بدلتے حالات‘ مختلف واقعات زندگی کا حصہ ہوتے ہوئے ذہنوں کو اپنی لپیٹ میں رکھتے ہیں۔ گزشتہ ماہ بلدیاتی انتخاب کا اعلان کردہ تاریخ سے محض تین دن پہلے ملتوی ہونا‘ پھر بارش کے سلسلے نے شہری مسائل سے اہلِ شہر کو فکر مند رکھا۔ یہ گوں نا گوں مسائل نہ صرف عام گفتگو کا حصہ بنے رہے بلکہ ذہنوں کو بھی منتشر کرگئے کہ ’’ان مسائل کو شہر کا مقدر کیوں بنادیا گیا ہے؟‘‘
ایسے میں نظریاتی ادبی فورم ’’حریم ادب کراچی‘‘ کا کردار سامنے آتا ہے کہ جب سوچنے والوں کو ایک سوچ ’’نہیں ملا ہے ہمیں یہ ارضِ پاک تحفے میں‘‘ پر مرکوز کیا گیا۔ جی یہ موضوع تھا نگران حریم ادب کراچی عشرت زاہد کی جانب سے منعقد کردہ ادبی نشست کا۔
سوچ اور قلم کا امتزاج ایک تخلیق کا ضامن ہوتا ہے اور جب سوچ مثبت اور نظریاتی ہو تب قلم امین ہوجاتا ہے اس بات کا کہ’’تلاشنا ہے اسی وطن کو‘ اساس تھی جس کی لاالہ اللہ۔‘‘
موسم کی نزاکت کے پیشِ نظر ادبی نشست آن لائن رکھی گئی۔ نگران حریم ادب کراچی اور ان کی ٹیم کے زیر نگرانی وعدے کے مطابق 13 جولائی بروز اتوار صبح گیارہ بجے ہمارے فون اسکرین پر شیئر کردی گئی۔
حسبِ روایت تلاوتِ قرآن اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے آغاز ہوا۔ خوش آمدید کہتے ہوئے نئے افراد کے لیے حریم ادب کے اغراض ومقاصد بیان کیے گئے کہ ’’مثبت اصلاحی ادب سے افراد اور اقوام کی اصلاح اور فلاح کا کام لیا جاتا ہے۔‘‘
نشست کے دوران بھی منتظمین کی طرف سے مختلف پوسٹوں کے ذریعے ادبی ذوق کی جِلا کا اہتمام کیا گیا۔
کراچی کے مختلف اضلاع سے کہانیاں اور نظمیں شامل ہوئیں۔ موضوع کو تحریر نگاروں کے اسلوب نے یکسانیت سے بچائے رکھا اور سوچنے کے نئے در وا کیے۔ سینئر لکھاریوں کے ہمراہ نئے لکھنے والے بھی اعتماد سے شریک تھے۔ حریم ادب ہمیشہ نئے لکھاریوں کی پزیرائی اور انہیں تربیت کے مواقع فراہم کرتی رہی ہے یہی وجہ ہے جہ حریم ادب کا چمن الحمدللہ ہمیشہ تروتازہ رہتا ہے۔تنقید ادبی نشست کا اہم حصہ ہوتی ہے اصلاحی تربیت کے لیے مبصرین میں مرکزی حریم ادب سے فرحی نعیم‘ روزنامہ جسارت خواتین صفحہ کی نگراں غزالہ عزیز اور فائزہ مشتاق جب کہ حریم ادب کراچی کی ٹیم سے طاہرہ فاروقی‘ طلعت نفیس‘ افسانہ مہر اور توقیر عائشہ شامل رہیں۔ مجموعی طور پر ہر تحریر پرگفتگو ادبی نکات کو سمجھنے میں معاون رہی۔
٭ادب کے ذریعے ہم زندگی کا شعور حاصل کرتے ہیں۔
٭ ادب نگار کی تحریر میں اس کے تجربے کا تنوع‘ اس کا شعور و ادراک اور انکا اظہار ذاتی وانفرادی ہوتے ہوئے بھی آفاقی ہوتا ہے۔
٭ اعلیٰ آفاقی ادب کا مطالعہ افراد اوراقوام کو باشعور‘ متوازن انسان دوست بنانے میں کافی مفید ہے۔