کل لانڈھی ڈبل روڈ سے متصل علاقوں کے رہائشی واٹر بورڈ کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر اٹھا رکھے تھے۔ جبکہ مجھے چند نوجوانوں کے ہاتھوں میں کپڑے سے تیار کردہ پُتلے بھی نظر آئے۔ مظاہرین پُرامن طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے سڑک کے اطراف جمع ہورہے تھے کہ یک دم پولیس نے انٹری مار دی۔ پھر کیا تھا، پولیس موبائیل کو دیکھ کر مظاہرین آپے سے باہر ہوگئے، تاہم اس سے پہلے کہ کوئی ناخوش گوار واقعہ رونما ہوتا، بزرگوں نے گرم ہوتی فضا کو ٹھنڈا کردیا، لیکن احتجاج بدستور جاری رہا اور حکومت مخالف نعرے بازی چلتی رہی۔ تمام لوگ خاصے غصے میں تھے، چند نوجوانوں نے ٹائر جلا کر سڑک بلاک کرنے کی بھی کوشش کی، لیکن انہیں اس حد تک نہ جانے دیا گیا۔ بچے خالی بوتلیں لہرا کر، جبکہ خواتین کی بڑی تعداد ہاتھوں میں مٹکے اٹھا کر سندھ حکومت کے خلاف ”پانی دو پانی دو“… ”گو بلاول گو“ جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔ یہ احتجاج رات گئے تک جاری رہا جبکہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس کا استعمال کیا جاتا رہا۔ پولیس سے آنکھ مچولی کے دوران چند خواتین زخمی ہوگئیں جس کے باعث علاقے میں سخت کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اس ساری مشق کے دوران علاقہ مکینوں کو پانی تو نہ مل سکا لیکن پانی کی فریاد کرنے والوں کی آنکھیں ضرور نم ہوگئیں۔
بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی جہاں ایک طرف سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے وہیں دوسری جانب مسائل میں گھرے عوام نے بھی بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر سیاست دانوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے، لانڈھی میں پانی کی بندش کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران عوامی ردعمل کے طور پر بلاول بھٹو زرداری کے خلاف نعرے بازی ہونا نئی بات نہیں، اس سے پہلے بھی ایسے احتجاجوں کے دوران کراچی میں ڈاکٹر فاروق ستار، اندرون سندھ خورشید شاہ، نثار کھوڑو، اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سمیت متعدد رہنما اسی طرح کے عوامی غم و غصے کا سامنا کرچکے ہیں، جس کے بعد ردعمل کے طور پر ملک بھر کی تمام ہی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے قائدین کی حمایت میں اور احتجاج کرنے والوں کے رویّے کے خلاف مزاحمتی بیانات جاری ہونے لگتے ہیں۔ بے شک کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اور نہ ہی کسی ایسے عمل کی حمایت کی جا سکتی ہے جس سے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہو، یا کسی کی املاک سمیت انسانی جان کو کوئی خطرہ ہو، لیکن اپنے جائز مطالبات کے لیے آواز اٹھانے، یا پُرامن احتجاج کرنے کا حق بھی آئین میں درج ہے، جس کے مطابق عوامی مسائل پر احتجاج کرنا عوام کا حق ہے۔ جب سیاسی جماعتوں کو پُرامن ماحول میں بلا خوف و خطر کارکردگی کی بنیاد پر اپنے اپنے منشور کی تشہیر کرنے کی مکمل آزادی ہے تو عوام کی جانب سے کیے جانے والے پُرامن احتجاج پر انتظامیہ کیوں حرکت میں آجاتی ہے؟ میرے نزدیک عوام کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کو روکنے کے بجائے سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کل تک زندہ باد زندہ باد کہنے والے آج مُردہ باد اور گوگو جیسے نعروں کا انتخاب کرنے پر کیوں مجبور ہوئے؟ اگر کھلے ذہن سے سوچا جائے تو ذرا سی توجہ دینے سے یہ بات صاف ہوجائے گی کہ کل تک جو سیاسی قائدین ایک دوسرے کے خلاف صف آراء تھے، یہاں تک کہ سیاست کے نام پر ذاتی لڑائیاں لڑا کرتے ہیں، اپنے سیاسی مفادات کے لیے ایک دوسرے کے حق میں بیانات دینے لگتے ہیں، یعنی ان کے درمیان ہونے والا اتحاد احتجاج کرتے عوام کے خلاف ہی ہوتا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت عوامی مسائل میں گھرے پریشان عوام کی حمایت میں ایک لفظ تک نہیں کہتی۔ انہیں صرف اپنے مفادات کا تحفظ آتا ہے، بقول شاعر:
یہ لوگ اس کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں
کہ اقتدار رہے ان کے جانشینوں میں
میں یہ بات مانتا ہوں کہ چند سیاسی جماعتیں ضرور ایسی ہیں جو نہ صرف عوامی مسائل پر آواز اٹھاتی ہیں بلکہ عملی طور پر عوام کے ساتھ کھڑی بھی رہتی ہیں، جس کی بہترین مثال جماعت اسلامی ہے، جس نے اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود نادرا، اور کے الیکٹرک جیسے بگڑے ہوئے اداروں کا قبلہ درست کروانے کے لیے اپنے شب و روز ایک کرڈالے، اسی طرح شہر میں پانی کی کمی اور ٹینکر مافیا کی من مانیوں کے خلاف پوری قوت سے میدانِ عمل میں اتری۔ جماعت اسلامی کی جانب سے کیے جانے والے کام اپنی جگہ، لیکن یہاں تو عوام سوال اُن سیاسی جماعتوں اور اشرافیہ سے کررہے ہیں جو دہائیوں سے برسراقتدار ہیں اور جن کے رہنما دو گھڑی ٹھیر کر عوام کی فریاد تک سننے کو تیار نہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ عوام سڑکوں پر احتجاج کرتے رہیں اور ایسے رہنماؤں کو انڈے اور ٹماٹر مارتے رہیں، بلکہ مسئلہ تو یہ ہے کہ برسوں سے اقتدار کے مزے لوٹنے والے آج بھی سیکڑوں گاڑیوں کے قافلوں کی قیادت کرتے ہوئے بجائے سننے کے اپنی ہی سنانے کو ترجیح دیتے ہوئے گزرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ جہاں سے بھی گزرتے ہیں وہاں کرفیو کا سماں ہوتا ہے، ہر طرف سوائے پولیس کی نفری اور سرکاری پروٹوکول کے کچھ نہیں ہوتا۔ ان کے گزرتے ہوئے قافلوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف ہم جیسے غریب عوام ہیں تو دوسری جانب حکمران طبقہ… ایک طرف فقر و فاقہ، سسکتے بلکتے عوام جن کے پاس کھانے کو دو وقت کی روٹی نہیں، تو دوسری طرف ان وڈیروں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے لیے کروڑوں روپے کے فنڈز مختص کردیے جاتے ہیں۔ ایک طرف مرگِ انبوہ ہے تو دوسری طرف جشن کا سماں۔ ان کی بنائی ہوئی پالیسیوں کی بدولت لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں، غریب نہ صرف اپنے بچے فروخت کررہے ہیں بلکہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اپنے گردے تک بیچ رہے ہیں۔ ان ہی کی وجہ سے ملک گمبھیر مسائل کے بھنور میں پھنستا جارہا ہے۔ خوشحالی اور ترقی تو کجا، عوام صحت، تعلیم اور ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ اس صورت حال میں اگر عوام اپنے جائز حقوق کے لیے آواز بلند کریں تو ان کے اس عمل کو پُرتشدد احتجاج کا نام دے کر غریبوں کی ہی زبان بندی کی جاتی ہے۔ عوام تو صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ امن و امان کی خرابی، رشوت، سودی نظام، قتل و غارت گری، دہشت گردی، انتہا پسندی، ملاوٹ، کرپشن، چور بازاری، ظلم و ناانصافی، تھانہ کلچر جیسے مسائل پر کیا اقدامات کیے گئے؟ اب عوام نے سوچ لیا ہے کہ جب تک جواب نہیں ملتا ہم سارے مظلوموں کو یہی کہتے ہوئے باہر نکالیں گے:
یہی تو وقت ہے آگے بڑھو خدا کے لیے
کھڑے رہو گے کہاں تک تماش بینوں میں
ظاہر ہے جب کوئی سننے کو تیار نہ ہو تو عوام کی جانب سے ”سب اچھا ہے“ کا راگ سننے کی توقع رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اب صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کہہ دینے سے کام نہیں چلے گا، اب عوامی امنگوں کے مطابق ہی ملک کو چلانا ہوگا، پاکستان کو صحیح طور پر ایسی اسلامی ریاست میں تبدیل کرنا ہوگا جہاں ایک شخص کھڑا ہوکر خلیفہِ وقت سے یہ سوال کرسکے کہ آپ کے پاس پورے جوڑے کا کپڑا کہاں سے آیا؟ جہاں خلیفہِ وقت کو بیت المال سے ایک چمچ شہد لینے کے لیے عوام سے اجازت لینی پڑے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمراں یورپ کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے، حالانکہ ہمارے حکمران تو اُن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نام لیوا ہیں جن کے پاس بسا اوقات دو جوڑے نہیں ہوتے تھے لیکن عوام خوش تھے، حالات سے مطمئن تھے۔ ایک مرتبہ نماز میں دیر ہوگئی، آپ نے پیغام بھجوایا کہ میرے پاس اس وقت ایک ہی جوڑا ہے اور وہ سوکھ رہا ہے، کچھ دیر میں خشک ہوجائے پھر آکر امامت کراؤں گا۔ اپ راتوں کو بھیس بدل کر گلیوں کا گشت کیا کرتے تھے تاکہ عوام کی اصل صورت حال کا اندازہ کیا جاسکے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی جانور بھی بھوک سے مر جائے تو قیامت کے روز عمر سے پوچھ ہوگی۔ اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ایک روز دوران نماز زار و قطار رو رہے تھے، جب نماز پڑھ چکے تو آپ کی اہلیہ نے پوچھا: کیوں رو رہے تھے؟ فرمایا: میں نے خلافت قبول کرکے اپنے اوپر بوجھ لاد لیا ہے، اب میری ذمہ داری ہے کہ اتنے بڑے علاقے کے غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کی تمام ضرورتیں پوری کروں، یہ اتنے بڑے بوجھ کا خیال ہی مجھے ہر وقت رلاتا ہے۔
ایک طرف یہ صورتِ حال ہے تو دوسری طرف قربان جاؤں اپنے لیڈران پر، جو الیکشن جیتنے کے لیے اپنی جیب سے کروڑوں روپے محض اس لیے لگا دیتے ہیں تاکہ عوام کی خدمت کرسکیں۔ ان کے اس جذبے کو سلیوٹ کرنے کو جی چاہتا ہے، جبکہ ان کے کردار کو کون نہیں جانتا! آج بھی عوام سے لقمہ چھیننے کی پالیسیاں جاری ہیں اور غریب کو جینے کا حق حاصل نہیں۔ روٹی، کپڑا، مکان اور روزگار کا منشور دے کر غریبوں کے نام پر اقتدار حاصل کرنے والی اس جماعت کے دور میں غریبوں کا ہی استحصال ہوتا رہا ہے جو اب تک جاری ہے۔ کہنے کو تو صوبہ سندھ میں آج بھی غریب کا نام لینے والی جماعت برسراقتدار ہے، لیکن غریب کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ اگر وفاق میں برسراقتدار جماعت یا جماعتوں کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ صرف پیٹرولیم مصنوعات کو ہی لے لیجیے جن کی قیمتوں میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ کیا جاتا ہے جبکہ چند پیسوں کی کمی کرنے کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ پاکستان میں 75برس سے جو کچھ بھی ہوتا چلا آرہا ہے اس کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی۔
سنو، پاکستان بدل رہا ہے۔ لوگوں میں سیاسی شعور آتا جا رہا ہے۔ عوام بیدار ہوچکے ہیں۔ اب حکمرانوں کو جواب دینا ہوگا،بصورتِ دیگر عوامی احتجاجوں کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا۔