مومن خاں مومن
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیانِ شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلۂ ملامتِ اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی
تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جگر مراد آبادی
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں بے کار غم نہیں
توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوۂ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں
یا رب ہجومِ درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں
شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتاً
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں
اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں کوئی نقشِ قدم نہیں
ملتا ہے کیوں مزہ ستمِ روزگار میں
تیرا کرم بھی خود جو شریک ستم نہیں
مرگ جگرؔ پہ کیوں تری آنکھیں ہیں اشک ریز
اک سانحہ سہی مگر اتنا اہم نہیں
ولی دکنی
کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ
عجب کچھ لطف رکھتا ہے شبِ خلوت میں گل رو سوں
خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
مرے دل کوں کیا بے خود تری انکھیاں نے آخر کوں
کہ جیوں بے ہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ
ہوا تجھ عشق سوں اے آتشیں رو دل مرا پانی
کہ جیوں گلتا ہے آتش سوں گلاب آہستہ آہستہ
ولیؔ مجھ دل میں آتا ہے خیال یار بے پروا
کہ جیوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ
مصطفی خاں شیفتہ
اٹھ صبح ہوئی مرغ چمن نغمہ سرا دیکھ
نورِ سحر و حسن گل و لطف ہوا دیکھ
دو چار فرشتوں پہ بلا آئے گی نا حق
اے غیرتِ ناہید نہ ہو نغمہ سرا دیکھ
منت سے مناتے ہیں مجھے میں نہیں منتا
اوضاعِ ملک دیکھ اور اطوارِ گدا دیکھ
گر بو الہوسی یوں تجھے باور نہیں آتی
اک مرتبہ اغیار کے قابو میں تو آ دیکھ
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
اک دم کے نہ ملنے پہ نہیں ملتے ہیں مجھ سے
اے شیفتہ مایوسی امیدِ فضا دیکھ
قتیل شفائی
کوئی مقام سکوں راستے میں آیا نہیں
ہزار پیڑ ہیں لیکن کہیں بھی سایا نہیں
کسے پکارے کوئی آہٹوں کے صحرا میں
یہاں کبھی کوئی چہرہ نظر تو آیا نہیں
بھٹک رہے ہیں ابھی تک مسافرانِ وصال
ترے جمال نے کوئی دیا جلایا نہیں
بکھر گیا ہے خلا میں کرن کرن ہو کر
وہ چاند جو کسی پہلو میں جگمگایا نہیں
ترس گئی ہے زمیں بادلوں کی صورت کو
کسی ندی نے کوئی گیت گنگنایا نہیں
اجڑ گیا تھا کسی زلزلے میں شہرِ وفا
نہ جانے پھر اسے ہم نے بھی کیوں بسایا نہیں
قتیلؔ کیسے کٹے گی یہ دوپہر غم کی
مرے نصیب میں ان گیسوؤں کا سایا نہیں
واصف علی واصف
کوئی اہلِ نظر نہیں لگتا
اس لیے معتبر نہیں لگتا
سب دئیے ہم نے خود بجھا ڈالے
اب ہواؤں سے ڈر نہیں لگتا
خود بھی وہ اپنی قدر و قیمت سے
اس قدر بے خبر نہیں لگتا
تب پرندے بھی لوٹ جاتے ہیں
پیڑ پر جب ثمر نہیں لگتا
خوف وہ بام و در کے اندر ہے
جو پسِ بام و در نہیں لگتا
اجنبی اجنبی سے چہرے ہیں
یہ مجھے اپنا گھر نہیں لگتا
لے کے جائے گا عمر، وحشت کا
سلسلہ مختصر نہیں لگتا
حبیب جالب
جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو
ذلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے
مٹ جاؤ یا قصرِ ستم پامال کرو
سامراج کے دوست ہمارے دشمن ہیں
انہی سے آنسو آہیں آنگن آنگن ہیں
انہی سے قتل عام ہوا آشاؤں کا
انہی سے ویراں امیدوں کا گلشن ہے
بھوک ننگ سب دین انہی کی ہے لوگو
بھول کے بھی مت ان سے عرضِ حال کرو
جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
اٹھو ّمرنے کا حق استعمال کرو
صبح و شام فلسطیں میں خوں بہتا ہے
سایۂ مرگ میں کب سے انساں رہتا ہے
بند کرو یہ باوردی غنڈہ گردی
بات یہ اب تو ایک زمانہ کہتا ہے
ظلم کے ہوتے امن کہاں ممکن یارو
اسے مٹا کر جگ میں امن بحال کرو
جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
اٹھو ّمرنے کا حق استعمال کرو
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
مرزا غالب