گورنمنٹ کے ہر لیٹر کے آخر میں افسر کے نام کے اوپر لکھا ہوتا تھاYour Obedient Servantمعین صاحب اس محاورے کی تفسیر تھے۔
’’عثمانی! یہ کون ہے بھئی؟‘‘ ایک شخص کو بڑے انہماک سے وی وی آئی پی فلائٹ کی ٹیکنکل سوئپنگ کرتے دیکھ کر جنرل مشرف نے کور کمانڈر سے پوچھا۔
’’سر! یہ معین صاحب ہیں، بم ڈسپوزل اسکواڈ کے انچارج اور بہت ہی ڈیڈیکیٹڈ افسر…‘‘ یہ کہتے ہوئے جنرل عثمانی نے معین صاحب کو قریب بلا لیا اور بڑی محبت سے صدرِ پاکستان کے سامنے ان کی اپنے کام سے لگن اور بہادری کا تذکرہ کرنے لگے۔ اتنے میں جنرل مشرف کی نظر اُن کے ہاتھ پر پڑی تو فوراً ’’بولے یہ آپ کے انگوٹھے کو کیا ہوا معین صاحب؟‘‘ جس پر اُنھوں نے ’’کہا کچھ نہیں سر! بس ایک بم معائنے کے دوران ہاتھ میں پھٹ گیا تھا جس سے انگوٹھے کا لچھ حصہ الگ ہوگیا۔‘‘
’’ارے تو آپ اسلام آباد آجائیں، میرے ماموں کے ہاتھ پر چوٹ لگی تھی اور ڈاکٹروں نے سی ایم ایچ میں اُن کے پاؤں کی ایک انگلی لگا کر ہاتھ کو دوبارہ کار آمد بنادیا تھا۔‘‘
’’جی سر! نہیں سر تھینک۔‘‘ معین صاحب نے اپنی ہمیشہ کی طرح کسر نفسی سے جواب دیا اور کام پورا کرکے محبتیں سمیٹے خوشی سے سرشار گھر واپس لوٹے کہ اتنے بڑے لوگوں نے ان کے کام کو سراہا اور تعریف کی۔ اس سے زیادہ ان کو اور چاہیے بھی کیا تھا کہ 80ء اور 90ء کی دہائیوں میں افغان جنگ اور کراچی میں روز روز فائرنگ اور بم دھماکوں کے پُر آشوب دور میں، عوام الناس تو جائے حادثہ پر فوری پہنچ جانے والے اپنے مسیحا کو جانتے ہی تھے اورمحبتیں نچھاور کرتے تھے، آج ملک کی اعلیٰ ترین شخصیت نے بھی اُن سے اپنی محبت کا اظہار کردیا تھا اور اُن کو اس سے زیادہ کی شائد طلب بھی نہیں تھی۔ جنرل عثمانی نے کور 5 کی جانب سے معین صاحب کو شیلڈ اور نقد انعام سے بھی نوازا۔ بعد میں بھی جب جنرل مشرف کراچی آتے اور واپسی پر ائرپورٹ پر معین صاحب پر نظر پڑتی تو پروٹوکول کے خلاف آگے بڑھ کر معین صاحب سے مصافحہ کرتے۔ جب کوئی شخص اپنی ڈیوٹی پوری توجہ اور ذمہ داری سے سر انجام دیتا ہے تو اس کے کام کی خوشبو چہار سو پھیل ہی جاتی ہے۔ انھوں نے بے نظیر بھٹو صاحبہ کے ساتھ بھی ڈیوٹی سر انجام دی اور سندھ کے موجودہ وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ کے والد عبداللہ شاہ جب سندھ کے وزیرِاعلیٰ تھے اور معین صاحب دھماکے میں زخمی ہوگئے تھے تو اُن کی مزاج پُر سی کے لیے اسپتال تشریف لائے تھے۔ نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران صدر رفیق تارڑ نے ان کو ’’تمغۂ شجاعت‘‘ سے نوازا۔ معین صاحب ایک بہادر انسان تھے اور ہر جائے حادثہ پر خود پہنچتے تھے بغیر کسی پروٹوکول یا سیکورٹی۔ حالات کی سنگینی کے ہیشِ نظر ایک مرتبہ جب اُنھیں بکتر بند گا ڑی میں لے جایا گیا تو کہنے لگے ’’رہنے دیں بھئی! ہمیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔
شہر کا ہر چھوٹا بڑا خواہ وہ ٹھیلے والا ہو یا کوئی سرکاری یا غیر سرکاری افسر دل سے اُن کی عزت کرتا تھا۔ جب کسی جگہ سے بم کی اطلاع آتی اور ڈرائیور نہ ہوتا تو اُن کے بچے گاڑی ڈرائیو کرتے اور اگر وہ بھی نہ ہوتے تو وہ گلی میں باہر نکل کے دیکھتے اور کتنے ہی لڑکے اُن کی جیپ ڈرائیو کرنے کے لیے فوراً ہی آمادہ ہو جاتے اور یوں یہ خطرناک کام شوق اور ذمہ داری سے سب مل کر انجام دیتے۔
معین صاحب نے بم ڈسپوزل کے بنیادی کورسز تو کیے ہی تھے مگر اُن کی اصل مہارت اُس زمانے میں ملنے والے آئی ای ڈیز (امپرووائزڈ ایکسپلوسیو ڈیواسز) کی تھی کہ یہ بوبی ٹریپ، پائپ بم، کتاب بم یا گیند بم کو ملنے کے بعد مروجہ طریقہ کار کے مطابق دور لے جاکر دوسرے ایکسپلوسیو کے ذریعہ اُڑانے کے بجائے اس کو کھول کر اس کی تکنیک سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی مہارت میں بڑا حصہ لرننگ بائی ایکسپیئرینس تھا۔
معین صاحب دفتری امور کے ماہر اور ایک بہترین منتظم تھے اپنے ہاتھ سے کام کرنا تو ان کا شوق تھا ہی وہ اپنی ٹیم کو بھی بڑی محبت سے گائیڈ کرتے۔ انھوں نے سول ڈیفنس سندھ سے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا اور ڈپٹی ڈائریکٹر سول ڈیفنس سندھ اور بم ڈسپوزل چیف کے عہدہ تک ترقی پائی۔ بعد میں جب بم ڈسپوزل کا کام پولیس کے سپرد کردیا گیا تو پولیس ڈپارٹمنٹ نے ان کی خدمات مستعار لے لیں۔ انھوں نے اردو اور انگریزی میں شہری دفاع اور بم سے متعلق احتیاطی تدابیر پر مختلف کتابیں اور پمفلٹ بھی ترتیب دیے۔ سرکاری امور سے متعلق رولز و ریگولیشز ان کو اَزبر تھے اور نہ صرف سندھ بلکہ وفاقی حکومت کے افسران و اسٹاف بھی اُن سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔
لوگوں کے مسائل حل کرنے میں پوری توجہ اور وقت صَرف کرتے اور جب تک ان کو تک مطمئن نہ کردیتے چین سے نہ بیٹھتے۔ معین صاحب خدائی خدمت گار تھے اور یہ تمام اعانت رضا کارانہ طور پر کرتے تھے۔ اپنے لیے کسی صلہ کی تمنا نہیں رکھتے تھے۔ اپنے تعلقات کو ذاتی فائدہ کے لیے استعمال کرنا اْنھیں نہ آتا تھا۔
گلستانِ جوہر بلاک 11 میں گورنمنٹ ملازمین کی قرعہ اندازی میں ان کا 250 گز کا ایک پلاٹ نکلا جس کی پوری قیمت بھی اْنھوں نے ادا کر دی لیکن اس پلاٹ کا قبضہ حاصل کرنے سے قاصر رہے کہ قبضہ مافیا زیادہ طاقتور ہے۔ اس کے علاوہ دھماکے میں زخمی ہونے کے بعد حکومتِ سندھ نے اُن کے لیے ایک پلاٹ کی منظوری دی لیکن یہاں بھی سرخ فیتے نے بات آگے نہ بڑھنے دی۔
معین صاحب کے تمام بچوں کو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں اور کوششوں سے روزگار کے اچھے مواقع فراہم کیے اور وہ مناسب انداز میں باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔ معین صاحب کام کے اتنے دھنی تھے کہ گھر میں بھی دفتری امور انجام دیتے تھے۔ دفتر وہ وقت سے قبل پہنچ جاتے تھے اور گھر، دفتر اور فیلڈ میں وہ کم وبیش اٹھارہ گھنٹے کام کرتے تھے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ان کے بچوں نے انھیں کبھی چھٹی کرتے دیکھا ہی نہیں سوائے ایک موقع پر کہ جب ایک قریبی عزیز کا انتقال ہوا اور وہ تدفین کے انتظامات کی وجہ سے وہ دفتر نہ جا سکے۔ اپنے ایک بیٹے کی بارات کے ساتھ حیدرآباد پہنچے ہی تھے کہ ایمرجنسی کال آگئی اور وہ تقریب چھوڑ کر واپس کراچی روانہ ہوگئے۔
اُن کی تاریخ پیدائش 17 اگست 1932 ہے‘ لوگ ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائر ہوجاتے ہیں لیکن گورنمنٹ ا ن کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بھی نو سال تک یعنی ان کی آخری سانس 26 جولائی 2001 تک اُن کے کنٹریکٹ میں اضافہ کرتی رہی۔ ان کی ملنساری اور اچھے اخلاق کی بنا پر عزیز و اقارب اُنہیں ’’معین بھائی‘‘ کے نام سے پکارتے تھے اور شہر کے تمام صحافیوں کے لیے بھی وہ معین بھائی ہی تھے۔ کچھ سال قبل تک گورنمنٹ کے ہر لیٹر کے آخر میں افسر کے نام کے اوپر لکھا ہوتا تھا Your Obedient Servantمعین صاحب اس کی عملی تفسیر تھے۔