ہم کیوں مسلمان ہوئے

291

ملک شہباز عبدالعزیز (امریکا)
(مائیکل ٹائی سن)
یہ 24 اور 25 مارچ 1995ء کی درمیانی رات کا ایک منظر ہے۔
شمالی امریکا کی ریاست انڈیا پولس میں واقع انڈیا یوتھ سینٹر کے باہر پھیلے ہوئے وسیع و عریض میدان میں ہجوم کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اس ہجوم میں ہر طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ ان میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو وقفے وقفے سے پرجوش نعرے لگا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور خیر مقدمی بینر اٹھا رکھے ہیں۔ ہجوم کی وسعت اور تعداد کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ اس میں شامل صرف صحافیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ یہ صحافی اور فوٹو گرافر عالمی سطح کے متعدد اخبارات و جرائد اور مختلف ریڈیو‘ ٹی وی اسٹیشنوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
جب سپیدۂ سحر نمودار ہو رہا تھا‘ اچانک ایک مسرت بھری آواز دور تک گونجتی چلی گئی ’’ملک عبدالعزیز آرہا ہے۔‘‘ اس آواز کے ساتھ ہی جوش و خروش کی ایک لہر ہر طرف پھیل گئی اور پھر ہزاروں آنکھوں نے دیکھا کہ ایک سیاہ فام مردِ آہن بڑے وقار اور تمکنت کے ساتھ انڈیانا یوتھ سینٹر نامی جیل کے مین گیٹ سے باہر آرہا ہے۔ اس کے اردگرد باڈی گارڈز کا جمگھٹا تھا۔ وڈیو فلم والوں اور فوٹو گرافروں نے پورے ماحول کو رنگ و نور سے نہلا دیا تھا۔ یہ مردِ آہن جو اس وقت سب نگاہوں کا مرکز تھا‘ ملک شہباز عبدالعزیز تھا۔
تین برس قبل جنوری 1993ء کی ایک سرد شام کو جب وہ اس جیل میں آیا تھا تو دنیا اسے ’’مائیکل ٹائی سن‘‘ کے نام سے جانتی تھی۔ باکسنگ کی تاریخ کا یہ انوکھا کردار جب یہاں پابند سلاسل کیا گیا تو وہ ایک سزا یافتہ قیدی اور عیسائی تھا مگر 25 مارچ 1995ء کی صبح جب وہ آزاد دنیا میں قدم رِکھ رہا تھا تو نئے جذبوں سے سرشار ایک مسلمان تھا۔ گزشتہ تین سال میں اس کے اندر حیرت انگیز انقلاب برپا ہوگیا تھا اور اس کا ظاہر و باطن بدل گیا تھا۔ اب مائیک ٹائی سن کہیں دور ماضی کے کھنڈرات میں دفن ہو چکا تھا اور ’’ملک شہباز عبدالعزیز‘‘ کی صورت میں ایک نیا انسان چلا آرہا تھا جو بند گلے کا کوٹ اور سر پر گول سفید ٹوپی لیے ہوئے تھا۔ دو برس قبل دنیا نے عظیم چیمپئن کے قبولِ اسلام کی جو خبر سنی وہ حرف بہ حرف درست تھی۔
ملک عبدالعزیز تھوڑی دیر بعد اپنی لیموزین کار میں بیٹھ رہا تھا۔ جونہی کار روانہ ہوئی اس کے ہزاروں مداحوں کا مجمع بھی حرکت میں آگیا اور بصد احترام اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ فضا میں ہیلی کاپٹر گشت کر رہے تھے جن سے پھولوں کی پتیاں پھینکی جا رہی تھیں۔
ملک عبدالعزیز اور ان کے مداحوں کا یہ کارواں پلین فیلڈ اسلامک سینٹر پہنچ گیا۔ سینٹر کے باہر کچھ فاصلے پر ایک بہت بڑا بینر آویزاں تھا ’’ملک شہباز عبدالعزیز! اللہ تعالیٰ آپ کو برکات سے نوازے۔‘‘ یہیں عظیم گلوکار بمیر بھی نظر اآرہا تھا۔ ملک عبدالعزیز مسجد میں داخل ہوا تو فضا اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی۔ اس علاقے میں پاکستانیوں کی خاصی بڑی تعداد آباد ہے۔ سینٹر میں اس وقت 200 سے زائد افراد موجود تھے جو نمازِ فجر کی ادائیگی کے لیے آئے تھے۔
ملک عبدالعزیز عین اُس وقت مسجد میں پہنچا تھا جب نماز فجر کے لیے جماعت کھڑی ہونے والی تھی۔ اب نماز شروع ہوئی تو ملک عبدالعزیز بھی صفِ اوّل میں عام نمازیوں کے درمیان موجود تھا۔ اوہائیو میں 27 ایکڑ کی اسٹیٹ کے مالک اور کروڑوں ڈالرز میں کھیلنے والا ملک عبدالعزیز جب سر بسجود ہوا تو دور کھڑے صحافی اور فوٹو گرافرز بھی اس کی سسکیاں سن رہے تھے۔ آہنی اعصاب کا مالک ملک عبدالعزیز جس نے اپنے مکوں کی بارش سے اب تک لاتعداد مکہ بازوں کو لہو کے آنسو رلایا تھا‘ بارگاہِ رب العالمین میں کھڑا زار و قطار رو رہا تھا۔
نماز سے فارغ ہو کر سینٹر کے امام محمد صدیق نے اعلان کیا کہ مائیک ٹائسن دو سال قبل اسلام قبول کر چکے ہیں اور ان کا اسلامی نام ملک شہباز عبدالعزیز ہے۔ پھر ملک عبدالعزیز نے کھڑے ہو کر ان تمام احباب اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے قید کے دوران میں اس سے ہمدردی کی تھی۔ پھر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے گویا ہوا کہ یہ سراسر اسی کی مہربانی ہے کہ اس نے میرے لیے راہِ ہدایت کشادہ فرمائی۔ مسلمان ہو کر مجھے ایک نئی قوت‘ نیا جذبہ اور نیا حوصلہ ملا ہے۔ میرے نزدیک اسلام دنیا کا سب سے بڑا امن پسند مذہب ہے۔ پچھلے برسوں میں قید کے دوران مجھے موقع ملا ہے کہ اپنی زندگی تبدیل کر لوں۔ اس دوران میں میری خوب ذہنی تربیت ہوئی ہے۔ اب میں ایک بہترین انسان کی طرح باقی ماندہ زندگی گزارنا چاہتا ہوں جو زیادہ سے زیادہ دوسروں کے کام آسکے۔ میں اسلام کے بارے میں بڑی دیر سے معلومات رکھتا تھا کیوں کہ کسی باکسر کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ محمد علی کو نہ جانتا ہو۔ تاہم مجھے اسلام کے بارے میں صحیح معلومات فراہم کرنے والی شخصیت جناب محمد صدیق ہیں۔
ملک عبدالعزیز نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے مزید کہا ’’میں جانتا ہوں کہ میں فرشتہ نہیں بن سکتا مگر میں ایک اچھے انسان کی حیثیت سے زندگی ضرور گزاروںگا کیوں کہ ماضی میں مجھ سے جو غلطیاں سرزد ہو چکی ہیں مجھے ان پر اب تک پچھتاوا ہے۔‘‘
ملک عبدالعزیز نے اپنی بات ان الفاظ پر مکمل کی ’’اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور سب کو خوش رکھے۔‘‘
ملک عبدالعزیز اس وقت اٹھائیسویں برس میں ہیں۔ انہوں نے جس ماں کے بطن سے جنم لیا تھا اس کا نام مورنا ٹائی سن ہے اور وہ اب بھی بروکلین کے علاقے میں رہائش پذیر ہے۔ عبدالعزیز کے کل تین بھائی ہیں۔ باقی دونوں ان سے بڑے ہیں۔ مورنا ٹائی سن کی زندگی کا وہ دور جب ان کے بچے ابھی عملی زندگی میں نہیں آئے تھے‘ بڑی مشکلات میں گزرا ہے۔ ایک طرف وہ اپنے ظالم شوہر کے ظلم سہتی تھیں اور دوسری طرف اپنے شرارتی بچوں کے ہاتھوں بہت تنگ تھیں۔ مائیکل ٹائی سن جو بعدازاں مائیک ٹائی سن کے نام سے مشہور ہوا اور اب ’’ملک عبدالعزیز‘‘ بن چکا ہے‘ وہ شرارتوں میں سب سے آگے تھا۔ لوگوں کے بٹوے چھین کر فرار ہو جانا‘ عورتوں سے ان کے لباس اور زیورات چھین کر رفو چکر ہوجانا اور پولیس کو جُل دے کر بحفاظت اپنے ٹھکانے پر پہنچ جانا… یہ مائیک ٹائی سن کا محبوب مشغلہ تھا۔ مگر پولیس ہر ہر مرتبہ ناکام نہیں رہتی تھی۔ مائیک ٹائی سن ایک ہی سال میں 38 مرتبہ گرفتاری کا ریکارڈ بھی رکھتا ہے۔ ایسی ہی ایک گرفتاری نے اس کی زندگی کا رُخ موڑ ڈیا۔ ہوا یوں کہ وہ بروکلین کے تجارتی علاقے میں جہاں وہ اکثر وارداتیں کرتا تھا اچانک رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا گیا اور پھر بچوں کے اصلاحی مرکز میں بھیج دیا گیا مگر اس کی شرارتیں اس مرکز میں بھی جاری رہیں۔ روزانہ کسی نہ کسی سے لڑائی جھگڑا کر لیتا۔ ایک روز اپنے سے بڑی عمر کے نوجوان سے لڑائی ہوگئی جس میں کوشش کے باوجود اس نے بری طرح مار کھائی۔ کم سن ٹائی سن کا ذہن اس روز یہی سوچتا رہا کہ اب اپنے آپ کو اتنا زیادہ طاقت ور بنانا چاہیے کہ کوئی ہاتھ اٹھائے تو بچ کر نہ جائے۔ چنانچہ اس نے جیل ہی میں ایک مکا باز باب اسٹوریٹ کی شاگردی اختیار کر لی۔ باب نے اسے اچھی طرح بتایا کہ اپنا دفاع کیسے کیا جائے۔ پھر ڈی اماٹو تھا جس نے فلائیڈ پیٹرسن کو بھی عالمی چیمپئن بننے میں مدد دی تھی۔ ڈی اماٹو نے مائیک ٹائی سن کے قانونی سرپرست کی حیثیت اختیار کر لی تھی مگر اگلے ہی برس وہ نمونیا میں چل بسا۔
باب اسٹوریٹ اور ڈی اماٹو نے مائیک ٹائی سن کو باکسنگ کی جس راہ پر گامزن کر دیا تھا 1985ء اس کے لیے اس راہ میں غیر معمولی کامیابی کی نوید لے کر آیا۔ اس سال اس نے ٹیری ہومز کو بدترین شکست سے دوچار کرکے عالمی چیمپئن کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ تب اس کی عمر صرف 18 برس تھی۔ پھر اگلے برس ٹریور کو دوسرے رائونڈ میں ناک آئوٹ کرکے باکسنگ کی تاریخ میں سب سے کم عمر ہیوی ویٹ چیمپئن کا اعزاز حاصل کر لیا۔ 7 مارچ 1987ء کو ورلڈ باکسنگ ایسوسی ایشن کے چیمپئن جیمز اسمتھ کو شکست سے دوچار کرکے یہ اعزاز بھی پالیا۔ واضح رہے کہ جیمز اسمتھ ’’ہڈیاں توڑنے والا‘‘ مشہور تھا۔ 1988ء میں ٹائی سن نے 21 برس کی عمر میں انٹرنیشنل باکسنگ ایسوسی ایشن کے ٹونی ٹکر کو بھی شکستِ فاش دے دی۔ اب کوئی باکسر نہیں بچا تھا جو مائیک ٹائی سن کے مقابل آسکے۔ 1991ء میں اگرچہ وہ ٹوکیو میں اپنے کیریئر کی پہلی پیشہ وارانہ شکست سے دوچار ہو چکا تھا تاہم جلد ہی اس نے متعدد کامیابیاں حاصل کرکے اس شکست کا داغ مٹا دیا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قوت اور تکنیک کا خزانہ ہے اور اس کے سامنے کوئی باکسر نہیں ٹھہرتا۔ وہ اپنے تین سالہ دورِ اسارت میں بھی جیل کے اندر مسلسل ورزش کرتا رہا ہے تاکہ جسمانی طور پر فٹ رہے اور رہائی کے بعد اپنے اعزاز کو بحال کر سکے۔
ابھی تک یہ راز افشا نہیں ہو سکا کہ مائیک ٹائسن کو کس جرم کی پاداش میں ’’ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئن‘‘ کے اعزاز سے محروم کیا گیا اور تین سال تک پابندِ سلاسل رکھا گیا۔ محمد علی کی طرح وہ مسلمان نہیں بلکہ عیسائی تھا۔ ہاں ایک جرم سامنے آتا ہے کہ وہ ’’کالا‘‘ ہے۔ نئے عالمی نظام کے علمبردار امریکا کے اندر کالے گورے کے درمیان یہ تفاوت پوری انتہا پر ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مائیک ٹائن سن بھی اسی تعصب اور امتیاز کا شکار ہوا ہے اور اس کے خلاف اسی نسل کی ایک لڑکی کو سازش کا حصہ بنایا گیا ہے۔
سیاہ فام حسینہ سے زیادتی کا الزام 1991ء میں سامنے آیا تھا۔ واشنگٹن ڈلیائری نامی یہ لڑکی جو ’’مس سیاہ فام امریکا‘‘ کے مقابلے میں شریک تھی‘ کے مطابق اکتوبر 1991ء میں ایک رات ٹائی سن نے اسے اپنے کمرے میں چلنے کی دعوت دی جہاں کچھ وقت گزارنے کے بعد اس نے ٹائی سن سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اسے لفٹ تک چھوڑنے آئے مگر ٹائی سن نے انکار کردیا۔ اس پر وہ مشتعل ہو گئی اور ٹائی سن پر زبردستی کا الزام عائد کر دیا۔ تین ماہ بعد ٹائی سن کی گرفتاری‘ ضمانت پر رہائی اور پھر سزا کے واقعات پیش آئے۔
سزا ملنے کے بعد مائیک ٹائی سن نے ایک بات جو تکرار سے کہی‘ یہ تھی کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ‘مجھ پر جھوٹا الزام لگایا گیا اور میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ساری عمر لڑتا رہوں گا۔
ٹائی سن نے قبولِ اسلام کی صورت میں جواقدام کیا ہے‘ مغرب کے نزدیک یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اب اسے ساری زندگی مغرب کے جارحانہ رویّے کا سامنا کرنا ہوگا۔ خود ٹائی سن یعنی عبدالعزیز کے الفاظ ہیں کہ اس رویّے کے خلاف میں ساری عمر لڑتا رہوں گا۔ ٹائی سن کے لاکھوں مداحوں نے بھی اس الزام کی بار بار مذمت کی ہے اور وہ الزام کو من گھڑت قرار دیتے ہیں اور الزام لگانے والی حسینہ کو اب تک کوستے ہیں جس کی وجہ کی وجہ سے اتنا بڑا باکسر مشکلات میں گھر گیا۔
بہرحال جو کچھ وہا‘ اگرچہ بظاہر یہ پریشان کن صورتِ حال تھی‘ مگر اب اس شر سے بھی خیر برآمد ہوگیا ہے۔ ٹائی سن جیل میں جا کر پہلے پہل تو خاصا پریشان رہا پھر اس نے اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگی۔ انہی حالات میں وہ مطالعہ کی طرف آگیا۔ چنانچہ اس نے ٹالسٹائی‘ نطشے‘ ڈیوس اور دیگر عالمی ادیبوں کی کتب پڑھ ڈالیں۔ پھر اسلامی کتب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اسی اثناء میں محمد علی اور ایک دوسرے باکسر مصطفی محمد نے جیل میں اس سے ملاقاتیں کیں۔ پلین فیلڈ اسلامک سینٹر کے امام محمد صدیق کا رابطہ بھی رہا۔ محمد علی جب ٹائی سن کے پاس گیا تو اس نے بتایا کہ 1966ء میں مجھے امریکیوں نے ویت نام کی جنگ میں شرکت پر مجبور کیا تو میں نے انکار کر دیا تھا۔ چونکہ میں ان دنوں نیا نیا مسلمان ہوا تھا اس لیے میرے خلاف فوری کارروائی کی گئی اور مجھ سے میرا اعزاز چھین لیا گیا۔ لیکن اس سے میرے عزم و ثبات میں ذرۂ بھر بھی فرق نہ آیا اور میں اپنے دعوائے اسلام پر بدستور قائم رہا۔ اس پر ٹائی سن نے محمد علی سے دریافت کیا ’’آپ کے پاس کون سی طاقت تھی جس نے آپ کا مورال بلند رکھا؟‘‘
’’اسلام‘‘ محمد علی نے جواب دیا۔ پھر کچھ دیر ٹھہر کر کہا کہ ’’اسلام نے میرے اندر اتنی قوت بھر دی تھی کہ میں پوری دنیا کا مقابلہ کرسکتا تھا۔‘‘
محمد علی سے ملاقات کے اگلے روز ٹائی سن قرآنِ مجید کا مطالعہ کر رہ تھا۔
محمد علی نے مائیک ٹائی سن کے قبولِ اسلام کی خبر سن کر ایک بار پھر اس سے ملاقات کی اور مفید مشوروں سے نوازا۔ بعدازاں پریس سے گفتگو کرتے ہوئے اس نے کہا ’’قبولِ اسلام سے ٹائی سن کی زندگی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن جائہے گی اور اس کی ایک ایک بات کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا جائے گا‘‘ لیکن ٹائی سن اسلام کے حوالے سے نہایت پُرجوش نظر آتے ہیں۔ آج ذرائع ابلاغ نے محمد علی کی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف درست ثابت کردی ہے۔ اس کے قبولِ اسلام کی خبر اخبارات نے شہ سرخیوں سے شائع کی ہے۔ ایک اخبار نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ’’ٹائی سن کے قبول اسلام سے امریکا میں گویا زلزلہ آگیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو اب تک یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ٹائی سن ایسا بھی کرسکتا ہے۔‘‘
ٹائی سن کا یہی ’’جرم‘‘ کچھ ہلکا نہ تھا کہ وہ سیاہ فام ہے اور اپنے مکوں کی بارش سے لاتعداد لوگوں کا بھرکس نکال چکا ہے اب اس نے اسلام قبول کرکے مغرب کے نزدیک اپنے جرم کی سنگینی کو کئی گنا بڑھا لیا ہے۔ پہلا جرم تو شاید قابلِ قابلِ معافی تھا مگر دوسرا جرم قطعی ناقابل معافی ہبے۔ مغربی میڈیا کے لیے یہ بات نہایت درجہ صدمہ انگیز ہے کہ دوسرا عالمی چیمپئن بھی مسلمان ہو گیا ہے۔ چنانچہ اسے اخبارات میں بڑے تواتر سے بدتمیز‘ جاہل‘ اجڈ اور آوارہ گرد قرار دیا جارہا ہے۔ ’’عرب نیوز‘‘ نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹائی سن یعنی ملک شہباز عبدالعزیز کو آنے والے واقت میں اور زیادہ شدید نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مغربی اخبارات میں ان دنوں یہ بحث چلی ہوئی ہے کہ ملک عبدالعزیز کی آئندہ زندگی کیسی ہوگی۔ لندن کے تمام اخبارات نے بھی ٹائی سن کے حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کی خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی تھی۔ یہ اخبارات اب تفصیل کے ساتھ اپنے قارئین کو بتا رہے ہیں کہ سابقہ عالمی چیمپئن کے نزدیک صحافی اور فوٹو گرافر کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور وہ نمازوں کے اوقات میں ان سے ملنے کے بجائے مسجد چلا جاتا ہے۔ اب وہ مکمل طور پر ایک نئے انسان کے روپ میں سامنے آرہا ہے۔ ہر ملاقاتی کو ’’السلام علیکم‘‘ کہنا اس کا شعار بن گیا ہے اور وہ سر پر باریک کاٹن کی ٹوپی پہنتا ہے جو پابندِ نماز مسلمانوں کی علامت ہے۔
ملک عبدالعزیز کو تنقید کے ساتھ ساتھ تائید بھی مل رہی ہے۔ جن دنوں اس کے قبولِ اسلام اور رہائی کی خبریں اخبارات کی زینت بنی تھیں‘ سوڈان میں عالمی اسلامی تحریکوں کا اب تک کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہو رہا تھا‘ اس کانفرنس میں 80 ممالک سے 300 سے زائد وفود شریک تھے۔ کانفرنس کے تمام شرکا نے ٹائی سن کے قبولِ اسلام کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کی۔ اس موقع پر کانفرنس میں شریک امریکی وفد کے سربراہ اکبر محمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مائیک ٹائن سن کا قبولِ اسلام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکا کی نئی نسل میں اسلام تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔

حصہ