بروقت

377

’’صائم! اٹھو بیٹا فجر کا وقت نکل رہا ہے۔‘‘ زینب خالہ نے صائم کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اٹھایا۔
’’کیا ہے خالہ! اٹھ جاؤں گا ابھی تو اذان ہوئی ہے۔‘‘ صائم نے کسمسا کر کروٹ بدلی۔
’’ارے بیٹا اوّل وقت میں نماز ادا کرنے کی کوشش کیا کرو۔‘‘
’’یہ کیا اوّل وقت میں ہر کام کی باتیں کرتی رہتی ہیں آپ ۔ تھوڑی سی دیر بھی ہو جائے تو ٹینشن… شادی پر جانا ہے تو سب سے پہلے ہم۔ اسکول، کالج جانا ہے تو سب سے پہلے ہم۔ کسی پکنک پارٹی کے لیے نکلیں تو سب سے پہلے ہم… اب تو لوگوں کو ہماری شکلیں دیکھ کر وقت یاد آ جاتا ہے۔ سب ہمیں دیکھ کر ہی وقت بتا دیا کرتے ہیں کہ یہ لوگ ہیں جن کو آٹھ بجے بلایا جائے تو پندرہ منٹ پہلے ہی پہنچ جاتے ہیں۔‘‘
صائم نے اٹھ کر ہر بار کی طرح سوال کیا مگر خالہ ٹال گئیں۔
’’اچھی بات ہے ناں لوگ قائد اعظم کو دیکھ کر گھڑیاں درست کرتے تھے، ہم بھی انہی کے جانشین ہیں۔‘‘ وہ ہمیشہ کی طرح مسکرا دیں۔
صائم کے کالج میں آج تقریری مقابلہ تھا اور رِدا کے اسکول میں پینٹنگ ایگزیبیشن، اسٹوڈنٹ ویک کی رنگینیاں ہر تعلیمی ادارے میں عروج پر تھیں۔ جواد بھائی اور فواد بھائی کے پاس ٹائم نہیں تھا۔ ان کے آفس میں ضروری میٹنگ تھی، وہ وہاں مصروف تھے۔ سو آج صائم اور ردا کی کالج اور اسکول میں پک اینڈ ڈراپ کی ذمہ داری بھی زینب خالہ کے سپرد تھی۔ تین بھانجے اور ایک بھانجی پر مشتمل یہ چاروں بچے یہ زینب خالہ کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ ان کے والدین یعنی زینب خالہ کی بہن اور بہنوئی حج کے دوران حادثے کا اس وقت شکار ہو گئے تھے جب جواد اور فواد (بڑے جڑواں بچے) دونوں محض پندرہ برس کے تھے ان کے بعد بالترتیب صائم دس برس اور ردا پانچ برس کی تھی خود زینب پچیس برس کی تھی اور فارمیسی میں گولڈ میڈلسٹ تھی اس کی منگنی ہو چکی تھی شادی کی تیاریاں جاری تھیں کہ بہن بہنوئی کا حج کے لیے نام نکل آیا تو سوچا کہ ایک ماہ کی تو بات ہے بچے خالہ کے ساتھ رہیں گے اور ہم حج کر آئیں گے مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ بہن بہنوئی کے انتقال کے بعد ان کے بچوں کو تنہا نہ چھوڑنے کے فیصلے پر ان کے سسرال والوں نے بچے قبول کرنے سے انکار کا کہہ کر رشتہ توڑ دیا۔ زینب نے کمر کس لی اور خود کو ان بچوں کے لیے وقف کر دیا۔ ایک ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی آج وہیں پر منیجر کے طور پر کام کر رہی تھی۔
زندگی کی گاڑی بہترین طریقے سے رواں دواں تھی جواد، فواد بزنس ایڈمنسٹریشن کرنے کے بعد خالہ کی مشاورت سے چھوٹے پیمانے پر اپنے کاروبار کو شروع کرکے وسعت دینے میں کوشاں تھے اور بہت حد تک کامیاب بھی ہورہے تھے۔ زینب نے انہی کی طرح کی دو جڑواں بہنوں سے ان کی منگنی کر دی تھی اور اگلے سال تک شادی کا ارادہ تھا۔
اس فیملی کو ہر کام وقت پر اور منظم طریقے سے کرنے کا فوبیا تھا۔ یہ ان کے بارے میں لوگوں کی رائے تھی۔
صائم اور ردا چھوٹے ہونے کے باعث اپنی خالہ سے ہمیشہ یہی سوال کیا کرتے کہ جہاں سارے لوگ وقت کا احساس نہیں کرتے، ایسے میں ان لوگوں کی پابندی وقت کی عادت کیوں؟
زینب خالہ اس بات کو ہمیشہ ٹال جاتی مگر صائم جیسے جیسے بڑا ہو رہا تھا وہ اس حوالے سے زیادہ حساس ہو جاتا تھا کہ وقت کی پابندی اچھی چیز ہے مگر اب اتنی اور ہر بات پر بھی نہیں ہونی چاہیے۔
صائم اور ردا دونوں نے مختلف مقابلوں میں حصہ لیا تھا اور ہمیشہ کی طرح جیت کر ٹرافی لے کر آئے تھے۔
زینب خالہ نے دونوں کو مبارک باد دی اور اپنے دائیں بائیں بٹھا کر ان سے سوال کیا ’’تمہاری جیت کی وجہ؟‘‘
’’ہم نے محنت کی۔‘‘ ترنت جواب آیا۔
’’بس صرف محنت؟ اور کسی نے نہیں کی؟‘‘ زینب خالہ نے پوچھا۔
’’کی تھی مگر…‘‘ صائم نے سوچتے ہوئے جواب دیا
میرے مقابل ایک لڑکی کی تقریر بہت اچھی تھی مگر اس نے دیے گئے وقت سے زیادہ بولا نمبر کٹ گئے۔‘‘
’’ہاں ہمارے مقابلے میں بھی ایک پینٹر نے دیے گئے وقت سے زیادہ لیا تو اس کے نمبر بھی کٹ گئے۔‘‘ ردا نے کہا۔
’’آپ دونوں ہمیشہ پوچھتے ہو ناں تو یہ ہے اس کا جواب کہ وقت سے نہ زیادہ نہ کم‘ عین مطابق کام کرنا بے وقوفی یا فوبیا نہیں بلکہ کامیابی کی دلیل ہے۔‘‘
’’تمہیں معلوم ہے کہ قائد اعظم کو ٹی بی تھی ان کے پاس وقت کم تھا یہ بات دشمنوں سے چھپا کر ہر کام وقت پر پورا کرنے کی کوشش نے پاکستان بنوایا اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان بننے سے پہلے قائد اعظم کی موت کے بعد پاکستان کے قیام کا منصوبہ عمل میں آ سکتا تھا؟‘‘ صائم اور ردا ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے۔
’’تمہیں معلو م ہے ہمارے امی ابو یعنی تمہارے نانا اور نانی قیام پاکستان کے وقت سے پہلے فیصلہ نہ کر پائے اور جب انہوں نے تقسیم کے بعد یہ فیصلہ کیا تو اس وقت حالات دگرگوں ہوگئے اور چاروں طرف قتل وغارت گری کے سائے میں لوگوں نے ملک چھوڑا اور ہمارے والدین کی طرح بیشتر جان کی بازی ہار گئے۔ میں اور آپی بچ کر پاکستان پہنچ گئے اور یہاں پہنچ کر جب ہمیں موقع ملا کہ ہم وہیں مہاجر کیمپ میں زندگی گزار دیں یا جو فیملیز ان بچوں کو اپنے ساتھ لے جانے کا عزم رکھتے ہوئے آئیں ان کے ساتھ چلے جائیں ایک بے اولاد جوڑے نے مجھے اور آپی دونوں کو لینے کا عندیہ دیا اور ہم نے اسے بر وقت قبول کیا۔ یہ سب وقت کے کھیل ہیں جو بڑھ کر وقت کی طنابیں وقت پر کھینچ لے وہ کامیاب۔‘‘
زینب خالہ ماضی میں کھو گئیں کہ کس طرح وہ اور آپی بڑی ہوئیں اور اپنے پالنے والے ماں باپ کے زیر سایہ پروان چڑھیں اور کس طرح ان والدین کے بھائی کے بیٹے سے آپی کی شادی اور پھر شادی کے کچھ عرصے بعد ان والدین کی موت کے بعد دوبارہ سے زینب کا اپنی آپی کے ساتھ آ جانا اور آپی اور بہنوئی کے انتقال کے بعد بچوں کی ذمہ داری یہ سب وقت کے فیصلے تھے اور یہ وقت بہت ظالم بھی ہے اور غنی بھی‘ یہ وقت اپنے ضائع کرنے والے کے ساتھ بہت ظالم ہے اور یہی وقت اپنے بروقت استعمال پر غنی بھی ہے۔ اگر غصے میں آ کر چھین لیا کرتا ہے تو احسان مند ہو کر بہت نوازاتا بھی ہے‘ بس یہ قدر کرنے والے پر منحصر ہے کہ قدر کرتے ہیں یا ناقدری؟‘‘
زینب خالہ نے بات ختم کر کے آنکھ میں اٹکا ایک موتی اپنی انگلی کی پوروں سے جھٹکا ردا اور صائم نے اپنے بازو ان کے گرد حمائل کر دیے۔
آج ان کے اپارٹمنٹ میں خوشیوں کی بارات اتر آئی تھی۔ جواد، فواد کا ولیمہ اور زینب خالہ کی بارات تھی۔ جواد، فواد کی دلہنوں کے چچا جان کا رشتہ زینب خالہ کے لیے آیا تھا۔ ان کی بیگم کا انتقال ہو گیا تھا اور دس اور بارہ برس کی دو بیٹیوں کی پرورش کے لیے انہیں عقد ثانی کسی سمجھ دار خاتون سے کرنے کی ضرورت تھی اور زینب خالہ سے زیادہ سمجھ دار بھلا کون؟
اور زینب خالہ کے زیر تربیت بچے اچھی طرح جانتے تھے کہ وقت کی قدر کرتے ہوئے بروقت فیصلہ کرنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ سو ، آج بہار اتری تھی۔ زینب خالہ ایک اور گھر کی بنیادوں کو اپنی محبت بھری تربیت سے سینچنے جا رہی تھیں۔ کچھ لوگوں کی زندگی کا مقصد ہی دوسروں کے کام آنا ہوتا ہے، وہ جگنو بن کر راہوں میں روشنی پھیلاتے رہتے ہیں۔

حصہ