جماعت اسلامی ہمارا خاندان

296

مولانا کے علمی خزانے سے زمانے کو اس طرح فیض نہیں پہنچ سکا جس کا وہ حق دار تھا

یونیورسٹی کے دور میں دوپٹہ سے اچانک کوئی برقع میں آجاتا تو طالبات کے درمیان سوال پیدا ہوتا تھا، یونیورسٹی میں ایک تعداد ناقدین کی تھی اور ایک خیرخواہوں کی۔ کئی خیر خواہوں نے سوال کیا، تم لوگ کس کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہو؟ ہمارا جواب ایک ہی ہوتا ’’کتاب سے‘‘۔ اس سرکل میں آنے والوں کے ہاتھ میں کتاب دے دی جاتی ہے اور ان کا نہ ختم ہونے والا تعلق کتاب سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
یہ جماعت اسلامی ہی ہے کہ اس کی کوکھ سے جنم لینے والی جمعیت سے جب کوئی لڑکا یا لڑکی کم عمری میں جڑتا ہے تو دوچار سال میں وہ پورے قرآن کو ’’ثواب‘‘ اور ’’برکت‘‘ اور ’’ختم‘‘ سے آگے بڑھ کر ’’تفہیم‘‘ کے ساتھ پڑھ چکا ہوتا ہے۔ تنقیحات، پردہ، تفہیمات، دینیات، خلافت و ملوکیت، الجہاد فی الاسلام و دیگر درجنوں کتابوں پر ڈسکشن، ان کے تحریری امتحان، اسٹڈی سرکل جیسی مشقوں سے گزر کر وہ اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں ایک بالغ نظر فرد بن جاتا ہے۔
عمر کا وہ دور جب طالب علم اسلامیات کے استاد سے سنتا ہے کہ سارے انسان اللہ کی تخلیق ہیں اور بیالوجی کے استاد آکر بتاتے ہیں کہ میاں تم بندر سے انسان بنے ہو۔ دینیات کی استانی آکر کہتی ہیں کہ سود حرام ہے اور اگلے پیریڈ میں معاشیات کے استاد آکر بتاتے ہیں کہ سود کے بغیر کوئی معیشت چل ہی نہیں سکتی۔ ایسے میں مولانا مودودیؒ کا قاری چاہے وہ عمر کے جس دور میں ہو نہ صرف وسیع النظر بلکہ وسیع القلب ہوجاتا ہے اور تنگ فقہی دائروں میں قید ہونے سے بھی بچ جاتا ہے۔
مولانا کا لٹریچر اس کا کوئی بھی حصہ آپ کسی طرح کے حالات میں پڑھیں وہ اسلام کی ابدی تعلیمات کو نئے زمانے میں نئے حالات پرمنطبق کرنے کا ہنر سکھاتا ہے۔ طالب علمی کا وہ دور جب طلبا و طالبات نصابی کتب کے علاوہ جاسوسی ناولز، رومانوی ڈائجسٹ یا فیشن میگزین پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں، اس نظریاتی تحریک سے وابستہ لوگ سنجیدہ اور ٹھوس مطالعے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس وقت جب کہ کتاب کا رشتہ قاری سے کمزور ہوتا جارہا ہے لیکن اس جماعت سے وابستہ ہر فرد کے گھر میں نہ صرف لائبریری ہوتی ہے، مرد گھر کے ہر بچے بلکہ خاندان کے بچوں کا رشتہ بھی کتاب سے بڑا مضبوط ہوتا ہے۔
اجتماعات اور تربیت گاہیں کتابوں کی بہار ساتھ لاتے ہیں حتیٰ کہ خوشی اور تہوار کے موقع پر بھی کتاب ہی سب سے قیمتی تحفہ سمجھا جاتا ہے اور یہی دینے کا چلن ہے۔
جماعت اسلامی ایک نظریاتی جماعت ہے، نظریات کی بنیاد علم اور دلیل پر ہے، ہم جس کے پیروکار ہیں اس کی بنیاد کا پہلا پتھر ہی لفظ ’’اقرا‘‘ ہے۔ اسلامی تاریخ کے تمام ادوار میں ایسی علمی تحریکیں اٹھتی رہی ہیں۔ صوفیائے کرام نے دعوت اور تبلیغ کے چراغ جلائے اور ہزاروں افراد گمراہی کے اندھیروں سے حق کی روشنی کی طرف آتے رہے۔ امام غزالیؒ ہوں یا ابن تیمیہؒ، مجدد الف ثانیؒ یا شاہ ولی اللہ محدٹ دہلویؒ اسلام کے پیغام کو عمل کے سانچوں میں ڈھالنے کی دعوت دیتے رہے۔
شاہ ولی اللہ کے ٹھیک دو سو برس بعد اللہ تعالیٰ نے ایک ہستی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا انتخاب کیا جن کی تعلیمات اور تصنیفات نے بتایا کہ اسلام ہر دور کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
کیرن آرمسٹرانگ جو ایک کیتھولک راہبہ ہے اس نے مولانا کے لٹریچر کا بغور مطالعہ کیا ہے، اپنی کتاب ’’اسلام اے شارٹ ہسٹری‘‘ میں تحریر کرتی ہے، مولانا مودودیؒ نے 1939ء میں اپنا تصور وضع کرتے ہوئے کہاکہ جس طرح اسلام سے پہلے ’’جاہلیت‘‘ کی جہالت اور وحشت کی جنگ تھی بالکل اسی طرح دنیا بھر کی مسلمانوں کو تمام دستیاب ذرائع سے مغرب کی جدید جاہلیت کی مزاحمت کرنا ہے۔ مودودیؒ کو یقین تھا کہ سچے مسلمان دنیا سے الگ رہ کر سیاست کو دوسروں پر نہیں چھوڑ سکتے۔ انہیں لادینی سیکولر ازم سے لڑنے کے لئے لازماً ملحد ہوجانا چاہئے اور ایک انتہائی منظم گروہ تشکیل دینا چاہئے۔ مودودیؒ نے لوگوں کو متحرک کرنے کے لیے اسلام کو ایک مدلل عقیدے اور منظم تحریک کے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی تاکہ اسے بھی زمانے کے دوسرے نمایاں نظریات کی طرح سنجیدگی سے لیا جائے‘‘۔مولانا کے علمی خزانے سے زمانے کو اس طرح فیض نہیں پہنچ سکا جس کا وہ حق دار تھا۔ تحریک سے وابستہ افراد کو بھی یہ لٹریچر بھی دلیل کی قوت فراہم کرسکتا ہے۔ مولانا اپنے قاری کو عزم، حوصلہ، جرأت اور غیر معذرت خواہانہ انداز اختیارکرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ وہ نظریے کی قدر پر یقین رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’من قال‘‘ سے زیادہ اہم ہے ماقال۔
یہ مولانا مودودیؒ علہیم الرحمتہ کے اخلاص نیت اور لٹریچر کا فیضان ہے کہ جماعت اسلامی آج 80 برس بعد بھی ایک زندہ اور متحرک جماعت ہے۔ کتنی جماعتیں اور پارٹیاں بنتی اور مٹتی رہیں لیکن جماعت اسلامی نے اپنے نظریہ سے پہلوتہی کی نہ زمانے کے مروجہ طریقوں پر خود کو اندھا دھند بدلنے کی کوشش کی، نہ ’’عوامی‘‘ بننے کی خواہش میں شریعت کے تقاضوں کو پامال کیا۔ مولانا نے کوئی انسائیکلوپیڈیائی لٹریچر تخلیق نہیں کیا نہ قاری کو عین اور قاف کی بحثوں میں پڑنے دیا۔ اسی لئے جماعت اسلامی کا کارکن ہر دور میں ایک جدید فلاحی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے سرگرم عمل رہتا ہے۔
زمانہ جماعت اسلامی کی کامیابی کو قومی اسمبلی میں اس کی نشستوں سے تولتا ہو مگر جماعت اسلامی کے کارکن کے لیے کبھی کامیابی کا پیمانہ یہ نہیں رہا۔ اس کے لیے کامیابی کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ اپنے مشن کے ساتھ کتنا وفادار ہے؟ یہ اس لیے کہ یہ ان معنوں میں سیاسی جماعت نہیں جیسے دوسری سیاسی پارٹیاں جن کی ساری تگ و دو ہی انتخابات جیتنے کے لیے ہوتی ہے، نہ یہ ان معنوں میں مذہبی جماعت ہے جو وضو، طہارت، رضاعت اور وراثت کے مسائل سے آگے ہی نہ بڑھتی ہو۔ مولانا کے اس جماعت کے لیے تحریک کی اصلاح استعمال کی، یہاں تحرک نہ مالی مفادات کے لیے ہے نہ مناصب اور پارٹی ٹکٹ کے لیے، نہ یہاں کبھی فنڈز لینے دینے کے مسائل پیدا ہوتے ہیں نہ پارٹی الیکشن میں امیدوار اپنے لیے کنویسنگ کرتے ہیں۔
جو جماعت اسلامی کو دور سے دیکھتے ہیں کبھی نہ کبھی یہ سوال ضرور ان کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہوگا کہ، یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں۔
یہاں لوگ لینے نہیں دینے کے جذبے سے داخل ہوتے ہیں۔ اپنی بہترین صلاحیتیں، مال اور اوقات اس راستے میں دیتے ہیں اور جواب میں انہیں جوکچھ ملتا ہے وہ حق کے راستوں پر چلنے کی سعادت کے علاوہ ایک خاندان کا تحفظ اور پیار و محبت۔
خون کے رشتے کمزور پڑ رہے ہیں، رحم کے رشتوں کو نبھانے کے لیے فرصت میسر نہیں ہے ایسے میں جماعت اسلامی ایک عظیم خاندان کی طرح اپنے کارکنوں کو دامن میں چھپائے ہوئے ہے جس کو بلاشبہ ماں کی گود سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔
یہی ہمارا خاندان ہے اور ہم اپنے اسی خاندانوں کو بھی اسی خاندان کے دامن عافیت میں لانے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔
جماعت اسلامی سے باہر لوگ اس کو فرشتوں کی جماعت سمجھتے ہیں اور فرشتوں کے معیار پر پورا نہ دیکھ کر اس پر تنقید بھی کرتے ہیں لیکن جماعت اسلامی سے جڑے لوگ یہ جانتے ہیں کہ یہ انسانوں کی جماعت ہے۔ انسان جہاں بھی ہوتے ہیں کمزوریوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔
جماعت میں اختلاف رائے ہوتا ہے، پالیسیوں پر تنقید ہوتی ہے، ذاتی رنجش اور کہیں حقوق کی بھی پامالی ہوجاتی ہے۔ انسانی کمزوریاں بھی غالب آجاتی ہیں، لیکن خوب صورت اجتماعیت کسی خرابی کو تادیر نہیں رہنے دیتی۔ تزکیہ و تربیت کی لانڈری میں سب میل کچیل دھلتا رہتا ہے۔
جماعت اسلامی میں وفاداریاں بدلی جاتی ہیں نہ خریدی جاتی ہیں۔ یہاں جو آتا ہے کشتیاں جلاکر آتا ہے، یہ مقولہ مشہور ہے کہ اگر کوئی جماعت اسلامی سے نکلتا بھی ہے تو جماعت اسلامی اس کے اندر سے نہیں نکلتی…!
مزے کی بات یہ یہاں کوئی ریٹائرمنٹ کی عمر کو نہیں پہنچتا، کسی کو چھٹی کی ضرورت نہیں ہوتی، اس وقت ہم تین نسلیں جماعت اسلامی میں دیکھ رہے ہیں، ہمارے بزرگ اور ہمارے بچے جو تعلیمی اداروں یا عملی زندگی میں تحریک کا حصہ ہیں، یہاں بزرگ سب سے زیادہ متحرک ہیں۔ وہ جوانوں سے زیادہ تیز دوڑ رہے ہیں کہ زندگی کا ہر ساعت سے خیر سمیٹ لیں۔ جب تک اعصاب ساتھ دیتے ہیں ہرفرد یہاں کھڑا رہتا ہے۔
خالہ جان 80 کی دہائی میں ہیں اس وقت میں مزاج پرسی کو گئی تو کتابچوں کا ایک لفافہ مجھے تھمادیا درجن بھر کتابچے ہوں گے ’’آئو اکٹھے جنت میں چلیں‘‘، ’’قرب الٰہی کا آسان طریقہ‘‘۔ بولیں تقسیم کردیجئے گا۔ ایسے کئی لفافے میز پر موجود تھے، بولیں اب زیادہ سفر نہیں کرسکتی مگر تڑپتی رہتی ہوں کہ اپنے حصے کا کام پورا نہیں کرسکی۔ جب تک پیروں نے ساتھ دیا یہی کام کرتی رہی۔ نہ بہت تعلیم یافتہ ہوں نہ مقررہ، رشتہ داروں سے فنڈ اکٹھا کرتی رہی اور لوگوں میں کتابیں تقسیم کرتی رہی کہ کیا پتا کون ہدایت پاجائے۔ بیٹے، انسان اسی آب حیات کے لیے ترس رہے ہیں جو ہمارے پاس ہے۔
ہماری بزرگ ساتھی نے ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود دونوں گھٹنوں کا بیک وقت آپریشن کرالیا، میں عیادت کو گئی تو بولیں بیٹے کو تو بتایا ہی نہیں کہ کبھی اجازت نہ دیتا۔ سارا انتظام کرکے اسپتال جانے سے قبل اسے اطلاع دی۔ چند ہفتہ بستر پر رہیں۔ ایک دن فون کیا بولیں ’’میرے پرانے حلقے جہاں میری معذوری کے باعث درس قرآن بند ہوگیا تھا الحمدللہ اب چلنے کے قابل ہوگئی ہوں پھر وہ حلقے شروع ہوگئے۔ سب بہت خوش ہوئے میری واپسی سے۔ میں نے دعا کی کہ مولا جب تک زندہ ہوں ان پیروں کو اپنے راستے کی دھول سے محروم نہ کیجئے گا‘‘۔
یہ قافلہ سخت جان وطن کے چپے چپے پر ایسی سینکڑوں مثالیں رکھتا ہے جن پر درجنوں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ مشرق و غرب میں یہ دعوت پھیلتی جارہی ہے، دنیا بھر کی اسلامی تحریکیں فکر مودودیؒ سے استفادہ کررہی ہیں۔
خدا کی رحمتیں تم پر… سو بار مودودیؒ
جنت آپ کا ٹھکانہ ہو۔ اس لیے کہ دنیا میں تو آپ کو آرام نصیب نہ ہوسکا کہ آپ کہا کرتے تھے:
٭’’جس وضو سے عشا کی نماز ادا کرتا ہوں اکثر اسی وضو سے فجر بھی ادا کرلیتا ہوں‘‘۔
٭’’جب میری آنکھیں سونا چاہتی تھیں میں نے انہیں نیند سے دور رکھا اب میں، سونا چاہتا ہوں اور نیند نہیں آتی‘‘۔
٭ اب میری ہڈیاں بھی مجھ سے اپنا حق مانگتی ہیں‘‘۔
اللہ کریم اس تحریک سے جڑے ہر فرد کو آپ کا صدقہ جاریہ بنادے، آمین۔

حصہ