چنگ چی میں سفر کے دوران وہ خاتون مجھے خاصی پریشان دکھائی دیتی تھیں۔ ان کے ساتھ ان کا 8، 9 سال کا بچہ بھی تھاجو تھکا ہوا نظر آرہا تھا۔ خاتون اس کو ڈانتی جارہی تھیں ’’میں تمہارے اوپر کتنی محنت کر رہی ہوں لیکن تم پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا، ماں کتنی پریشانی اٹھا رہی ہے لیکن ایک نمبر کے ڈھیٹ ہو سنتے ہی نہیں ہو، اتنی مہنگی ٹیوشن لگائی ہے پھر بھی رزلٹ وہی تھرڈ کلاس۔‘‘
بچہ کچھ سہما ہوا، بے زار، غصے میں دکھائی دے رہا تھا۔
میں یہ سب دیکھ کر رہ نہ سکی، پوچھ بیٹھی ’’کیا ہوا آپ کیوں پریشان ہیں، بچہ بھی ٹینشن میں ہے آپ بھی فکرمند ہیں، اگر مناسب سمجھیں تو بتائیں۔‘‘
وہ تو جیسے بھری بیٹھی تھیں کہنے لگیں ’’دیکھیے میرا بچہ تیسری کلاس میں ہے، اتنے اچھے اسکول میں داخل کروایا ہے، اتنی اتنی فیسیں دے رہے ہیں پھر پڑھائی اتنی مشکل ہے کہ اس کے لیے ٹیوشن بھی لگوائی ہوئی ہے اور جہاں ٹیوشن پڑھنے جاتا ہے وہ اسی اسکول کے بچوں کو پڑھاتی ہیں آٹھ ہزار ان کی فیس ہے، ایڈوانس پچیس ہزار الگ سے لیتی ہیں لیکن چوں کہ میرے بیٹے کے اسکول کے دوسرے بچے بھی وہاں پڑھتے ہیں تو میں نے اور میرے شوہر نے اپنا پیٹ کاٹ کر وہاں ٹیوشن لگوایا ہے کہ یہ اچھا رزلٹ لائے، لیکن اتنا پیسہ لگانے پر بھی رزلٹ وہی ایوریج پاس ہے۔ کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا اسی لیے غصہ آرہا ہے، سارا دن اس کے چکر میں بھاگ دوڑ کرتی ہوں پھر بھی کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ آخر میں ان کی آواز کچھ گلوگیر ہوگئی۔
’’تو آپ اپنے بچے کوخود کیوں نہیں پڑھاتیں؟‘‘میں نے ان سے کہا۔
’’ارے کیسے پڑھاؤں؟ اتنا مشکل کورس ہے، ابھی کلاس ہے ہی کیا لیکن اتنی مشکل انگلش اور میتھس ہے کہ سمجھ میں ہی نہیں آتی۔ پہلے پڑوس میں ٹیوشن لگائی تھی وہاں بھی جو لڑکی پڑھاتی ہے اس نے کچھ دن دیکھا پھر منع کردیا کہ ’’سوری آنٹی! میں نہیں پڑھا سکتی۔‘‘ تو اب یہ ٹیوشن لگوائی ہے، یہ اسکول والوں نے ہی بتائی تھی۔‘‘
ہر گھر میں یہی مسئلہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں داخل تو کروا رہے ہیں لیکن پھر ان کی پڑھائی اتنی مشکل اور پیچیدہ ہے کہ والدین کو مجبوراً مہنگی ٹیوشن لگوانی پڑتی ہے۔ کل بھی ایک تقریب میں اچھی خاصی ماڈرن خاتون کا یہی رونا تھا کہ بچے کے لیے اچھی ٹیوشن نہیں مل رہی۔ خود پڑھانا ممکن نہیں، کورس اتنے مشکل اور انگریزی زبان میں ہیں کہ آدھا سمجھ میں آتا ہے اور آدھا سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔
میں ان ساری ماؤں کی پریشانی سمجھ سکتی ہوں کیوں کہ میں خود بھی ایک ماں ہوں گو کہ میں اس معاملے میں خوش نصیب رہی کہ ابتدائی برسوں میں بچوں کو خود پڑھایا اور اس کے بعد بچے خود ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے، اس لیے کبھی ٹیوشن کی ضرورت نہیں پڑی۔ لیکن اب جو حالات ہیں اس میں مونٹیسوری کلاس کے بچے کو بھی ٹیوشن لگوائے بغیر ماؤں کا گزارا نہیں۔
پچھلے دور کی جو مائیں زیادہ تر اردو میڈیم سے پڑھی ہوئی ہیں یونیورسٹی میں بھی نصاب اردو میں ہی تھا۔ امتحان دینا، مضمون کو سمجھنا بہت آسان لگتا تھا کہ اپنی زبان میں پڑھنا‘ سمجھنا اور لکھنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ہمیشہ سمجھ کر پڑھا اور پھر امتحان میں رٹا ہوا لکھ کر آنے کے بجائے سمجھا ہوا لکھ کر آتے تھے، اس لیے نمبرز بھی اچھے آتے تھے۔
پہلے کی پڑھائی اس لیے بھی آسان تھی کہ ماؤں میں بچے کے رزلٹ کے حوالے سے کوئی احساس کمتری نہیں ہوتا تھا، جوبھی رزلٹ آیا بس پاس ہوگئے ، اگلی کلاس میں چلے گئے ،کافی ہے۔ اسی پر ماں باپ خوش ہو جاتے تھے۔ مگر اب موازنہ اور مسابقت کی دوڑ نے بھی پڑھائی کو بوجھ بنا دیا۔
اب تو والدین کی حالت یہ ہے کہ بچوں پر پوزیشن کو لے کر اتنا دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ بچے نفسیاتی ہو جاتے ہیں، باہر کا نصاب، باہر کا طریقہ تعلیم اور کچھ اسکولوں میں تو یہ حالت ہے کہ اسلامیات بھی انگریزی زبان میں ہے۔ انگریزی میں اسلامیات پڑھ کر نہ آپ کے اندر ادب و احترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، نہ مائیں سمجھ پاتی ہیں کہ بچوں کو جو پڑھایا جا رہا ہے وہ سب درست ہے بھی یا نہیں۔ ایمان اور عقیدے کے حوالے سے بھی خاصی متنازع چیزیں بچوں کے نصاب میں ڈال دی گئی ہیں۔ لیکن مجبوری یہی ہے کہ والدین اس کو سمجھ نہیں پاتے اور بچے انہی چیزوں کو ذہن نشین کرتے جارہے ہیں کیوں کہ یہ ان کے تعلیم کا نصاب کا حصہ ہے۔
والدین ان مسائل کا حل اس سوچ سے چھٹکارا حاصل کر کے نکال سکتے ہیں کہ نامی گرامی اسکولوں کے بجائے مناسب اسکول جو قریب ترین ہو اس میں داخل کرائیں انگریزی زبان کو ایک زبان کے طور پر پڑھائیں اور اس پر توجہ دیں۔
زبانیں سیکھنا چاہیے لیکن اپنی زبان اور تہذیب کی قیمت پر نہیں ہمارے ہاں زیادہ تر گھروں میں مادری زبان ہی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ بہت کم ایسے گھر ہوں گے جہاں انگریزی بول چال عام ہو گی یا ان گھروں میں عام ہوگی جو اَپر کلاس کہلاتے ہیں جن کو نہ یہاں رہنا ہے نہ یہاں پڑھنا ہے۔ ایک عام مڈل کلاس گھرانے میں مادری زبان ہی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
اردو وہ زبان ہے جو ہر بچے اور بڑے کی سمجھ میں آتی ہے چاہے وہ کوئی بھی زبان بولنے والے ہوں لیکن ہمارا نظامِ تعلیم انگریزی اور وہ بھی ایسی انگریزی جو کہ عام اسکول و کالج میں پڑھے گئے والدین کے سر پر سے گزر جاتی ہے۔ اسی لیے بچوں کی پڑھائی پر ان کے نصاب پر سے چیک اینڈ بیلنس ختم ہو گیا، یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ بچہ کیا پڑھ رہا ہے۔ اس سسٹم سے نقصان یہ ہوا کہ بچے اردو زبان سے دور ہو گئے ہیں، اردو پڑھنا اور لکھنا ان کو مصیبت لگنے لگا ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی کی سب سے اہم ترین کنجی اس کا اپنی زبان اور اپنے کلچر کو اپنانے اور اس کو پروموٹ کرنا ہوتی ہے، چائنا، اسپین، ترکی، جاپان کو دیکھ لیں، وہاں قابل سے قابل شخص سے آپ بات کریں تو وہ اپنی زبان میں ہی بات کرے گا، اسے اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ آپ اس کی بات سمجھ رہے ہیں یا نہیں، اگر اس کی بات سمجھنا ہے تو ان کی زبان سیکھو، وہ اپنا مدعا اپنی زبان میں ہی بیان کریں گے۔
کسی بھی دوسری زبان کو سیکھنا ایک اچھی بات ہے، بحیثیت ایک علم یا ایک زبان کے اس کے بارے میں پتا ہونا چاہیے تاکہ ہم دنیا کے ساتھ چل سکیں لیکن اگر تعلیم دینے کے لیے اپنی ہی زبان کو ذریعہ بنایا جاتا تو زیادہ بہتر انسان اور زیادہ قابل لوگ ہمیں میسر آسکیں گے۔ بچے کے لیے اپنے نصاب کو سمجھنا زیادہ آسان ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں جو ایک منتشر خیال‘ پریشان حال یا ذہنی غلام نسل مل رہی ہے اس سے نجات مل سکے گی۔
افسوس آج ہماری نئی نسل نہ ڈھنگ سے اردو لکھ سکتی ہے نہ پڑھ سکتی ہے۔ وہی ہو گیا ہے کہ’’ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا۔‘‘ اسکولوں میں بھی لہک لہک کر ، ناچ ناچ کر پوئمز پڑھائی جاتی ہیں، نتیجتاً اب بچے اسکول میں پراٹھے یا روٹی نہیں کھاتے ،اب وہ لنچ کرتے ہیں، نگٹس، فرائز یا اسنیکس کھاتے ہیں، اب وہاں کلمے یا دعائیں نہیں یاد کروائی جاتیں، وہاں میری ہیڈ آ لٹل لیمب یا ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار یاد کرواتے ہیں۔ اب وہاں کرسمس، ہیلووین اور خدا جانے کیا کیا دن منائے جاتے ہیں، یہ امپورٹڈ کلچر بچوں کو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا رہا ہے۔ اسکولوں میں وہ انگریز اور گھروں میں وہ دیسی سبق پڑھتے ہیں۔
جہاں ذاتی سطح پہ دھیان دینے کی ضرورت ہے وہیں ہمارے ارباب اختیار کو اس مسئلے پر توجہ دینی ہوگی تب ہی ممکن ہے کہ بچوں کو اس رٹے کلچر سے نکال کرسمجھ کر ، سمجھا کر علم پہنچایا جائے تو یقیناً ہماری نسل میں بہتری کی صورت دکھائی دے گی۔