’’کوئی ضرورت نہیں ہے تائی کے پاس جانے کی، بس اپنے کمرے میں بیٹھو چپ کرکے۔‘‘
’’اماں… ں ں ں… جانے دیں نا۔ سومی میرا انتظار کر رہی ہوگی۔‘‘ ایشا مچل کر بولی۔
’’ہاں جانے دوں تاکہ اس کی اماں پھر تمہیں دو تھپڑ رسید کر دے۔‘‘
’’اماں انہوں نے مارا تھوڑی تھا ، وہ تو بس لگ گیا تھا۔ میں نے بھی تو ان کا پسندیدہ پرفیوم اتنا سارا ضائع کیا تھا۔‘‘
’’اچھا بس…‘‘
اکثر خاندانوں میں بچوں کی لڑائیاں بچوں سے شروع ہوتی ہے اور بڑوں تک جا پہنچتی ہے، جس کی وجہ سے دلوں میں فرق آجاتا ہے اور بات بڑھتے بڑھتے خاندان ٹوٹنے کا سبب بن جاتی ہے۔ بات شروع کہاں سے ہوئی تھی اور وجہ کیا تھی یہ کسی کو یاد بھی نہیں رہتا یہی وجہ ہے کہ اب بہت کم خاندان مل جل کر رہتے ہیں ورنہ اکثریت الگ الگ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھے ہیں۔
جب میاں بیوی اپنی نئی زندگی شروع کرتے ہیں اور دو سے تین، تین سے چار اور پھر پانچ ، چھ ، سات ، آٹھ تک فیملی ممبر ہوجاتے ہیں تب بچوں کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ ماں باپ کی ذمہ داریاں بھی بڑھتی جاتی ہیں اور وہ بہت جانفشانی سے اپنے بچوں میں محبت قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض گھروں میں ’’کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نگاہ سے۔‘‘ کا فارمولا چلتا ہے، تو کچھ گھرانوں میں انتہائی دوستانہ ماحول ہوتا ہے۔ مگر ہر صورت ماں باپ کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان کے بچوں کو کسی چیز کی کمی نہ ہو۔ پھر یہی ماں باپ ہوتے ہیں کہ جو اپنے بچوں کے لیے گھر بناتے ہیں تاکہ سب مل جل کر رہیں۔
مگر… مل جل کر کیسے رہنا ہے؟ یا کیسے رہنا چاہیے؟ یہ صرف سوچنا ہی نہیں بلکہ سمجھنا بھی بہت مشکل ہے کیوں کہ مضبوط گھر اور خاندان ایسے نہیں بن جایا کرتے بلکہ بہت کچھ برداشت اور نظر انداز کرکے ہی بنا کرتے ہیں۔ عدم برداشت، رویوں کی خرابی، بے جا شکایتیں، ہر جھگڑے میں مردوں کو شامل کرنا فساد کے باعث بنتے ہیں کیونکہ جب مرد روزگار سے تھکے ماندے گھر آئیں اور ان کے آگے بچے اور بیوی جھگڑے سنانے بیٹھ جائیں تو وہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ مرد کی آنکھیں نہیں ہوتیں صرف کان ہوتے ہیں اور ان میں جو انڈیلا جاتا ہے وہی اس کا ری ایکشن کرتے ہیں۔ اگر خاندان کو مضبوط اور دوستانہ ماحول فراہم کرنا ہے تو گھر کی عورتوں کو برداشت اور عقل مندی سے کام لینا چاہیے۔ کوشش یہ ہی ہونی چاہیے کہ بچے اپنے معاملات خود نمٹائیں، بڑوں تک نہ پہنچنے دیں اور اگر بالفرض ماؤں تک شکایت پہنچ بھی رہی ہے تو بچوں کو نظر انداز کرنا سکھائیں اور خود بھی تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں اور گھر کے مردوں کا سکون برباد نہ کریں کیوں کہ عورت ہی گھر بناتی اور بساتی ہے۔ لیکن گھروں میں عورتوں کا بھی قصور اتنا نہیں ہوتا۔ اکثر مردوں کو آزاد زندگی کا شوق ہوتا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ بس وہ اور ان کے بیوی بچے ہوں تیسرا کوئی درمیان میں نہ بولے چاہے وہ اپنے ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں اگر وہ الگ رہائش کر بھی لیں تب بھی ان کو اپنے خاندان کو یکجا رکھنا ہے کیوں کہ الگ رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کا سب سے تعلق ختم ہوگیا بلکہ اب ذمہ داریاں اور بڑھ گئی ہیں۔ پہلے ایک ہی گھر تھا، اب دونوں گھروں کو آپ کو دیکھنا ہے۔ ماں باپ کی ضروریات کو بھی ان کے بغیر کہے پورا کرنا ہے کیوں کہ ماں باپ نے مل جل کر رہنے کے لیے آپ کے لیے گھر بنایا تھا۔ آخر میں سب بچوں کو ہنسی خوشی الگ گھر لے کر رہنے میں ان کو کوئی تکلیف نہیں ہے مگر وہ بالکل اکیلے ہی ہوجائیں ، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
جدا جدا رہتے ہوئے بھی ساتھ رہنا بہت کمال کی بات ہے اور اس کی بنیاد ماں باپ کی تربیت سے ہی ہوتی ہے۔ کسی بچے کو دوسرے بچے پر نہ برتری دی جانی چاہیے نہ ہی کسی کو کمتر سمجھنا چاہیے، سب کو برابری کا درجہ دینا انتہائی ضروری ہے چاہے وہ مالی طور پر کمزور ہوں یا تعلیمی یا کسی اور وجہ سے، کبھی بھائی کی وجہ سے بہن کو یا بہن کی وجہ سے بھائی بھابی کو نظروں سے نہیں گرانا چاہیے اور نہ ہی کسی کو کسی بھی عمل یا زبان سے یہ احساس دلانا کہ دوسرا تم سے برتر یا کمتر ہے ، بہت غلط رویہ ہے۔ دلوں میں فرق نہیں آنا چاہیے اور یہ ہی خاندان کی مضبوطی کی اساس ہے۔