پی ایچ ڈی ،ایم فل رائج کا طریقہ کار اور تحقیق کا معیار

1113

پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل سے تحقیق کے موضوع پر تفصیلی تبادلہ خیال

(چھٹا حصہ)
میری تجویز ہوگی کہ موضوعات کی منظوری محض متعلقہ جامعہ کی متعلقہ مجلس پر نہ چھوڑی جائے، موضوعات کے معیار کو جانچنے اوران کی ضرورت کے جواز کو پرکھنے کے لیے ایچ ای سی ہر مضمون کے حقیقی ماہرین پر مشتمل ایک مستقل اور مرکزی مجلس تشکیل دے جو تمام جامعات کے منظور شدہ موضوعات کی تنقیح کرے اور ان کے معیار اور جواز کے مطابق حتمی منظوری عطا کرے۔یا منظور نہ کرکے متعلقہ جامعہ کو نظر ثانی کے لیے واپس کردے۔
ممتحنین کا انتخاب نگران کے ذمے قطعی نہ ہو بلکہ ان کے نام نگران سے بھی مخفی رکھے جائیں تا کہ نگران یا کوئی بھی ان تک رسائی حاصل نہ کرسکے۔
ایچ ای سی نے پی ایچ ڈی کے ممتحنین کے لیے زور دیاہے کہ وہ غیر ملکی ہوں، تاکہ ان تک محقق یا نگران کی رسائی آسان نہ ہو۔لیکن اس پابندی پر کم ہی عمل ہوتاہے یا اگر عمل ہوتابھی ہے تو بالعموم ایسے ممتحن تلاش کرلیے جاتے ہیں جودوست احباب کے حلقہ ٔ اثر میںہوں یا پاکستانی رہے ہوں جن تک رسائی بھی آسان ہو اور جن کی اخلاقیات میں ہم سے بہت مختلف نہیں ہوتی۔یہاں ایچ ای سی کو یہ شرط بھی لگانی چاہیے کہ غیر ملکی ممتحن کبھی پاکستانی بھی نہ رہے ہوں۔
بعض اوقات یہ بھی سننے میں آتاہے اور میرے تجربے میں بھی ہے کہ ممتحنین کی منفی آرا یہاں مجلس میں پیش ہونے سے پہلے ہی رازداری میں معلوم کرلی جاتی ہیں اور بصورت جعل سازی تبدیل بھی ہوجاتی ہیں یا از خودکسی منظوری کے بغیر ممتحن ہی بدل دیے جاتے ہیں تاآں کہ مثبت رائے حاصل نہ ہوجائے۔صدر مجلس بھی، اقربا پروری یا دوست داری کے جذبے کے تحت یا سیاسی دباؤ کے نتیجے میں، ایسے معاملات میں ہاتھ دکھاجاتے ہیں اور اجلاس میںمنفی آرا ٔ کے پیش ہونے کے وقت وہ آرا ٔ اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں اورممتحن کی تحریر کسی کو دکھاتے نہیں اپنے ہی ہاتھ میں رکھ کرمنفی رائے کو مثبت قرار دے دیتے ہیں کہ ان سے اصل تحریر کو دکھانے کے مطالبے کی ہمت کون کرے گا۔اس بنیاد پر ایچ ای سی کو چاہیے کہ ممتحنین کی تمام آرا ٔکو اپنے ریکارڈ میں رکھنے کی غرض سے ایک مجلس کے سپرد کرے جو ان آرا ٔ کے اصل ہونے کی تصدیق کرے۔اس وقت تک اس مقالے کے فوائد جاری نہ ہونے کا ضابطہ بھی بنایا جانا چاہیے۔
میں نے کہا ’’جیسا کہ آپ نے کہا کہ ایچ ای سی نے پی ایچ ڈی کے ممتحنین کے لیے زور دیاہے کہ وہ غیر ملکی ہوںاور اب مقالہ صرف ترقی یافتہ ممالک میں مقیم لوگوں کو ہی بھیجا جاسکتاہے۔صورتحال یہ ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں صرف انگریزی زبان میں ہی نہیں، اردو،سندھی،فارسی،عربی میں بھی مقالے لکھے جاتے ہیں۔ایسے میں ترقی یافتہ ممالک میں ممتحن کا پایا جانا یا انھیں تلاش کرنا امر محال ہے،تو آپ کے خیال میں کیا مقالے کو جانچنے کے لیے یہ طریقہ کار نئی الجھنوں کو جنم نہیں دیتا؟
ٓپ کا کہنا تھا کہ ’’یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔اردو کے ماہرین دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔مشرق میں چین اور جاپان، اور یورپ وشمالی امریکا کی تقریبا ً 22 جامعات میں یاتو اردو زبان و ادب کے شعبے موجود ہیں یا ان میں اردو جاننے والے مصنفین و مؤرخین موجود ہیں۔بھارت میں یہ ماہرین شاید پاکستان سے تعداد میں کم نہیں۔فارسی کے لیے ایران اور عربی کے لیے مصر اور عرب ممالک میں چپے چپے پر ماہرین موجود ہیں۔سندھی اور پشتو میں کتنے کام پی ایچ ڈی کی سطح پر ہوتے ہیں؟ نہ ہونے کے برابر۔ لیکن ان جیسی زبانوں کے ماہرین بھی بھارت اوریورپ و امریکا میں مل ہی جاتے ہیں۔اور اگر نہ ملیں تو مقامی ماہرین یا ممتحنین کی تعداد میں اضافہ کرکے ایک تقابلی اوسط سے دیانت دارانہ رائے حاصل کی جاسکتی ہے۔
اسی طرح ایک اور سوال کیا کہ ’’ایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلے کے لیے ٹیسٹ اور انٹرویو لیے جاتے ہیں۔ٹیسٹ میں MCQs ہوتے ہیں۔ تحقیقی رجحان اور زبان پر عبور کو نہیں جانچا جاتا،لکھنے کی صلاحیت کو نہیں دیکھاجاتا، اورزبان پر عبور اورلکھنے کی صلاحیت کے بغیر کیسے تحقیق کی جاسکتی ہے؟ آپ ایم فل کورس ورک کے لیے امیدواروں کے جانچ کے اس طریقے کو کس طرح دیکھتے اور کیا آپ کے نزدیک اس نظام میںاور بھی خرابیاں ہیں؟اس پر آپ کا کہنا تھا کہ ایک محقق کو وسیع المطالعہ اور ذہین ضرور ہونا چاہیے ورنہ وہ خود اپنے اور ملکی وسائل کی ضیاع کا سبب بن سکتاہے۔ یہ ہوسکتاہے کہ یہ صلاحیتیںاگر نہ ہوں تو ان کا اکتساب کیاجاسکتاہے، تربیت ہوسکتی ہے لیکن اگر پہلے ہی کسی میں یہ صلاحیتیں موجود ہوں تو وقت کم صرف ہوگا اور نتائج جلد حاصل ہوسکیں گے۔ اس لیے اس طرح کی آزمائشیں فائدہ مند ہی ہوتی ہیں۔پھر زبان کی صلاحیت واستعداد کا جانچنا واقعی زیادہ ضروری ہے نسبتا ً دیگر استعداد کے۔ میں اس کے حق میں ہوں کہ ایک امیدوار کی صلاحیتوں کو خاص طور پر زبان کی صلاحیت اور اس کی انگریزی زبان کی استعداد کو ضرور جانچاجائے اور اسے لازم قراردیاجائے۔ عام بین الاقوامی معلومات اور تاریخ کا مطالعہ اور جدید تصورات اور نظریات سے مناسب واقفیت بھی اہلیت میں شمار ہونی چاہیے۔ اس لیے جو آزمائشی امتحان لیے جائیں ان میں یہ عنوانات اگر ہوں تو زیادہ اچھاہے۔ان عنوانات کو تحقیق کے اصول و طریقہ ٔ کار اور روایات و رجحانات کے ساتھ ساتھ تربیتی نصاب (کورس ورک) میں شامل کیاجانا چاہیے اور اس کورس ورک کے نصاب میں انگریزی زبان کی مناسب استعداد اور ترجمے کی صلاحیت کے پیدا کیے جانے کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔کیا آپ کے نزدیک اس کورس ورک کے آنے کے بعد ہمارے یہاں تحقیق کی صورتحال میں بہتری آئی ہے ؟ ڈاکٹر سید معین الدین عقیل نے فرمایا’’تربیتی نصاب(کورس ورک) بے حد مفیدمقصدکا حامل ہے اگر یہ ایک خام طالب علم میں تحقیق کا ذوق و شوق اور سلیقہ پیدا کرسکے۔اسے اس قابل بناسکے کہ وہ اپنے مطالعے میں وسعت اور گہرائی پیدا کرے، زبان کے استعمال کو نکھار سکے، اسے پختہ و منطقی اسلوب سکھاسکے،تحقیق کی اہمیت اور روایت سے روشناس کراسکے، تحقیقی معیار کا شعور پیداکرسکے، تحقیق کی قدیم و جدید روایات اور عصری تصورات و رجحانات سے واقف کراسکے، اوراسے ضروری ماخذ کی جستجو و تلاش پر پوری طرح آمادہ کرسکے اور اس میں اس کا سلیقہ سکھا سکے۔اگر تربیتی نصاب کے موضوعات ایسے ہوں تو اس نصاب کا مقصد پوراہوسکتاہے اور وہ ایک طالب ِ علم میںتحقیق کا حقیقی ذوق و شوق پیدا کرکے اسے ایک معیاری تحقیق پر آمادہ کرسکتاہے۔ایچ ای سی کی ہدایت پر جامعات نے ایسے نصاب کو رائج تو کیا لیکن سنجیدگی اور دیانت داری سے بہت کم کہیں عمل ہوتاہے۔بعض جامعات، جن میں کراچی یونیورسٹی سرفہرست ہے،ایک معیاری نصاب کو جاری نہ کرسکیں یا جاری نہ رکھ سکیں۔ایک تو نصاب ایسا بنایا گیا جسے کھلے لفظوں میں غیر معیاری اور فرسودہ و بے فیض کہاجاسکتاہے۔ پھر جو اساتذہ اس کی تکمیل کے لیے مقرر کیے گئے وہاں دوست داری، اقربا پروری اور جانب داری کو زیادہ ترجیح حاصل رہی۔ ایسے میں اہلیت و دیانت کہاں سے آتی۔اہل افراد کو جان بوجھ کر نظر انداز کیاگیا کہ اگر اہل افراد آئیں گے تو نااہلوں کا چراغ کیسے جلے گا۔چناں چہ جیسے تیسے نصاب کو بھی کبھی تکمیل کا منہ دیکھنے کا کہیں موقع نہیں ملتا۔ اساتذہ میں اہلیت بھی نہیں اور دیانت بھی نہیں کہ خود میں اہلیت پیدا کریں اور نصاب مکمل کرائیں۔وہ پڑھائیں گے ضرورچاہے صبح اپنے ذمے کی کلاسیں نہ لیں لیکن کورس ورک کی یہ کلاسیں ضرور اپنے ذمے ہی رکھیں گے۔ کیوںکہ اس تدریس کا معاوضہ زیادہ اور اضافی ملتاہے۔ اس لیے امتحان کیا لیں اور رسمی تقاضا کیسے پوراکریں۔ لہٰذا امتحان یا تو لیں گے ہی نہیں یا لیں گے تو تین چار سوال لکھا کر ان کے جواب لکھ کر لانے کی آزادی دے دیں گے اور کامیاب بھی بالعموم کردیں گے۔ ایسی صورت میں ایسے کورس ورک کا تکلف صرف خانہ پری ہوکر رہ گیاہے۔طلبہ ایسی پابندی سے نالاں ہی دیکھے گئے ہیں کہ ان کا وقت اور پیسہ ہی اس تکلف کی ادائیگی ہی میں ضائع ہورہاہے۔جب سے کورس ورک لازم ہوا ہے، میں نے تو اس کے بہت مفید اثرات مشکل ہی سے کسی یونیورسٹی میں دیکھے ہیں۔لیکن صورت حال میں اگر بہتری آئے اور کورس ورک کی نگرانی اور اس کے اجرا ٔ کا کوئی معقول اور دیانت دارانہ نظام وضع ہو تو اس کے فائدے بہت ہیں۔
اسی ضمن میںٗمیں نے ایک اور سوال داغ دیا کہ ’’کیا کسی اور ترقی پذیر یا ترقی یافتہ ملک یا ممالک میں ایم فل و پی ایچ ڈی کا یہی طریقہ رائج ہے ؟یا کوئی مختلف طریقہ ہے۔ذرا س بارے میں بھی کچھ بتائیے۔ تو اس پر ٓپ نے روشنی ڈالتے ہوے کہا کہ ’’جن بیرونی جامعات سے میں منسلک رہاہوں اورجن میں سے تین جامعات میں میری نگرانی میں بھی کام ہوئے ہیں وہاں کسی قسم کا کورس ورک لازم نہ تھا۔ ہاں جو طلبہ پی ایچ ڈی کی تحقیق میں دل چسپی رکھتے ہیںانھیں خود یا اپنے کسی پسندیدہ استاد کے ساتھ مل کر کسی موضوع کا انتخاب کرنا ہوتاہے اور پھر وہ استاد اس طالب علم کو اس موضوع سے متعلق یا اس سے قریب تر موضوع پر ایک جامع تحقیقی مقالہ لکھنے کی دعوت دیتاہے۔ جس پر وہ طالب علم خاصی سنجیدگی سے ایک مقالہ لکھتاہے جسے لکھتے ہوئے وہ ان خطوط کی پیروی کرتاہے جو اسے عمدہ مقالات کیں نظر آتے ہیں کہ کس طرح مآخذ اور ضروری مواد حاصل کیاجائے، کہاں کہاں سے حاصل کیاجائے،اور اسے استعمال کرتے ہوئے اس اسلوب میں جو عمدہ مقالات میں اختیار کیاجاتاہے، سامنے رکھ کر اسی اسلوب اور رسمیات کو اختیار کرتے ہوئے مقالہ لکھتاہے، جسے اس کا متوقع استاد غور سے دیکھ کر اس مقالے اور اس کے لیے اختیار کردہ طریقہ ٔ کار کو جانچتا اور پرکھتاہے اور اس مقالے کی بنیاد پر اس کے داخلے کی سفارش کرتاہے جو ایک مجلس میں زیر غور آتی ہے اور منظوری دی جاتی ہے یا اسے مزید محنت و جستجو کے لیے کہاجاتاہے۔ بہر حال اس مجلس کی منظوری حتمی طور پر لازم ہوتی ہے۔جب منظوری مل جاتی ہے تو وہ طالب ِ علم اپنا کام اصل موضوع پر شروع کردیتاہے۔ اس کے بعد دو سے تین سال میں یہ کام مکمل ہوتاہے۔میں نے دیکھا ہے کہ اس آزمائشی مقالے کو لکھنے کے لیے بھی طالب علم بے حد سنجیدگی سے مواد کے حصول کی جستجو کرتے ہیں۔ چوں کہ جنوبی ایشیا سے متعلق موضوعات کا مجھے راست تجربہ ہے اس لیے میں دیکھتاتھا کہ میرے طالب علم یا کسی اور استاد کے طالب علم پاکستان اور بھارت تک کے سفر اختیار کرکے ممکن ماخذ کی جستجو کرتے اور ان کی مدد سے مقالہ لکھتے تھے۔ (جاری ہے)

حصہ