برتھ کنٹرول کا مغربی فلسفہ ایک بھیانک بربادی پر اختتام پذیر ہورہا ہے
ماہر معاشیات مالتھس نے اٹھارہویں صدی کے آغاز سے قبل 1798ء میں آبادی اور وسائل میں موازنے کا نظریہ پیش کرکے گویا دنیا میں ایک دھماکہ کیا۔ مالتھس کے پیش کردہ نظریے کے مطابق دنیا میں آبادی میں اضافہ ضرب کی صورت میں ہوتا ہے جب کہ وسائل میں اضافہ ایک جمع ایک کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس نظریے کے بعد دنیا میں عمل کی جہت تبدیل ہوگئی اور یہ انقلاب فرانس کے بعد دوسرا بڑا واقعہ تھا۔ دنیا میں کلیسا اور بادشاہت کے جبر سے آزادی حاصل کرکے نئے نظریات اور عوامی خواہشات و امنگوں کی بنیاد پر ایک نئی دنیا کی تعمیر کا سفر جاری تھا۔ انقلاب فرانس نے دنیا کو یہ باور کروایا کہ مذہب اور بادشاہت سے نجات حاصل کرکے ہی دنیا فلاح پاسکتی ہے۔
جدید جمہوریت بھی انقلاب فرانس کا ہی حاصل ہے کہ جہاں ایک فرد ایک ووٹ اور عوام کی حکومت عوام کے ذریعے کی داغ بیل ڈالی گئی تاکہ بادشاہت کا خاتمہ کرکے عوامی حکمرانی کے دور کا آغاز ہو۔ دوسری جانب علم کہ جس کا منبع و ماخذ ہی مذہب تھا۔ مذہب کی علمی اساس خدا کے وجود پر قائم تھی کہ جہاں خدا‘ رسولؐ اور کتاب ہی اصل علم کا ماخذ تھا لہٰذا اس علم سے جان چھڑائے بغیر کسی نئی دنیا کی تعمیر ممکن نہ تھی لہٰذا اس کے لیے ایک نئی اصلاح Study Empirical کی بنائی گئی کہ جس کے تحت علم صرف وہ ہے کہ جو نہ صرف نظریات کی دنیا میں موجود ہو بلکہ کوئی تجربہ اس پر مہر تصدیق ثبت کرے ورنہ وہ علم جو صرف نظریہ کی سطح پر موجود ہو لیکن تجربے اور تحقیق اس کو درست ثابت نہ کرسکے اس کو علم کے مدار سے خارج کرکے اس کا نام آرٹس یا فنون کردیا گیا۔
کہنے کو تو یہ ایک نئے علمی سفر کا آغاز تھا لیکن اس کی بنیاد پر جو سوچ کار فرما تھی وہ یہ تھی کہ اب تک کے تمام علوم کو دریا برد کردیا جائے اب علم صرف وہ ہوگا کہ جو ایک مخصوص قسم کے تجربے کی صورت میں ظاہر ہو۔ اس کی وجہ وحی، رسالت اور خدا کے وجود کا انکار کرکے ایک نئے نظامِ علم کی ابتدا تھی۔ یعنی اگر وحی کو علم مانا جاتا تو ایک مخصوص تجربہ اس کو ثابت کرنے سے قاصر تھا کہ نبیؐ پر خدا کوئی وحی بھی نازل کرتا ہے اور جب وحی کا انکار ہوگیا تو پھر اس وحی کی بنیاد پر کتاب کی کیا حیثیت باقی رہ گئی؟ لہٰذا پہلے بات یہیں تک رہی اور اس کے بعد اب خدا کا انکار مغرب کا نیا دین بن گیا۔ اس تحریک کے زیر اثر جو علوم وجود میں آئے وہ خدا، رسالت اور وحی کے انکار پر دلالت کرتے تھے۔ مسیحیت میں بھی آبادی میں اضافے اور بچوں کی پیدائش پر کوئی قدغن عائد نہیں کی گئی لیکن جدید علوم نے مالتھس کے انقلاب آفرین نظریے کے تحت یہ بتایا کہ آبادی میں اضافے پر کنٹرول نا گزیر ہے ورنہ بڑھتی ہوئی آبادی تمام قدرتی وسائل کو کھا جائے گی اور انسان بھوکا مر جائے گا۔ جب کہ ہر الہٰامی مذہب میں انسانوں کہ نسل کی بقا اس کی خوراک اور دیگر عوامل کا کلی انحصار ذات خدا پر تھا لیکن جب انسان نے خدا کو دنیا کے ہر کام سے بے دخل کیا تو اس کا مخصوص علم خدا بن گیا یعنی جو کچھ ایک مخصوص قسم کے تجربے سے ثابت ہوا وہ درست اور باقی سب باطل۔ اسی تجربے علوم کے زیر اثر ایک نئی دنیا وجود میں آئی انسانی تاریخ کی حیرت انگیز ترقی ہوئی انسان نے یہ سمجھا کہ جو کچھ علم بتاتا ہے وہ ہی درست ہے۔ خدا، رسالت، وحی، الہٰام، آسمانی کتب سب اذکار رفتہ ہوئے جو جدید دور کے مسائل کا حل انسان کو فراہم نہیں کرسکتے۔ مالتھس بھی اسی قبیل کا ایک فرد تھا لیکن اس کی اہمیت اس وجہ سے زیادہ تھی کہ اس نے انسان کی بقا کا راز بتایا جو کہ آبادی پر کنٹرول تھا۔ لہٰذا دنیا بھر میں اسقاطِ حمل اور مانع حمل کی تحریکیں برپا ہوئیں۔ یورپ سے لے کر ایشیا تک تمام ممالک کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ اب آبادی کو روکنا ہے۔ انسان کی بقا اس میں نہیں کہ انسان زیادہ ہوں بلکہ بقا و فلاح اس میں ہے کہ آبادی کم ہو لہٰذا ہر انسان کو معیاری تعلیم، صحت روزگار اور دیگر سہولیات بہم پہنچائی جاسکیں۔ مغرب اور اس کے زیر اثر علاقوں میں اس کا اثر زیادہ ہوا اور ان ممالک نے پہلے ہی مرحلہ میں آبادی میں اضافے کی حوصلہ شکنی کی اور دوسرے مرحلے میں بہت سے ممالک نے بچوں کی تعداد سرکاری سطح پر باقاعدہ مقرر کردی۔ انسان نے انسانوں کی پیدائش کو ہر ممکن طریقے سے روکا اس کی ہلاکت خیزی سے آگاہ کیا یہ معاملہ محض سرمایہ دارانہ ریاستوں تک محدود نہیں رہا بلکہ کمیونسٹ و سوشلسٹ نظریات پر قائم ممالک نے بھی اس کی پیروی کی۔ 1949 میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد چین کی حکومت نے آبادی پر کنٹرول کی پالیسی اپنائی اور 1980 میں باضابطہ طور پر ’’ایک خاندان‘ ایک بچہ کی پالیسی‘‘ کو نافذ کردیا گیا۔ جس کی وجہ آبادی پر کنٹرول تھا لیکن تین دہائیوں کے بعد اس پالیسی کے تباہ کن اثرات آنے شروع ہوئے جس میں سرفہرست نوجوانوں کی تعداد میں کمی اور بوڑھوں کی تعداد میں اضافہ تھا جس کا لامحالہ اثر افرادی قوت پر پڑنا شروع ہوا، دوسری اہم ترین تبدیلی جنس کا عدم توازن تھا۔ ایک بچے کی پابندی کی وجہ سے بہت سے خاندانوں نے جب یہ دیکھا کہ پیدا ہونے والا بچہ لڑکی ہے تو اس حمل کو ضائع کروا دیا جس کے نتیجے میں لڑکے کی خواہش میں مرد و عورت کا توازن اس قدر بگڑ گیا کہ یہ تناسب تین لڑکے اور ایک لڑکی تک چلا گیا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے چین کی حکومت نے 2016 میں ایک بچے کی پابندی کو ختم کردیا لیکن جو عدم توازن ان پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوچکا تھا اس کا سدباب نہ ہوسکا یہاں تک کہ اگست 2021 میں باقاعدہ طور پر قانون میں ترمیم کرکے ’’تین بچے فی خاندان‘‘ کی اجازت دے دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ان بچوں اور خاندان کی فلاح و بہبود اب ریاست کے ذمے ہے‘ اس میں تعلیم اور ملازمت کا بندوبست بھی شامل ہے۔
آبادی میں کنٹرول کا اثر سب سے زیادہ آبادی رکھنے والے چین پر ہی نہیں پڑا بلکہ ایک اور کمیونسٹ ملک روس بھی اس وقت آبادی میں کمی کے شدید ترین مسائل کا شکار ہے۔ دنیا کے چند بڑے جغرافیہ رکھنے والے ممالک میں سر فہرست روس جوکہ دنیا کے رقبے کے گیارہ فیصد سے زائد پر مشتمل ہے‘ اس کی کُل آبادی محض 14 کروڑ اور 60 لاکھ ہے جبکہ آبادی میں اضافے کا تناسب تقریباً صفر فیصد ہے جس کی وجہ سے اب وہاں ضعیف العمر افراد کی اکثریت ہے اور دنیا کے گیارہ فیصد رقبے پر مشتمل ملک دنیا کی آبادی کے محض 1.87 فیصد کا حامل ہے۔ یہ وہ صورت حال ہے جو روس کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہے۔ اس وقت روس ان ممالک میں شامل ہے جو شدید ترین آبادی کی قلت کا شکار ہیں اور یہ قلت ان ممالک کو بتدریج کمزور کر رہی ہے۔ آبادی کی اس قلت کو دور کرنے کے لیے روس کی حکومت نے آبادی میں اضافے کے لیے مراعات کا اعلان کیا ہے۔ اس نئی پالیسی کے مطابق اگر کوئی خاتون دس بچوں کو جنم دیتی ہے اور دسواں بچہ ایک سال کی عمر تک پہنچ جاتا ہے تو اُس خاتون کو اعلیٰ ترین سویلین اعزاز ’’ہیروئن ماں‘‘ سے نوازا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی خاتون کو ایک ملین یعنی دس لاکھ رشین روبل کی انعامی رقم بھی دی جائے گی۔ بات یہیں تک نہیںہے بلکہ اس کے علاوہ ان بچوں کی اعلیٰ ترین تعلیم، تربیت، روزگار،خوراک، صحت و علاج معالجہ بھی حکومت کے ہی ذمے ہوںگے۔ یہ تمام اقدامات اس لیے اٹھائے جارہے ہیں کہ روس سمیت پوری دنیا میں مختلف تحقیقات کے بعد یہ نتائج ظاہر ہوئے کہ اعلیٰ ترین معیار زندگی، اعلیٰ ترین معیار تعلیم کی وجہ سے یا اس کو پانے کے لیے جوڑے یا تو بچے پیدا نہیں کرتے یا پھر کیرئر کی جستجو میں وہ اپنا بچے پیدا کرنے کا وقت ضائع کرچکے ہوتے ہیں اس کے علاوہ زیادہ بچوں کی پیدائش میں یہ امر بھی مانع ہوتا ہے کہ ان بچوں کو وہ اعلیٰ ترین معیار زندگی اور اعلیٰ ترین تعلیم مہیا نہیں کرسکتے۔ اس وجہ سے اب باقاعدہ طور پر روس میں پرائیویٹ تعلیم، ٹیوشنز پر کریک ڈاؤن کرکے اس کو مکمل طور پر ختم کیا جارہا ہے اور لوگوں کو بہت بلند تر معیار زندگی تک پہنچنے کی جستجو کو اب حکومتی سطح پر کنٹرول کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
یہ مغرب کا وہ مکمل بیانیہ جو مالتھس کے نظریے کے ساتھ معرض وجود میں آیا تھا‘ زمین بوس ہوچکا ہے۔ پورا یورپ اور امریکا بھی آبادی کے بحران کی زد میں ہے۔ بلند ترین معیار زندگی رکھنے والے اسکینڈ نیوائی ممالک ڈنمارک، ناروے اور سوئیڈن میں آبادی میں اضافے کی شرح محض ایک فیصد ہے جب کہ ماہرین کے مطابق کسی بھی نسل و قوم کو زندہ رکھنے کے لیے آبادی میں اضافے کی شرح کم از کم 2.1 بچے فی خاندان ہونی چاہیے ورنہ وہ نسل معدوم ہوجائے گی۔ اسی طرح بلند ترین معیار زندگی رکھنے والا جاپان اب بوڑھا ہوچلا ہے‘ وہاں نوجوانوں کی قلت ہے اور آبادی میں اضافہ منفی صفر اعشاریہ تین نو فیصد ہے۔ برطانیہ میں اس وقت آبادی میں اضافے کی شرح صفر اعشاریہ پانچ فیصد ہے جوکہ گزشتہ پندرہ سال میں اضافے کی کم ترین سطح ہے۔
1990 کی دہائی سے برطانیہ میں آبادی میں اضافے کا دارومدار مہاجرین کی آمد پر ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ آکر مختلف امور سر انجام دیتے ہیں۔ مالتھس کا نظریہ خود اس کے ملک برطانیہ میں بھی مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ دنیا میں‘ جہاں ایک جانب انسانی آبادی میں اضافہ ہوا تو وہیں انسانی وسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ترقی یافتہ ممالک اور سپرپاورز بھی آبادی کی کمی کا شکار ہیں‘ آبادی میں اضافے کے لیے وہ ہر سال ہزاروں افراد کو اپنے ملک تعلیم‘ روزگار اور تجارت کے لیے بلاتی ہیں اور انہیں اعلیٰ ترین سہولیات فراہم کر کے وہیں کا مکین بننے پر مجبور کرتی ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں بھی اب مہاجرین کی اکثریت یا معقول تعداد اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان ممالک کو اپنی ترقی برقرار رکھنے کے لیے جس افرادی قوت کی ضرورت ہے وہ ان کے پاس نہیں ہے۔ مغرب ترقی یافتہ ہونے اور اعلیٰ معیار زندگی رکھنے کے باوجود ایک نئے مسئلے کا شکار ہیں وہ ہے آبادی میں مستقل کمی اور یہ مسئلہ محض سماجی نہیں بلکہ ان ممالک کو اپنی معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے بھی انسانوں کی ضرورت ہے جو کاروبارِ زندگی کو چلاسکیں۔ مذہب سے بغاوت کا سفر جو مغرب کی پوری تہذیب کی اصل ہے اب جا بجا اپنے مظاہر دکھا رہا ہے اور انسان کو یہ سبق بار بار یاد دلاتا ہے کہ قرآن عظیم الشان میں مذکور رب رحمن کا وعدہ سچا ہے۔ترجمہ: ’’اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔‘‘ (الاسراء آیت نمبر 31)
مغرب اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود آج پھر اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ جسے قرآن 14 سو سال قبل بیان کر چکا ہے۔ مغرب کا علمی و تہذیبی سفر ایک سراب ہے کہ جس کا اختتام مغرب کی مکمل ناکامی پر ہے لیکن بدقسمتی سے اس دور جدید میں بھی مغربی پروپیگنڈا کے زیر اثر نہ تو اس کو سامنے لایا جاتا ہے نہ ہی حقیقت سے لوگ کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ مغرب اپنی تمام تر مادی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ڈھلوان پر ہے اور ہر نیا دن اس کی شکست کا پیغام لارہا ہے۔ لیکن کیا امتِ مسلمہ مغرب کی ناکامیوں سے سبق سیکھ کر دنیا کو حقیقی فلاح و کامرانی کی جانب گامزن کرنے کے لیے تیار ہے؟ آج کا اصل سوال یہی ہے اور اب کا جواب اپنے کردار و عمل سے ہر فرد پر دینا لازم ہے۔