خواب

213

وہ ٹرے لیے ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوئی۔ جہاں ابّا اور دادا جان سیاست کی بدتر صورت حال پر بحث کر رہے تھے۔ اس نے ٹیبل پر ٹرے رکھ کر ٹی وی کی جانب دیکھا۔ اس پر بھی کوئی ٹاک شو چل رہا تھا لیکن اسے میوٹ کیا گیا تھا۔ یقینا جس سوال کا جواب لینے میں وہ اینکر ناکام ہوا تھا‘ اسی سوال کا جواب اب دادا جان، ابا سے یا ابا دادا جان سے لینے کی جدوجہد میں تھے۔
چائے رکھ کر وہ افسوس سے سر ہلاتی باہر آئی۔ مائرہ کو یہ بحثیں پسند نہیں تھیں۔ اپنے کمرے میں آکر وہ بیڈ پر بیٹھ گئی جہاں اس کی کھلی کتابیں اس کی منتظر تھیں۔
’’کیا فائدہ ان بحثوں کا…؟ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‘‘ برا سا منہ بنا کر اس نے کہا۔مگر ایک لمحے کے لیے وہ ٹھٹھک گئی جب اس نے مطالعہ پاکستان کی کتاب بیڈ کی دوسری جانب کھلی ہوئی دیکھی۔
’’یہ میں نے نہیں نکالی۔۔ پھر کس نے…؟‘‘ سوال مکمل نہیں ہوپایا تھا کہ دروازے پر دستک نے اس کے دل کی دنیا ہلادی۔ وہ تیزی سے پیچھے مڑی۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔وہ حیران ہوئی۔
’’ایک بڑی حویلی…کھلی کتاب اور یہ آواز؟‘‘ اس نے تھوک نگلا… ’’نہیں نہیں… یہاں کوئی فلم نہیں چل رہی۔‘‘ دل میں آنے والے برے خیالات کو روکا۔
’’کیا میں نے ڈرا دیا؟‘‘ آواز پر وہ بیڈ سے اچھلی۔ صوفے پر بیٹھے وجود کو خوف زدہ نظروں سے دیکھا۔ تو سانس ٹھہر گیا۔
’’میں معذرت خواہ ہوں‘ ڈرانا نہیں چاہتی تھی۔‘‘ صوفے سے کھڑے ہوکر بیڈ سے قریب آتے ہوئے اس وجود نے کہا۔
’’کون ہیں آپ…؟ یہاں کیسے آئیں؟‘‘ مائرہ نے تمام قوت مجتمع کرکے پوچھا۔
’’یہاں…! یہاں تو بہت عرصہ پہلے آئی تھی۔‘‘ وہ وجود کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
’’مگر میں نے آپ کو پہلے نہیں دیکھا۔‘‘ اس نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میں نے بھی نہیں دیکھا۔ اپنے خون سے سینچے ہوئے اس باغ کو پھلتے پھولتے ہوئے۔ اس چھوٹے اور نازک پودے کو تناور درخت بنتے ہوئے۔‘‘ سوچ کے سمندر سے جوش کے کنارے پر آتے وجود نے کہا۔
’’مطلب…؟‘‘ اس نے حیرت سے کہا۔
’’کس بارے میں بات کر رہی ہیں آپ…؟‘‘
’’اس ملک کے بارے میں… پاکستان کے بارے میں۔‘‘ مطالعہ پاکستان کی کتاب کو اٹھاتے وجود نے کہا۔ ’’یہ آپ نے نکالی تھی؟‘‘ اسے یاد آیا۔
’’ہاں! دیکھنا چاہ رہی تھی‘ ہماری قربانیاں یاد ہیں؟‘‘ سرخروئی میں سرشار وجود کہہ رہا تھا۔
’’یاد ہیں…‘‘مائرہ نے کہا۔
’’آپ بتائیے۔! اپنے بارے میں۔ اپنی قربانیوں کے بارے میں۔ تفصیل سے۔‘‘ اس نے بات کا رخ بدلا۔ وہ جاننا بھی چاہتی تھی کہ آخر یہ وجود اس کے کمرے میں کیسے موجود ہے۔
’’میرا نام جہاں آراء ہے… یہ حویلی میرے ماموں کی ہے جہاں میں اپنی والدہ اور دو بہن بھائیوں کے ساتھ آئی تھی۔ اُس وقت جب بٹوارا ہوا۔جہاں آراء کی آنکھوں نے کمرے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا سفر کیا۔
’’مگر…! وہ‘ جن کے ساتھ اس ملک میں آنے اور رہنے کہ خواب دیکھے تھے‘ وہ نہ آسکے۔‘‘ سفر کرتی آنکھیں بھر آئیں۔
’’وہ کون تھے؟‘‘ اس نے سوال کیا۔ اس بات سے انجان کہ سوال اذیت ناک تھا۔
’’وہ میرے گھر والے تھے۔‘‘ دل میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ ’’میرا شوہر تھا۔‘‘ دل کا ایک ٹکڑا گر پڑا۔ ’’میرے بابا تھے۔‘‘ ایک اور ٹکڑا گرا۔ ’’اور… اور میرے بچے تھے۔‘‘ دل ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گر پڑا۔
’’آہ…!‘‘ مائرہ نے سر جھکالیا۔
’’بابا اس تحریک میں شامل تھے‘ وہ کہا کرتے تھے کہ ہم جلد ایک ایسی ریاست میں ہوں گے جہاں خدائی نظام کا قیام ہوگا۔ اور میرے شوہر ہمارے بچوں کے مستقبل کے خواب سجاتے کہتے تھے کہ میرے بچے ایک آزاد مسلم ریاست میں پروان چڑھیں گے۔ جہاں وہ دین کی تعمیر و ترقی کی کوششوں کے لیے آزاد ہوں گے۔‘‘ جہاں آراء ماضی میں کھوئی ہوئی تھی۔
’’مگر ان کے نصیب میں اس ملک میں سانس لینا نہیں بلکہ اس کی جڑوں کو اپنا خون دینا تھا۔‘‘ جہاں آراء نے اپنا سر گھٹنوں پر رکھ دیا۔
’’اور آپ…؟‘‘ مائرہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’ہر آنے والی ٹرین اور قافلے کی خبر ملتے ہی ماموں کو دوڑاتی تھی کہ جائیں معلوم کر آئیں کوئی آیا۔‘‘ جہاں آراء کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔
’’پھرکوئی آیا…‘‘ مائرہ نے دل تھام لیا۔
’’ہاں…! شہادت کی خبر۔‘‘ آنسوؤں نے بند توڑ ڈالا۔ ’’وہ آخری خبر تھی جو کانوں نے سنی۔۔ پھر دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا۔‘‘ غرارے کو سنبھالتے ہوئے ہوئے جہاں آراء اٹھی اور کھڑکی کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
’’ آپ اور آپ جیسی کئی خواتین کے قرض ہے ہم پر اور ہم کیا کر رہے ہیں؟‘‘ مائرہ نے خود سے سوال کیا۔
’’کیا کر رہے ہیں…؟ یہی تو جاننا چاہتی ہوں۔‘‘ جہاں آرا نے چہرہ موڑ کر اس کی جانب دیکھا۔
مائرہ بس اس کی جانب دیکھے جا رہی تھی… وہ کیا بتائے کہ یہ قرض کیسے اتارا ہے ہم نے۔ دین کے نفاذ اور اس کی تعمیر و ترقی کے لیے کیا کیا کوششیں کی ہیں۔
’’کیا بتاؤں…؟‘‘ اس نے کہا تو بس اتنا۔
’’سب…‘‘جہاں آراء نے امید بھرے لہجے میں کہا۔
’’آدھا بھی مشکل ہے۔ آپ تمام کی بات کرتی ہیں۔‘‘ مائرہ نے منہ موڑ لیا۔
’’کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ جہاں آراء حیران ہوئی۔
’’سچ‘ جو سننے میں کڑوا اور کہنے میں تکلیف دہ ہوتا ہے۔‘‘ اُس نے دوسری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تو کانوں میں ایک بار پھر کڑواہٹ اترنی ہے۔ دل نے ایک بار پھر تکلیف سہنی ہے۔‘‘جہاں آراء اس کے قریب آکر بیٹھی۔
’’وہ سننا چاہتی ہے…‘‘ مائرہ نے سوچا کہ ان کی قربانیوں کے ساتھ کیا کیا ہم نے؟‘‘ اس نے گہرا سانس لیا۔
’’سچ یہ ہے کہ یہ باغ تو بنا مگر پھل پھول نہ سکا… یہ درخت ہے تو بہت کمزور ہے۔‘‘ اُس نے کہنا شروع کیا۔ ’’کیوں کہ یہاں ہر ایک کی خواہش ہے کہ اس باغ کے پھل اور پھول بس اُسی کے ہاتھ آئیں… مگر اس باغ کو سینچنے کی ذمے داری کوئی نہیں لیتا۔‘‘ اُس نے دکھی لہجے میں کہا۔
’’ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس گھنے درختوں کا سایہ صرف اور صرف اسی کے حصے میں آئے… مگر یہاں درخت اُگانے کی چاہ کسی میں بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ اٹھ کر آگے بڑھنے لگی۔
’’یہ وہ رزق ہے جسے آپ نے حاصل کیا مگر اب ہر کوئی اسے کھانے کا حریص ہے… اسے بڑھانا نہیں چاہتا۔‘‘ وہ اب جہاں آراء سے نظریں نہیں ملا سکتی تھی۔
’’یہاں کے عوام…؟‘‘ عقب سے جہاں آراء کا سوال سنائی دیا۔
’’انہیں یہ شکوہ ہے کہ اس ملک نے انہیں کیا دیا؟‘‘ اس نے مڑے بغیر جواب دیا۔
’’یہاں کے سیاست دان؟‘‘ سوال پھر سنائی دیا۔
’’انہیں یہ غم ہے کہ یہ ملک اُن کے حوالے کیوں نہیں کیا جاتا۔‘‘ اس نے بھی جواب دیا۔
’’یہاں کے حکمران؟‘‘ ایک اور سوال پھر آیا۔
’’انہیں یہ فکر ہے کہ انہیں سکون سے کیوں نہیں کھانے دیا جاتا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’کوئی دیانت دار نہیں؟ کوئی امانت دار نہیں…؟‘‘ جہاں آراء کا دکھ نمایاں تھا۔
’’ہے…ایک اکیلا… سارے گروہ میں۔ ایک گروہ ہے… بہت سے ٹولوں میں۔‘‘ اس نے جہاں آراء کی جانب دیکھ کر کہا۔
’’وہ کیا کر سکتا ہے؟‘‘ اب کی بار سوال اس نے کیا۔
’’شروعات ہمیشہ ایک ہی کرتا ہے۔پہلا قطرہ اکیلا ہوتا ہے۔‘‘ جہاں آراء نے جواب دیا شاید کوئی امید نظر آئے۔
’’ بڑی مہارت سے سب امیدوں کے گلے گھونٹے گئے ہیں یہاں کہ پھر یہ کہیں نظر نہ آئے۔‘‘ مائرہ نے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
’’حالیؔ کی ’’مسدس‘‘ اور اقبالؔ کی ’’شکوہ‘‘ کو دفنا دیا گیا ہے… توبہ، انفال اور احزاب کے سارے باب بند کر کے تالے لگا دیے گئے ہیں۔۔ کہ پھر کوئی امید بھی نہ پیدا کر سکے۔‘‘ اس نے جوش سے کہا۔
’’اور ہم…؟‘‘ جہاں آراء کی آواز میں دل ٹوٹنے کی آواز بھی تھی۔
’’آپ… ہاں…‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’ہر سال احسان کرنے والوں کا دن مقرر کر رکھا ہے ہم نے۔ اس دن تقاریب منا کر‘ جھنڈا لہرا کر سارے قرض اتار دیتے ہیں ہم۔۔! یقین کیجیے۔‘‘ وہ کھڑکی کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
’’یہی کیا ہے ہم نے آپ کے بچوں کے بہائے ہوئے خون کے ساتھ… آپ کی دی ہوئی قربانیوں کے ساتھ۔‘‘ اس نے ہاتھوں سے چہرے کوڈھانپ لیا۔
’’مجھے معاف کردیں… میں جھوٹ نہیں بول سکتی… آج نہیں تو کل ہمیں جواب دینا ہے آپ کو… ان لوگوں کو جنہوں نے ہمارے لیے قربانیاں دیں… اور اپنے رب کو۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی یا رو رہی تھی۔
پھر نہ کوئی سوال ہوا نہ کوئی جواب۔ اس نے مڑ کر دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا دل ایک بار پھر ٹوٹا تھا۔ انسان کا دل ٹوٹے تو وہ فنا ہوجاتا ہے… کسی خواب کا دل ٹوٹے تو وہ کہاں جاتا ہے۔

حصہ