بات صرف کراچی کے بارش میں ڈوبنے کی نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کراچی، سماجی، اخلاقی،تہذیبی اورمعاشی طور پر ڈوب رہا ہے۔
اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچھے گا
جو ملتا ہے اس کا دامن بھیگا لگتا ہے
کراچی اور اہل کرب، اذیت اور تکلیف میں ہیں ،شہرمیں حشر برپا ہے،چوراہے اور سڑکیں چیخ چیخ کرکہہ رہی ہیں کوئی ہے جو اس شہر بد نصیب کے آنسو پونچھے،بربادی اور زبوں حالی کا تسلسل ہے، حکومتی نااہلی،بےحسی جابجا عیاں ہے،اپوزیشن نا م کی کوئی چیز اپنا وجود ہی نہیں رکھتی ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ کراچی کے شہری مسائل کے گرداب سے باہر نکل نہیں پارہے ہیں۔ اس وقت کراچی کا کون سا علاقہ ہے جو زیرآب نہیں ہے؟
میرا شہر کراچی پھر بھی گنگنا رہا ہے :
میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں
بات صرف کراچی کے بارش میں ڈوبنے کی نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کراچی، سماجی، اخلاقی،تہذیبی اورمعاشی طور پر ڈوب رہا ہے۔
کراچی کا شمار دنیا کے جدید اور بڑے شہروں میں ہوتا ہے اور جس کا ملک کی معیشت میں بڑا حصہ ہوتا ہے، لیکن یہ ہمیشہ حکمرانوں کی عدم توجہی کا شکار رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بارش کے بعد کراچی کسی کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے۔ بدقسمتی سے اس شہر کی 1980ء کی دہائی کے بعد یہی تاریخ ہے۔ سندھ حکومت اور بلدیہ کراچی کی غفلت اور بدانتظامی پوری طرح عیاں ہے۔ شہر تو دھول اور مٹی سے پہلے ہی اَٹا ہوا تھا اور نالوں میں کچرا بھرا ہوا تھا، ایسے میں بد انتظامی نے بارش کو جو اللہ کی رحمت ہے، زحمت میں تبدیل کردیا ہے۔اس کو غیروں اور اپنوں نے مل کر لوٹ لیا ہے اور یہ شہر خون کے آنسو رورہا ہے ۔
یہ شعر لگتا ہے کراچی کے لیے ہی ہے :
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
کراچی دہائیوں سے مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے،اس کے پانی بجلی ،سیوریج صحت تعلیم ،بجلی سمیت ان گنت مسائل ہیں، جوحل نہیں ہورہے ہیں اس صورت حال پر سابق سینیٹر جاوید جبار نے کراچی سے متعلق ایک کانفرنس میں کہا تھا کہ”” کراچی کی تعمیر وترقی کےلیے سب کو نکلنا ہوگا۔کراچی بہت دولت مند شہر ہے، رسمی اور غیر رسمی طور پر بہت ریونیو اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔تعلیمی اداروںکا اہم مرکز ہے،تجارتی مرکز ہے،میڈیا کا مرکز ہے، پاکستان کی پچیس فیصد جی ڈی پی کراچی جنریٹ کرتا ہے، اس لیے ایک طرح سے مختلف سیاسی جماعتوں کا کراچی کو قبضے میں رکھنا مقصد ہوگیا، اس تقسیم میں کراچی کو بہت نقصان پہنچا ہے اور اب بھی پہنچ رہا ہے۔
جو لوگ کراچی کی بھلائی چاہتے ہیں وہ اپنے نظریے کو فی الحال الگ رکھ کر اکٹھے ہوکر ایک نکتے پر کام کریں، اور وہ نکتہ یہ ہے کہ کراچی میں لوکل گورنمنٹ کا نظام قائم ہونا چاہیے۔ یہ بیوروکریٹک نظام ہم نے دیکھ لیا، یہ ڈیلیور نہیں کرسکتا۔ کرچی کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں اور ہمیں بااختیار لوکل گورنمنٹ چاہیے، نمائندہ لوکل گورنمنٹ چاہیے، اور کراچی کی منصوبہ بندی اور مینجمنٹ اس لوکل گورنمنٹ کے حوالے ہو، وہ کہتے ہیں کہ کراچی کا جو انفرااسٹرکچر بن رہا ہے میں اس کا مخالف نہیں ہوں، مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ شہر کے مسائل حل کرسکے گا یا نہیں؟ یہ بی آرٹیز اور سرکلر ریلوے اگر پوری طرح مکمل بھی ہوجائیں تو جو کراچی کے 2.4ملین سفر (trips) ہیں اس کا یہ دس فیصد سے بھی زیادہ پورا نہیں کرسکتے، تو باقی لوگوں کا کیا ہوگا؟ گرین لائن کے کوریڈور پر رہنے والوں اور استعمال کرنے والوں کو بہت فائدہ ہوگا لیکن بقیہ لوگوں کا کیا ہوگا؟ سرکلر ریلوے چلے گی بھی یا نہیں؟ پھر مینج کون کرے گا؟ چلائے گا کون؟ مختصر یہ کہ اس کا کراچی کو خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ کراچی کو بسوں کی ضرورت ہے۔””” لیکن ہم نے دیکھا پیپلزپارٹی نے کراچی کے شہریوں کو بسوں کے نام پر بھی دھوکہ دیا اور شہر میں دس سے بارہ روٹس کا اعلان کرنے کے بعد چار روڈز بھی ٹھیک طریقے سے نہیں چل رہے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ وَہی ڈھاک کے تین پات اورتین کروڑ آبادی والے شہر میں ٹرانسپورٹ کا عملاً کوئی نظام نہیں، ملک کے سب سے بڑے شہر کے لوگ چنگ چی رکشوں اور کوچوں کی چھتوں پر چڑھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔اس صورت حال پر شوکت تھانوی کی نظم’’کراچی کی بسیں‘‘ بر موقع ہیںاور اس شہر کے دیرینہ مسائل کی جانب بھرپور توجہ مبذول کرواتی ہے۔
دل ربا، اے نازنینو! اے کراچی کی بسو
تم پہ صدقہ ہو کہ ہم مر جائیں لیکن تم جیو
ہو کے چکنا چور اترے بس سے باحالِ خراب
جیسے بندر نوچ کے پھینکے منڈیری سے کتاب
اس زبوں حالی پہ بھی خوش ہیں کہ ہم ہیں کامیاب
مل گئی ہے گھر کی جنت جھیل کر یوم حساب
رات بھر یہ بس رہے گی ذہن پر اپنے سوار
صبح دم ہم پھر وہی ہوں گے وہی اپنی قطار
ماضی میں شہر کے اندر کے ٹی سی کی ہزاروں بسیں چلتی تھیں، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے مل کر پورا ادارہ تباہ کردیا، کے ٹی سی جب بند ہوئی اُس وقت سندھ میں ایم کیو ایم کا وزیر ٹرانسپورٹ ہوتا تھا، 1999ء میں سرکلر ریلوے بند ہوئی اُس وقت بھی ایم کیو ایم عروج پر تھی۔ ایم کیو ایم، اس کے دھڑے اور اس سے نکلنے والے آج کراچی کے لیے باتیں تو بہت کرتے ہیںلیکن شہر کی تباہی میں ان کا پیپلز پارٹی کے ساتھ پورا پورا کردار اور حصہ ہے ۔
اسی طرح پانی کے مسائل پر ’’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان‘‘ کے عادل گیلانی کہتے ہیں کہ کراچی جب سے صوبے کے ماتحت ہوا ہے، فراہمی آب کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے، K4 کا منصوبہ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے پیش کیا جو کہ آج تک مکمل نہ ہوسکا، کراچی میں فراہمی آب کے منصوبوں پر صرف نعمت اللہ خان کے دور میں کام ہوا۔و ہ صاف لفظوں میں بیان کرتے ہیں کہ ملک میں واپڈا سے بڑا کوئی کرپٹ ادارہ نہیں ہے، پانی اور بجلی کے بحران کا ذمہ دار یہی ادارہ ہے۔
ماہر اقتصادیات اور شہری امور پر گہری نظر رکھنے والے عاصم بشیر خان نے ثابت کیا اور بتایا کہ مردم شماری ایک فراڈ کے سوا کچھ نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ تین سال گزرنے کے بعد 2017ء کی مردم شماری کی منظوری دی گئی ہے، جب فروری 2018ء میں مردم شماری کے عبوری نتائج شائع ہوئے تو ان نتائج کے تجزیے سے مردم شماری میں کئی خامیاں سامنے آئیں جس سے مردم شماری کے نتائج متنازع ہوگئے، تمام سیاسی جماعتوں نے مردم شماری خاص طور پر کراچی کی مردم شماری پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور عدالتِ عظمیٰ سے بھی رجوع کیا۔بنیادی بات یہ ے کہ جب شہر کی آبادی کو ہی درست شمار نہ کیا جائے گا تو پھر قومی اور صوبائی سطح پر وسائل کی درست اور جائز تقسیم کیسے ممکن ہوسکے گی؟ اس ضمن میں بھی حقیقی صورت حال یہ ےکہ اوریہ بات کراچی کے شہریوں کو معلوم ہونی چاہئیے کہ درحقیقت نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں شروع کیے گئے منصوبوں کے علاوہ شہر کے اندر کس نے تعمیر و ترقی کے اقدامات نہیں اٹھائے،نہوں نے پانی کا منصوبہ K-3مکمل کیا اور پھر K-4 شروع کیا جسے ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اُس وقت کے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے مل کر تباہ و برباد کیا جو تاحال مکمل نہیں ہوسکا ہے۔
اسی طرح کوٹہ سسٹم میں غیر معینہ مدت کا اضافہ کیا گیا، ان میں سے کسی نے آج تک اس کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ ان سب نے مل کر چائنا کٹنگ کی اور مال بنایا اس شہر میں جہاں نوجوانوں کے کھیل میں نمایاں مقام رہا ہے ،مرزا اقبال بیگ ہمیں بتاتے ہیں کہ “”کراچی نے پاکستان کو بہترین کھلاڑی دیے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی جیم خانہ گراؤنڈ تھا جہاں پاکستان نے ایم سی سی کی ٹیم کو شکست دے کر1952ء میں ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل کیا۔ کراچی کرکٹ کے علاوہ ہاکی، فٹ بال اسنوکر اور دیگر کھیلوں کے حوالے سے بھی خاصا ممتاز رہا ہے، کیونکہ اس شہر نے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایسے ستارے پیدا کیے ہیں جو نہ صرف اپنی کارکردگی کے ذریعے پاکستان کے لیے فخر کا سبب بنے، قیام پاکستان کے بعد مشہور محمد برادران حنیف محمد، وزیر محمد، مشتاق محمد، صادق محمد نے پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی اور کراچی میں ہی انہوں نے اپنی تمام تر کرکٹ کھیلی، جب کہ ان کے ایک اور بھائی رئیس محمد بدقسمتی سے ٹیسٹ کرکٹ نہ کھیل سکے۔
شہر کراچی نے پاکستان کو جاوید میاں داد جیسا سپر اسٹار دیا جو مسلم جیم خانہ گراؤنڈ میں اپنے والد میانداد نور محمد کے ہمراہ جاتے تھے، وہاں سے اُنہوں نے اپنی کرکٹ شروع کی اور پھر اس کے بعد پاکستان کیا، دنیا کے سپر اسٹار بنے۔ اس طرح سے بے شمار کھلاڑی کراچی سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے کراچی کے لیے بے شمار کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں۔ ایشین بریڈمین ظہیر عباس اگرچہ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے لیکن کراچی منتقل ہونے کے بعد جہانگیر روڈ پر رہے۔ جہانگیر روڈ سے بھی کئی کرکٹر پیدا ہوئے۔ نسیم الغنی اور فاسٹ بولر محمد سمیع کا تعلق بھی یہیں سے تھا۔ اگر آپ وکٹ کیپر کی بات کریں تو وسیم باری، معین خان، راشد لطیف، سرفراز احمد… یہ سب ایسے وکٹ کیپر ہیں جو کراچی سے آئے تھے۔
اس طرح اگر دیکھا جائے تو کراچی نے کرکٹ کو بہت دیا، خاص طور پر نامور بیٹسمین دیے۔ لٹل ماسٹر حنیف محمد نے 1959 ء میں کراچی کے پارسی انسٹی ٹیوٹ گراونڈ، کے پی آئی گراونڈ پر 499 رنز کی اننگ کھیلی تھی، حنیف خان اور اصلاح الدین کو جن کا تعلق کراچی سے ہے، کون بھلا سکتا ہے! فلائنگ ہارس کے لقب سے مشہور سمیع اللہ اگرچہ بہاولپور سے کراچی آئے، لیکن کراچی میں ہاکی کھیلے۔ اپنے زمانے کے بہترین سینٹر فارورڈ حسن سردار کو کون بھول سکتا ہے!لیکن ان کے بعد ہاکی زبوں حالی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ اسکواش کو دیکھ لیں، جب جہانگیر خان اپنے والد روشن خان کے ساتھ کراچی آئے تو جیکب لائن میں رہا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم دنیا میں بلند کیا۔ ان کے بعد کراچی سے کوئی بھی ایسا اسکواش کھلاڑی نہیں آیا جو پاکستان کے لیے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھ سکتا۔کراچی سے ایک زمانے میں علی نواز جیسے بڑے بڑے فٹ بالر تھے جو فٹ بال کے کھیل میں کارنامے سرانجام دیا کرتے تھے، کراچی میں باکسر بڑے زبردست تھے۔ لیاری فٹ بال اور باکسنگ کا گڑھ ہوتا تھالیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے کھیل میں بھی زبوں حالی آگئی، میرٹ کو نظرانداز کیا گیا، کراچی کے باصلاحیت کھلاڑیوں کو یکسر دیوار سے لگا دیا گیا”” اور کراچی کے نوجوان کھیل کے میدانوں اور عوام پارکوں سے محروم ہیں۔
شہر میں صحت کے مسائل پہلے سے موجود ہیں بارشوں کے بعد اور صورت حال بگڑ گئی ہے ، صحت کی سہولیات انتہائی ناکافی ہیں،ڈینگی ملیریا پھیل رہا ہسپتا ل بھر رہے ہیں ،ہیپاٹائٹس بی اور سی گندے پانی کی فراہمی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پھیل رہا ہے، غریب اور متوسط آبادی اس مرض کا خاص طور پر شکار ہے۔کراچی شہرکو تعلیم میں بلند مقام حاصل تھالیکن وقت کے ساتھ ساتھ تباہ کردیا گیا ہے،حکومتی سطح پر تعلیم کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھائے جانے کے باعث اب تعلیم عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہےشہر کی سب سے بڑی جامعہ کراچی جو فرسودہ ہوچکی ہے لیکن وہ ایسا لگتا ہے کمرشل دماغ والے کمرشل بنیادوں پر چلارہے اس کی بڑھتی فیسں متوسط طالب علموں کو یونیورسٹی سے بھی دور کررہی ہیں۔ایسے میں نوجوان جرائم کی طرف نہیں جائے گا تو کہا جائے گا۔اسی طرح شہر میں رہائشی سہولتیں رفتہ رفتہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں، کچھ آبادیوں میں لوگ بدترین حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیںپیپلز پارٹی ا ور مافیا نے نے سپر ہائی وے اور کئی مقامات پر لوگوں کو ادھر ادھر سے لاکر جگیوں میں بیٹھا اور بسا کر شہر کی ایک عجیب شکل بنادی ہے اور شہر پر نظر رکھنے والوں کے مطابق یہ ناجائز جگہیں کئی جرائم کی شہر میں بڑی وجہ بھی بنی ہوئی ہیں یہاں جرائم پیشہ عناصر پنپتے ہیں اور پناہ لیتے ہیں ۔
معروف صحافی،اینکر سلمان عابد اس ضمن اور مسائل ے پس منظر میں کہتے ہیں کہ ’’اربابِ اختیار کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ بڑے شہروں کا نظام چھوٹے اور درمیانے شہروں سے مختلف ہونا چاہیے۔ کیونکہ آج دنیا بھر میں جو میگا شہر ہیں اُن کے لیے ایک منفرد مقامی نظام حکومت ہوتا ہے۔ کراچی، لاہور، ملتان، پنڈی، پشاور اورکوئٹہ جیسے شہروں کو اب غیر معمولی انداز میں چلانا ہوگا۔ ان بڑے شہروں کو جہاں آبادی کا پھیلائو بہت زیادہ ہے، اب روایتی اور فرسودہ نظام یا طریقہ کار کے تحت نہیں چلایا جاسکتا۔ ان بڑے شہروں کے نظاموں کو چلانے کے لیے ماسٹر پلان درکار ہیں۔ یعنی بڑے شہروں کی منصوبہ بندی ردعمل کی سیاست یا جذباتی انداز میں کرنے کے بجائے بڑے ماسٹر پلان کی صورت میں ہونی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ان بڑے شہروں کے معاملات بھی چھوٹے شہروں کی طرح چلاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہم مسلسل ناکامیوں سے دوچار ہورہے ہیں، اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔‘‘
مقامی حکومتوں کے عالمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر آپ کو کسی بھی معاشرے میں جمہوریت کے نظام جانچنا ہے کہ یہ نظام کس حد تک جمہوری ہے تو سب سے پہلے مقامی حکومتوں کے نظام کو پرکھنا ہوگا۔ اگرنچلی سطح پر جمہوری نظام نہیں تو اوپر کی سطح پر موجود جمہوری نظام کی کوئی اہمیت نہیں۔ تعلیم، صحت، ماحولیات، آلودگی، صفائی، تجاوزات، کھیل کود کے میدان، انصاف، تحفظ، نقل و حمل، صاف پانی، فضلہ کی صفائی، مہنگائی یا ذخیرہ اندوزی کو کنٹرول کرنا، مقامی امن و امان سمیت مقامی ترقی ایسے مسائل ہیں جن کا براہِ راست تعلق مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑا ہوا ہے۔ اسی طرح مقامی سطح پر سوک ایجوکیشن کا فروغ بھی مقامی نظام کے زمرے میں آتا ہے۔ بچوں اور بچیوں کو مختلف امراض یا بیماریوں سے بچانے کی مہم بھی اسی نظام کا حصہ ہے۔ اگر یہ نظام بہتر ہو اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کررہا ہو تو لوگوں کی زندگیوں میں ترقی اورخوشحالی کا پیدا ہونا ممکن ہوگا۔””
کراچی کرچی کرچی ہوگیا ہے یہ کیسے ٹھیک ہوگا اور ہوگا بھی یا نہیں ہوگا ،عالمی اور ملکی اسٹبیلشمنٹ نے کراچی کے لیے کیاسوچ رکھا ہے یہ اور اس جیسے بہت کئی اہم سوال ہیں ،جو لوگوں کے ذہن میں موجود ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے انتخابت سے فرار کے حربو ں کو فی الحال اعلی عدلیہ نے ناکام بنادیا ہے اور بلدیاتی انتخابات کو روکنے کے حوالے سے دائر درخواستیں خارج کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات 28اگست ہی کو کرائیں جائیں ۔امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے عدالت عظمیٰ کی جانب سے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے انعقاد کے خلاف متحدہ قومی موومنٹ کی درخواست مسترد کرنے ، انتخابات کو ملتوی نہ کرنے اور الیکشن 28اگست کو ہی منعقد کرانے کے فیصلے کا بھر پور خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب کوئی پارٹی بلدیاتی انتخابات سے راہ ِ فرار اختیار نہیں کر سکتی ۔ عدالتی فیصلے کے بعد بھاگنے کے راستے بند ہو گئے ہیں ، بنیادی مسائل کا حل اور فوری اور شفاف بلدیاتی انتخابات کراچی کے ساڑھے 3 کروڑ عوام کی ضرورت ہے ، عدالتی فیصلے پر چیف جسٹس آف پاکستان کے شکر گزار اور کراچی و حیدر آباد کے عوام کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔
کراچی کے عوام کو ایک با اختیار شہری حکومت اور میئر کی ضرورت ہے ۔کراچی کی زبوں حالی بتارہی ہے کہ کراچی کا حل بلدیاتی انتخاب اور جماعت اسلامی ہے ۔آج کا کراچی ماضی سے بہت مختلف اور کراچی بدل رہاہے ۔امیرجماعت اسلامی کراچی اس حوالے سے پرعزم بھی ہیں کیوں نہ ہوں کراچی کی تعمیر اور ترقی میںجماعت اسلامی کا کلیدی کردار رہاہے ۔عبدالستاراٖفغانی سے لیکر نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ تک کراچی کی تعمیر وترقی کی ایک درخشاں تاریخ ہے ۔اب فیصلہ کراچی کے شہریوں کو اپنے مستقبل کا خود کرنا ہے کہ وہ شہر کو اسی طرح کھنڈر اور اجڑا دیکھنا چاہتے ہیں یا چمکتا دمکتا اور مہکتا ۔ اقبالؒ نے کہا تھا کہ جس قوم کو خیال نہیں اپنی حالت بدلنے کا تو قدرت بھی اس کا حال نہیں بدلتی۔