسکتا۔
ہمارے ملک میںمعاشرتی علوم سے متعلق موضوعات کے ماخذ اور مواد کے لیے متعدد کتب خانے موجود ہیں، اور بڑی اور قدیم یونیورسٹیوںکے کتب خانے تو بہت وقیع بھی ہیں جیسے پنجاب یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے کتب خانے، اور دیگر اہم کتب خانوں میں پنجاب پبلک لائبریری، لاہور، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، پشاور آرککائیوز، لاہور میوزیم، نیشن آرکائیوز،نیشنل ڈاکومنٹیشن سینٹر، اسلام ٓباد،لیاقت نیشنل لائبریری، کراچی، سندھ آرکائیوز، کراچی، سندھیالوجی، جامشورو،اسٹیٹ لائبریری، بہاولپور،انجمن ترقی اردو کراچی، وغیرہ، یہ ایسے کتب خانے ہیں جہاں بہت قیمتی ذخائر موجود ہیں لیکن بے حد افسوس کا مقام ہے کہ متعدد سرکاری کتب خانے، جن میں جامعات کے کتب خانے اور خاص طور پر کراچی یونیورسٹی کا کتب خانہ ہے تباہ اور برباد ہورہاہے اور کوئی سنجیدگی و اخلاص کے ساتھ اس تباہی اور بربادی کو روکنے والا نہیں۔ کتابیں زیادہ ہوگئی ہیں تو انھیں رکھنے کا انتظام تک نہیں کیاجارہا، کتابیں راہ داریوں اور بند کمروں میں بوریوں میں بھری پڑی ہیں کوئی انھیں کھولنے اور سلیقے سے رکھنے اور قابل استفادہ بنانے کی کوئی کوشش نہیں ہوتی چناں چہ گرد اورمٹی سے اٹی ہونے کی وجہ سے کتابیں ورق ورق ہوکر ضائع ہورہی ہیں۔ اس صور حال کی وجہ سے ہزاروں کلو وزن کی کتابیں آئے دن نیلام ہورہی ہیں جن میں نادر و کمیاب کتابوں کی بھی بڑی تعداد بازاروں میں کراچی یونیورسٹی کی مہریں لگی فروخت ہوتی رہی ہیں۔ان میں مسلم لیگ کا نادر ذخیرہ بھی دیکھا گیاہے۔جو کراچی یونیورسٹی کا ایک اعزاز تھا۔ رسالوں کے حصے میںقدیم اور نادر رسائل کا ذخیرہ بھی برباد اور منتشر ہوگیا مگر کسی کو احساس نہیں۔ایسی صورت حال میں سرکاری اور جامعاتی کتب خانوں سے استفادہ محققین کے لیے بہت دشوار ہوگیاہے۔ پھر اگر عملہ فرض ناشناس ہو تو نہ کتابیں محفوظ اور اپنے مقام پر رہ سکتی ہیں نہ استفادے کے لیے دستیاب ہوتی ہیں۔
بیرونی ممالک میں ایسا نہیں۔ کبھی کسی شخص کو کتب خانوں سے استفادے میں کہیں کوئی رکاوٹ یا نارسائی کا سامنا نہیں ہوتا۔ ہر مطلوبہ کتاب، دستاویز، مخطوطہ اور ان کی نقلیں، زیروکس یا مائیکروفلم یا عکسی چند منٹوں میںدستیاب ہوجاتی ہے۔صرف عکس کے لیے کچھ وقت لگ سکتاہے اگر وہ خود کو نہیں بلکہ متعلقہ عملے کو کرنا پڑے۔رقم ضرور دینی پڑتی ہے جو جائز ہوتی ہے۔
میں نے مزید گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’تحقیق کے کام میں تحقیق کار کے لیے مواد کا حصول ایک مشکل اور دشوارگزار عمل ہے۔ انٹرنیٹ تحقیقی مواد کی فراہمی کا جدید ذریعہ ہے، عصری دور میں انٹر نیٹ پر موجود تحقیقی مواد کی کیا کوئی اہمیت ہے؟ تو ڈاکٹر سید معین الدین عقیل نے فرمایا’’بے حد اہم اور مفید ہے۔انٹرنیٹ نے تو ہر کام آسان بنادیاہے۔ تحقیق بھی اتنی ہی آسان اور معیاری ہوگئی ہے کہ جو ماخذ علم میں بھی نہ آتے تھے اب نہ صرف ان کے باے میں بیش بہامعلومات حاصل ہوتی ہیں بلکہ متعدد صورتوں میں ان کا حصول بھی اب گھر بیٹھے ممکن ہوگیاہے۔معاشرتی علوم میں اور خاص طور پر تاریخ اور ادب و مذہب کے موضوعات پر تحقیقی مواد اب بکثرت دستیاب ہے اور ان کے عکس کا حصول بھی اب بہت آسان ہے۔جو معلومات انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں، جو ہر طرح کی معلومات ہیں، ان کو اگرچہ ہم سند کے لیے استعمال نہیں کرسکتے لیکن ان سے اصل اور دورافتادہ ماخذ کی جانب رہنمائی ضرور حاصل ہوجاتی ہے۔پھر متعدد ترقی یافتہ اور دورافتادہ ملکوں کے کتب خانوں کے بیشتر ذخائر، دستاویزات اور مخطوطات وغیرہ،اب انٹرنیٹ کے ذریعے قابل ِ رسائی ہوگئے ہیں اور بعض شرائط کی تکمیل کے بعد ان کے عکس بھی فراہم ہوجاتے ہیں۔ اب تو پرانی اور نادر کتابیں بھی انٹرنیٹ پر مکمل متن کی صورت میں دستیاب ہورہی ہیں جن کے مطلوبہ عکس بھی بعض شرائط کی تکمیل کے بعدفراہم کردیے جاتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ اکثرنئی کتابیں جو ان دو تین دہائیوں میں شائع ہوئی ہیں، یا آئے دن چھپ رہی ہیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہوجاتی ہیں۔ ایک بہت بڑی تعداد میں ہر علم کی کتابیات بھی اب انٹرنیٹ پر موجود ہیں جن سے استفادہ گھر بیٹھے کیاجاسکتاہے۔ان سہولتوں کے سبب اب محقق کو ماضی کی طرح دورافتادہ شہروں اور ملکوں میں کتب خانوں کی خاک نہیں چھاننی پڑرہی ہے، جن میں ہم تیسری دنیا کے لوگوں کو ناکامی ہی کا سامنا رہتاتھا تا آں کہ یورپ کے کتب خانوں تک راست رسائل حاصل نہ ہوجائے۔ پھر جہاں زر ِ کثیر کا صرفہ یقینی تھا اب وہ کام کم صفے سے اور کبھی مفت میں بھی ممکن ہوگیاہے۔گویا جو کام ناممکن بھی ہوتے تھے اب بڑی حد تک انٹرنیٹ کی وجہ سے ممکن ہوگئے ہیں۔اس طرح انٹرنیٹ پر موجود مواد کہیں زیادہ اہم اور مفید ہے۔
بات ٓا گے بڑھاتے ہوئے میں نے کہا ڈاکٹر صاحب ،عمومی طو رپر تحقیق کے طالب کو تحقیق کے دوران کئی مشکلات پیش آتی ہیں۔طالب علم کو موضوعات کے انتخاب،تحقیق کے لیے وسائل کے ساتھ ’’امتیازی سلوک‘‘جیسے مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے،آپ اس کو کس طرح دیکھتے ہیں ؟ تو اس پر روشنی ڈالتے ہوے ڈاکٹر سید معین الدین عقیل کا کہنا تھا کہ ’’جہاں تک تحقیق کے لیے موضوعات کے انتخاب کا تعلق ہے اس میں طالب علم کے ذوق و شوق کا بڑا دخل ہے۔ صاحب ِ ذوق اور لکھنے پڑھنے سے دل چسپی رکھنے والے طالب ِ علم خود اپنے ذوق کے تحت جب تحقیق کا ارادہ باندھتے ہیں تو گاہے ان کے ذہن میں ایک دو موضوعات موجود ہوتے ہیں جو ناپختہ اور غیر معیاری ہوسکتے ہیں۔ اب ایسی صورت میں یہ اس کے پسندیدہ یا ممکنہ استاد ؍ نگران پر ہوتاہے کہ وہ اس طالب علم کی کس حد تک مدد یا رہنمائی کرتاہے کہ وہ طالب علم اس موضوع کو اسی طرح یا ضرورت اور علمی تقاضوں کے تحت اس میں ترمیم و تخفیف کرلے اور اسے ایک مناسب صورت دے سکے۔لیکن ایسا اس طالب علم کی خوش قسمتی ہی سے ہوسکتاہے۔بالعموم اچھی شہرت کے حامل اساتذہ کے پاس کسی مزید طالب علم کے لیے گنجائش نہیں ہوتی۔ اس صورت میں طالب علم دوسرے اساتذہ کی طرف دیکھتاہے۔بعض اساتذہ اس کی حوصلہ شکنی بھی کرتے ہیں جو ان کا نفسیاتی مسئلہ بھی ہوتاہے۔کچھ افراد طالب علم کو چکر لگواتے ہیں جو ان کی نفسیاتی تسکین کا سبب ہوتاہے۔بعض اساتذہ تو طلبہ کو آزماتے بھی ہیں اور ان سے گھر کے ذاتی کام کرانے تک سے نہیں چوکتے۔یہ آزمائش بعض صورتوں میں اور بعض اوقات مہینوں برسوں تک دراز ہوسکتی ہے۔بعض طالب علم مجبور ہوتے ہیں کہ یہ سب کچھ کرگزریں۔وہ اگر ایسے اساتذہ کی خدمت پر مجبور ہوتے ہیں توصرف اس مجبوری کے تحت کہ انھیں کوئی دیانتدار اور مخلص استاد میسر نہیں آتا۔پھر ایسے استاد اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ ایک اچھا موضوع تجویز کرسکیں اور موضوع کے مطابق ایک اچھا اور معیاری خاکہ(فہرست و ابواب مقالہ) بنانے میں طالب علم کی مدد کرسکیں یا خود بناکر دکھائیں۔طالب علم اکثر خود ہی دیکھا دیکھی اپنی سی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے خاکے اور منصوبے میں نقص رہ جاتے ہیں اور یوں تحقیق معیاری نہیں ہوتی۔اسی ضمن میں طالب علم کی یہ مدد کہ اس کے لیے متعلقہ ماخذ کیاکیا ہوں گے اور اسے وہ متعلقہ مآخذ اور ضروری وسائل کہاں کہاں سے دستیاب ہوسکتے ہیں، صرف باذوق اور بااخلاق اساتذہ ہی ان معاملات میں طلبہ کی مدد کرتے ہیں باقی ان کو ان کے حا ل پر چھوڑدیتے اور بے تعلق رہتے ہیں۔اس صورت حال میں صرف محنتی اور صاحب جستجو طلبہ ہی کامیابی سے آگے بڑھتے ہیں۔اساتذہ میں ایک قسم ایسے اساتذہ کی بھی ہوتی ہے جن میں اہلیت نام کو نہیں ہوتی، وہ سفارشوں اور چاپلوسی یا سیاسی کرم فرمائیوں کے نتیجے میں تعلیمی اداروں اور جامعات پر مسلط ہوجاتے ہیں اور ناجائز ذرائع اختیار کرکے ترقیوں اور مناصب کی دوڑ میں بھی لگ جاتے ہیں۔ان میں نہ ذوق و شوق ہوتاہے نہ اہلیت، ایسے اساتذہ طلبہ کو بھی سبز باغ دکھا کر، جھوٹے وعدے وعید کرکے اپنے ساتھ پی ایچ ڈی یا ایم فل کرنے پر آمادہ یا مجبور کرلیتے ہیں تاکہ اپنے نمبر بڑھاسکیں اور فوائد حاصل کرسکیں۔ اس وقت جامعات میں ایسے اساتذہ کی کمی نہیںَ ایسے اساتذہ نہ صرف پروفیسر و صدر شعبہ بن چکے ہیں بلکہ ڈین اور وائس چانسلر کے منصب تک پہنچ گئے ہیں۔جب کہ ان کی جھولی میں دوسروں سے اپنے نام لکھوائے ہوئے مقالات اور سرقہ کے علاوہ مشکل ہی سے ان کا اپنا کچھ ہوتاہے۔ایسے کتنے نام میں آپ کو بتاؤں؟جن کی’’ نگرانی‘‘ میں شاید ریکارڈ تعداد میں طلبہ نے ’’پی ایچ ڈی‘‘ کی ہے!یہ ’’امتیازی سلوک‘‘ایک افسوس ناک امر واقعہ ہے۔اس بنیاد پرمحض سطحی طلبہ پی ایچ ڈی کرنے میں’’ کامیاب‘‘ہوجاتے ہیں لیکن بیشتر ذہین اور لائق وسنجیدہ طلبہ اپنے ارادوں اور جوش و ولولے سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں اور یوںہونہارطلبہ ضائع ہوجاتے ہیں۔
میں نے کہا دنیا بھر میں پی ایچ ڈی کی ڈگر ی کو تحقیق کے سفر کی پہلی سیڑھی سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں ڈگری جو درحقیقت کسی موضوع پر کی جانے والی اس اصل تحقیق کے نتیجے میں ملنے والی تحقیقی ’’منزلت‘‘ کا نام ہے کو ہی منزل سمجھ لیا جاتا ہے۔آپ کے نزدیک اس صورتحال کا کیا سبب ہے ؟ تو ٓآپ کا کہنا تھا کہ
ہاں، یہ بات ٹھیک ہے اور ابھی میں نے جن اساتذہ کا ذکر کیا کہ جن میں اہلیت نہیں ہوتی لیکن وہ سارے منفی اور ناجائز ذرائع اختیار کرکے مطلوبہ فوائد حاصل کرلیتے ہیں۔ایسے اساتذہ بلکہ بعض لائق اساتذہ بھی آغاز میں مناسب لیاقت اور محنت و جستجو کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پی ایچ ڈی کے مقالے کی تکمیل و کامیابی تک تحقیق سے وابستہ رہتے ہیں لیکن بعد میں اس سے حاصل ہونے والے سرور اور مناصب میں اتنے کھوجاتے ہیں کہ تحقیق پس انداز ہوجاتی ہے اور صرف سطحی اور عام سے مضامین اور سرسری نوعیت کے تنقیدی و تاثراتی موضوعات پر اکتفا کیے رہتے ہیں۔یعنی ان کے دامن میں صرف ایک جیسا تیسا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہوتاہے بعد میں کوئی باقی رہنے والا یا زندہ رہنے والامستقل اور جامع کام وہ نہیں کرتے۔اب ایسے اساتذہ ا کثر منظر پر چھائے نظر آتے ہیں۔مختلف جامعات میں اعلیٰ مناصب پر، یہاں تک کہ سبکدوشی کے باوجود توسیعی ملازمت پر اورایچ ای سی میں بھی، ایسے متعدد اساتذہ مختلف مجلسوں میں شامل ہیں اور ’’تحقیقی‘‘ منصوبوں اور معیار کے لیے فیصلوں میں شریک رہتے ہیں!ایچ ای سی نے اساتذہ کی ترقیوں کے لیے جو شرائط نافذ کی ہیںان میں پی ایچ ڈی کے بعد اور ایک منصب سے دوسرے منصب پر ترقی کے لیے اضافی تحقیقات پر زور دیاہے لیکن اس شرط پر عمل کہیں نہیں ہوتا اور اساتذہ اپنی ایک درجے سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے درجے میں ترقی کے لیے، ہر درجے کی علیحدہ مقررہ تعداد کا لحاظ رکھے بغیر،اپنے سارے کام شامل کرکے تعداد ناجائز طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرکے اپنا مقصد حاصل کرلیتے ہیں۔
(جاری ہے)

حصہ