آسٹریا میں ٹاپ ٹرینڈ، بحرین ، الجیریا میں، بیلجیم، کینیڈا ، کولمبیا میں بھی، ڈنمارک، ایکواڈور، فرانس، جرمنی، یونان، بھارت، ناجائز اسرائیل، لبنان، اردن، نیوزی لینڈ، ناروے، سوئیڈن، سوئٹزرلینڈ، ترکی، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، سب ممالک میں ٹوئٹر پر سلمان رشدی ’’شیطانک ورسز‘‘ ٹرینڈنگ میں نظر آیا۔ مطلب مخالفت میں نہیں ملعون کی حمایت میں ہی نظر آئے۔ بھارتی نژاد ناول نگار سلمان رشدی کو نیویارک میں ایک تقریب میں خطاب سے قبل ایک شخص نے چاقو سے گردن پر وار کرکے شدید زخمی کر دیا۔ حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا مگر اس کی معلومات پوشیدہ رکھی جا رہی ہیں۔ جو کچھ بتایاگیا ہے اس کے مطابق 24 سالہ نوجوان ہادی مطر کا تعلق لبنان سے ہے، مگر پیدائش اور پرورش امریکا میں ہوئی ہے۔ والدین کی طلاق ہو چکی تھی، اس کی ماں نے بتایا کہ وہ لبنان کا دورہ کر کے آیا تھا اس کے بعد خاصا تبدیل ہوگیا تھا۔ والدہ کے مطابق ایک مرتبہ اس نے اس بات پر بحث کی کہ آپ نے مجھے ہمیشہ تعلیم کی جانب متوجہ کیا مگر دین کیوں نہیں سکھایا؟ ہادی کے مطابق اس نے ملعون کی کتاب کے صرف دو صفحے پڑھے تھے اور گستاخ کے عمل کو اسلام پر اسکے عقائد و ایمان پر حملہ قرار دیا۔اس نے کہاکہ کسی فتوی کی وجہ سے حملہ نہیں کیا۔واضح رہے کہ اس حملہ میں پروگرام کا میزبان ہنری بھی زخمی ہواتھا۔ نیویارک پولیس کی تحقیقات نے اس کے سوشل میڈیا اکائونٹس میں قاسم سلیمانی اور آیت اللہ خمینی کی تصاویر سے اس کے روحانی تعلق کو ایران سے جوڑنے کی کوشش کی۔ عدالت میں اُس نے اپنا جرم قبول کرنے سے انکار کر دیا، کیوں کہ اْس وقت تک رشدی کے زندہ بچنے کی خبریں بھی آچکی تھیں۔ ایران اس لیے بھی اہم ہے کہ ایرانی صدر آیت اللہ خمینی نے 1989میں سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا تھا اور اسے مارنے والے کے لیے بھاری انعام کا اعلان بھی کیا تھا۔
75 سالہ سلمان رشدی بھارت میں اظہار آزادی کی آڑ میں تواتر سے اسلام اور اسلامی اقدار کو تختہ مشق بنا کر کتابیں لکھتا رہا۔ اس کا چوتھا ناول ’’شیطانی آیات‘‘ کے نام سے 1988 میں شائع ہوا تھا جس پر بھارت سے صدائے احتجاج بلند ہوئی جو عالم اسلام کے کونے کونے میں گئی۔ اس کے بعد اسے برطانیہ نے پناہ دی، بعد ازاں وہ 2016 میں امریکی شہری بن اس کی گود میں بیٹھ گیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سے مسلمانوں کے ایمان و عقائد میں کلیدی مقام رکھتے ہیں۔ کئی اسلامی ممالک میں اس کتاب کی اشاعت پر مکمل پابندی لگی۔ صرف پابندی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مسلمانوں نے شدید رد عمل دیا، مگر پورا یورپی استعمار اس کی پشت پر کھڑا تھا اور مزے لے رہا تھا مگر ان کو بھی معاملہ دبانا پڑگیا کیوں کہ ایران نے اس معاملے پر 1989ء میں برطانیہ سے سفارتی تعلقات ختم کر دیے تھے۔
رشدی کہتا تھا کہ اس کو ہر سال 14 فروری کو موت کی دھمکی کے کارڈ وصول ہوتے کہ ’’ہمیں یاد ہے‘‘کیوں کہ اس کے قتل کا فتویٰ 14 فروری کو جاری ہوا تھا۔
رشدی کی اگلی کتاب ’’وکٹری سٹی‘‘ کے نام سے فروری 2023 میں آنے والی تھی، ٹوئٹر پر اس کے کوئی 10 لاکھ فالوورز تھے۔ اب تک یہ 14 ناول لکھ چکا ہے، کئی مغربی ممالک اس کو ایوارڈ دے چکے ہیں۔ اس کی کتب کے 40 زبانوں میں تراجم کرائے گئے تاکہ اسلام کے خلاف اسے بطور ہتھیار استعمال کیا جا سکے۔ فرانسیسی صدر میکرون تو کھل کر اس سے ٹوئیٹ میں اظہار ہمدردی یوں کر رہے تھے۔
For 33 years, Salman Rushdie has embodied freedom and the fight against obscurantism. He has just been the victim of a cowardly attack by the forces of hatred and barbarism. His fight is our fight; it is universal. Now more than ever, we stand by his side.
امریکی صدر اپنی ٹوئیٹ میں بڑے رنجیدہ دکھائی دیے کہ نیو یارک میں بھرے مجمع میں ایسے بہادر مصنف شہری کی حفاظت نہ کر پائے۔ چارلی ہیبڈو نے بھی ٹوئیٹ کی کہ اس کو بھی بڑا غم لگا ہو اتھا۔ ایک تو یہ جملہ سب نقل مار رہے تھے کہ ’’اگر تمہارا دین الفاظ برداشت نہیں کرسکتا تو یہ مسئلہ تمہارا اور تمہارے دین کا ہے۔‘‘ بھارتی ہندوئوں کی تکلیف بھی دیکھنے والی تھی جس میں وہ ملعونہ نوپور کو اپنی حفاظت کے مشورے دے رہے تھے۔ یہاں تک کہ ’’پٹھان‘‘ نامی فلم پر پابندی کا مطالبہ بھی کرنے لگے۔ کوئی عمران خان کی تقاریر کو حملہ کی ایک وجہ بتا رہا تھا، ایک نے تو عرب مسلم اسکالرز کی تقاریر کے کلپس جمع کر کے جن میں کعب بن اشرف کی موت کا واقعہ سنایا جا رہا تھا، اس کو وجہ قرار دیا۔ مشہور بھارتی صحافی برکھا دت نے ٹوئیٹ کیا کہ ’’بھارت، شیطانی آیات پر پابندی لگانے والا دنیا کا پہلا ملک، کانگریس کے دور حکومت میں ایسا کیا۔ آزادیٔ اظہار کے تحفظ کے حوالے سے ہماری قوم کا ہمیشہ سے ہی شاندار ریکارڈ رہا ہے۔ بی جے پی اس پر کانگریس کی بزدلی کو واپس کیوں نہیں لیتی اور پابندی ہٹانے کے لیے قدم کیوں نہیں اٹھاتی؟‘‘
ایک اور بھارتی صحافی نے ٹوئیٹ میں لکھا کہ ’’رشدی کی کتاب کا جاپانی میں ترجمہ کرنے والا قتل ہوا، اٹلی زبان میں ترجمہ کرنے والا قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوا‘ نارویجن پبلشر تین کو گولیاں ماری گئیں، ترکش ترجمہ کرنے والے کو بم دھماکے میں اُڑا دیاگیا۔‘‘ کچھ تو اس بات پر اکساتے رہے کہ ملعون کی کتاب کو زیادہ سے زیادہ خرید کر جہادیوں کو جواب دیا جائے۔ اسی دوران وہ ہالینڈ کے ملعون گیرٹ ولڈر نے بھی ٹوئیٹ کی کہ اس کو بھی کل سے دھمکیاں آ رہی ہیں کہ ’’اگلی باری اس کی ہے۔‘‘
ایک دل چسپ معاملہ یہ ہوا کہ ہیری پورٹر سیریز کی مصنفہ جے کے رولنگ نے اس حملہ پر اپنا عمومی سا اظہار کیا کہ
Feeling very sick right now. Let him be ok.
اس پر نیچے کسی نے ریپلائی میں کہاکہ ’’فکر نہ کرو اگلی باری تمہاری ہے۔‘‘ بس پھر کیا تھا خاتون میں اس جملے سے خوف کی جو لہر دوڑی، وہ خود سب کی توجہ لے گئی۔ انہوں نے ٹوئٹر انتظامیہ سے مدد مانگی تو جواب ملا کہ اس جملے میں کوئی ایسی خلاف ورزی نہیں جس پر ایکشن لیا جائے۔
حملے کی مذمت کرنے والوں کوکچھ لوگ فلسطین و کشمیر کی مثالیں دے کر پوچھتے رہے کہ اظہار مذمت یہاں کیوں نہیں ہوتا؟ ویسے اس کی اہم وجہ جو یہ معصوم لوگ سمجھتے نہیں، یہ ہے کہ اُن کے نزدیک انسان کی تعریف کچھ اور ہے۔ قادیانی بھی یہاں پیچھے نہ رہے اور یہ سمجھانے کے لیے ٹوئٹر پر وڈیوز ڈالتے رہے کہ قرآن کہتا ہے کہ ’’اللہ خود بدلہ لے لے گا۔‘‘
بھارتی مسلم اسکالر ڈاکٹر ماریہ نے بھی زبردستی اس موضوع کو چھیڑا ، انگریزی زبان میں ان کی وڈیو وائرل رہی اور کوئی 15 لاکھ ویوز تو صرف فیس بک پر ان کے اپنے اکائونٹ سے تھے، باقی شیئرنگ الگ تھی اور ڈائون لوڈ واٹس ایپ شیئرنگ الگ تھے۔ 5 منٹ میں خاتون نے اپنی کم ترین معلومات کی بنیاد پر اتنی ہمت کر لی کہ ملعون پر حملے کی مذمت کر ڈالی اور اسے تعلیمات نبویؐ کے خلاف قرار دے دیا۔ ایک دلیل یہ دی کہ جب نبی کریمؐ پر لوگ ایسی بات کرتے تو اللہ سورۃ النسا 62 میں فرماتا کہ “’’ان سے تعرض مت کرو، انہیں سمجھائو اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اُتر جائے۔‘‘ اس طرح انہوں نے سمجھایا کہ ناموس رسولؐ کی حفاظت تشدد اور نفرت آمیز رویے سے نہیں ہو سکتی‘ اس کے لیے سڑکوں پر احتجاج نہیں ہو سکتا، آپ لوگوں پر پتھرائو نہیں کر سکتے۔ اگر ہم یہ کریں گے تو یہ غیر مناسب طریقہ ہوگا۔ نفرت کو نفرت سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اخذ کیا کہ اسلام میں جسمانی سزا نہیں ہے۔ قرآن میں رسولوں کی تکذیب کا ذکر ہے مگر اس پر کسی سزا کا کوئی ذکر نہیں۔ پس سب کو سب کچھ بولنے کی آزادی ان کے رب کی جانب سے ملی ہے جسے روکا نہیں جا سکتا۔ اگر کسی نے کوئی ایسی بات کی ہے یا کتاب لکھی ہے تو آپ بھی اس کو جواب دینے کے لیے کتاب لکھ دویا بیان دے دو۔ فرماتی ہیں کہ قرآن کسی جگہ ایسا کوئی حکم نہیں دیتا کہ ہم ایسے کسی کو روکیں اور وہ نہ رکے تو اس کو ہم گرفتار کرنے کا مطالبہ کریں یا کوئی سزا کا مطالبہ کریں۔ ان کے نزدیک یہ قابل برداشت کام تھا کہ اسلام تو یہی سکھاتا ہے۔ خاتون کی اتنے تفصیلی نکات بتانے کا مقصد یہ سمجھانا تھا ، کہ یہ حالت ہو گئی ہے کہ بقول اقبال
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سِکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق!
ایران نے اس معاملے پر سوچ سمجھ کر یہ موقف دیا کہ
Iran has said Salman Rushdie and his supporters are to blame as it sought to distance itself from the attack۔
Kanani added that Rushdie ‘‘exposed himself to public indignation’’ through insulting holy Islamic values and ‘‘crossing the red lines of 1.5 billion Muslims’’.
سب سے اہم بات یہ ہے کہ متعصب غیر مسلم یہ سمجھ سکیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کا معاملہ باقی تمام معاملات سے یکسر الگ ہے۔ مسلمان اس میں کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتا نہ ہی اللہ کرتا ہے اور ایک ایسے شہری کو‘ جو پیدا بھی امریکا میں ہو‘ وہیں پلے بڑھے، تعلیم حاصل کرے ، کہنے کو صرف نام اسلامی ہو، خاندان بھی ٹوٹ چکا ہو، اپنے نبیؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے کے لیے وہ ایسی جگہ سے اہتمام کرا دیتا ہے۔ یہ ہے اہلِ ایمان و غیر مسلم یا کمزور ایمان والوں کے لیے اصل سبق۔ جب ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ ریڈ لائن ہے‘ اس کو عبور مت کرو تو کیا دنیا میں تمہارے تمام موضوعات ختم ہوگئے ہیں کہ زبردستی گھوم پھر کر یہی موضوع ہے تمہارے پاس۔ سیدھی بات ہے کہ جب تم جانتے، مانتے نہیں ہو تو کیوں کسی کی ریڈ لائن میں گھس رہے ہو۔ جب معلوم ہے کہ ایسا کرنے سے وہ بھڑک اٹھتا ہے۔ اس لیے یہ سب جاننے کے بعد کرنا تو صاف کھلی جنگ ہی کہلائے گی۔
دوسری جانب پاکستان کے سوشل میڈیا پرجشن آزادی، یہ کیسی آزادی، عمران خان نا اہلی، شہباز گل کی رہائی، مفتاح اسماعیل اور پیٹرول کی قیمتیں ڈسکس ہوتی رہیں۔ اس دوران فیصل آباد میں خاتون کے ساتھ عجیب سے تشدد کی وڈیو وائرل ہوگئی۔ جو کہانی سامنے آرہی تھی کہ لڑکی کی دوست کے والد نے اپنا رشتہ بیٹی کی دوست سے کرنا چاہا تو لازمی بات ہے کہ رشتہ سے انکار ہی ہونا تھا۔ اس انکار پر لڑکی کی دوست، اس کے والد و دیگر نے اس طرح کا تشدد ریکارڈ کیا پھر وائرل بھی کیا، جس میں چپل جوتے چٹوانا ، بال کاٹنا و دیگر شدید اذیت ناک عمل تھے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسا تشدد کر کے وائرل کرنے سے تو لڑکی ہی مظلوم بنے گی، کرنے والا جو بھی ہو لامحالہ وہ گرفت میں آئے گا اور میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ گرفتار بھی ہوا، تاہم ابھی تک اس کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا نہ ہی زخمی لڑکی کا کوئی مزید بیان سامنے آیا ہے۔ پہلے فیصل آباد ٹرینڈ بنا‘ اس کے بعد جسٹس فار خدیجہ اور شیخ دانش کا ٹرینڈ بن گیا۔ اس سے پہلے بھی اسی نام کی ایک لڑکی کو رشتے سے انکار پر خنجر کے متعدد وار کرکے زخمی کیا تھا۔ ظاہر جعفرکیس کے بعد یہ اگلا ہائی پروفائل کیس تھا۔ ایک ٹوئیٹ کے مطابق عدالت نے 50 ہزار روپے میں ضمانت بھی منظور کرلی۔ رہائی پر بھی لوگ خاصا شور مچاتے رہے طاقتور اور کمزور کے تناظر میں کیونکہ شیخ دانش کا تعلق مسلم لیگ ن سے بتایا جارہا تھا۔ بہرحال وقت گزرنے پر جب حقائق سامنے آئیں تو ہی کچھ تبصرہ کرنا چاہیے۔
ایک اور اہم خبر یہ تھی کہ امریکی وسط مدتی انتخابات کے تحفظ کے لیے سوشل میڈیا کمپنیوں نے تعاون کی نئی پیش کش کردی۔ فیس بک اور ٹویٹر جیسے پلیٹ فارمز 2020 کے امریکی انتخابات میں خاصی تنقید کا نشانہ بنے تھے۔ اس حوالے سے ٹک ٹاک ایپ، جو گزشتہ دو سال میں امریکا میں تیزی سے مقبولیت پا چکی ہے، مگرجعلی خبروں اور غلط معلومات کے لیے بھی خاصی مشہور رہی ہے۔ اس نے اپنے داغ مٹانے کے لیے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک انتخابی مرکز شروع کر رہا ہے جو لوگوں کو ووٹنگ کے مقامات اور امیدواروں کی معلومات تلاش کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ انتخابی سینٹر ان صارفین کی فیڈز میں نظر آئے گا جو الیکشن سے متعلق ہیش ٹیگز تلاش کریں گے۔ اس کے علاوہ ٹک ٹاک نے کہا ہے کہ وہ جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے کئی اداروں کو بھی ساتھ ملا رہا ہے۔ یہی نہیں ٹک ٹاک انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر زیادہ اثر انداز ہونے والے افراد پر بھی نظر رکھے گا کہ کیا وہ کسی سیاسی شخصیت کی حمایت کر رہے ہیں یا نہیں۔ اس کے قوانین میں ہر قسم کے سیاسی اشتہارات پر پابندی شامل ہے۔