اسلام کے پیش نظر خلوص و محبت اور ہمدردی و خیرخواہی پر مبنی معاشرت ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جہاں وہ عبادات: نماز، روزہ، حج اور نمازِ جمعہ و عیدین کے ذریعے اہلِ ایمان کو باہمی میل جول اور قربت کے مواقع فراہم کرتا ہے وہیں صلۂ رحمی، ہمدردی اور انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ ایک مسلمان کے مال میں قرابت داروں، پڑوسیوں اور حاجت مندوں کا حق متعین ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔ (مسلم)
راہِ خدا میں خرچ کو اللہ نے اپنے ذمہ قرض قرار دیا ہے اور اسے بڑھا چڑھا کر لوٹانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: درازیِٔ عمر چاہتے ہو تو صلۂ رحمی کرو۔ اہلِ جنت کی صفات میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور ان کے احسان مند ہوتے ہیں کہ انھوں نے حق ادا کرنے کا موقع فراہم کیا (الدھر 76:8)۔ پھر یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ اپنے بھائی کی اس طرح مدد کرو کہ دائیں ہاتھ سے دو اور بائیں کو خبر نہ ہو۔ اور اس کے ساتھ ساتھ راہِ خدا میں علانیہ خرچ کرنے کا بھی حکم ہے۔ غرض اسلام ایسا معاشرہ چاہتا ہے جہاں حکومت کے ساتھ ساتھ مسلمان ایک دوسرے کے ہمدرد اور خیرخواہ ہوں اور مصیبت میں اپنے بھائی کو تنہا نہ چھوڑیں بلکہ اس کی پریشانی کے ازالے کے لیے بے قرار ہوں۔ گویا انفاق اللہ کی رضا، جنت کے حصول اور نجات کا اہم ذریعہ اور غفلت برتنے پر اللہ کی پکڑ اور گرفت کا باعث ہے۔
ایک طرف اللہ تعالیٰ نے انفاق کی اتنی اہمیت بیان کی ہے تو دوسری طرف احسان جتاکر خرچ کرنے اور ایک مسلمان کی عزتِ نفس کو مجروح کرنے کو سخت ناپسند فرمایا ہے اور اس عمل کو صدقات کو برباد کرنے کے مترادف قرار دیا ہے: ’’ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اُس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے دُکھ ہو… اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتاکر اور دُکھ دے کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ ملادو، جو اپنا مال محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے، نہ آخرت پر‘‘۔ (البقرہ 2:263-264)
یعنی ’’اللہ تعالیٰ جو خود بُردبار اور فراخ حوصلہ ہے… اور تمھارے قصوروںکے باوجود تمھیں باربار بخشتا ہے، وہ ایسے لوگوں کو کیونکر پسند کرسکتا ہے، جو کسی غریب کو ایک روٹی کھلا دیں تو احسان جتاجتا کر اس کی عزتِ نفس خاک میں ملا دیں! اس بنا پر حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو قیامت کے روز شرفِ ہم کلامی اور نظر عنایت سے محروم رکھے گا، جو اپنے عطیے پر احسان جتاتا ہو‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج1،ص 204)
یہاں تک فرمایا گیا: ’’اگر تم ان (سائل) سے اعراض کرنے پر مجبور ہوجائو، اپنے رب کے فضل کی توقع رکھتے ہوئے، تو ان سے نرمی کی کوئی بات کہہ دیا کرو‘‘ (بنی اسرائیل 17:28)۔ اور خدا کا ارشاد یہ بھی ہے: ’’اور سائل کو نہ جھڑکو‘‘۔ (الضحٰی 93:10)
الحمدللہ ہمارے معاشرے میں انفاق، راہِ خدا میں خرچ کرنے اور صلۂ رحمی اور ہمدردی کا جذبہ بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے۔ لوگ اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ انفرادی سطح کے علاوہ بہت سے ادارے اور تنظیمیں اجتماعی طور پر حاجت مندوں کی ضروریات پوری کرتی ہیں جو کہ خوش آئندہے۔ تاہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس پہلو کی طرف بھی توجہ رہنی چاہیے کہ کہیں صدقات ادا کرتے ہوئے احسان جتانے، دُکھ دینے اور لوگوں کی عزتِ نفس کو مجروح کرنے کا باعث نہ بنا جائے جس کے نتیجے میں اللہ کی ناراضی اور صدقات کی بربادی کا سامنا کرنا پڑے، مثلاً یہ کہنا کہ روز ہی آجاتے ہو، یا تمھیں مانگنے کی عادت پڑگئی ہے، یا کچھ کام کاج کیا کرو وغیرہ۔ اسی طرح امدادی سامان تقسیم کرتے ہوئے تصویریں کھنچوانا اور ان کی اخبارات میں اشاعت بھی عزتِ نفس کو مجروح کرنے کا باعث ہوسکتی ہے، اس میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس کے بجائے حق داروں کا حق ادا کرتے ہوئے اُن کا احسان مند اور ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے حق ادا کرنے کا موقع فراہم کیا کہ یہی اہلِ جنت کے اوصاف میں سے ہے۔
اللہ کی ہدایت تو یہ ہے کہ حاجت مندوں بالخصوص سفید پوش اور خوددار لوگوں کو تلاش کرکے جن کے چہروں سے ان کی حالتِ زار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مدد کی جائے (البقرہ 2:273)۔ اسلامی معاشرت میں جہاں ملنے جلنے کے باربار مواقع آتے ہیں، بالخصوص نماز میں پانچ بار نمازیوں کو ایک دوسرے سے ملاقات اور حال احوال جاننے کا موقع ملتا ہے، جہاں اقربا، ہمسائیوں اور اہلِ محلہ کی خبرگیری کی تاکید کی گئی ہو وہاں سفید پوش افراد کو تلاش کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ تاہم مادیت اور نفسانفسی سے دوچار افراد کے لیے جن کے پیش نظر صرف ان کا مفاد ہوتا ہے، یہ امر ضرور محال ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ مدینہ کی گلیوں کا رات کے وقت گشت کیا کرتے تھے کہ حاجت مندوں کی ضروریات کا اندازہ لگا سکیں اور کہے بغیر ان کی مدد کرسکیں۔ بہت سے واقعات میں آتا ہے کہ جب کبھی انھوں نے کسی ایسے ضرورت مند کو پایا جس کی مدد کی جانی چاہیے تھی اور نہیں کی گئی تو وہ نہ صرف اس کی مدد کرتے بلکہ اس سے معافی بھی چاہتے کہ مجھے معاف کردینا کہ فرض کی ادائیگی میں مجھ سے کوتاہی ہوگئی، کہیں اللہ کے ہاں میری گرفت نہ ہوجائے۔
بہت سی رفاہی تنظیمیں خدمت ِ خلق اور ضرورت مندوں کی مدد کرتی ہیں لیکن ان کے طریق کار میں سائل کو دفتری کارروائیوں سے گزرنے کے لیے بہت سے چکر لگانے اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں اس کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے وہیں اس کی پوری طرح سے مدد بھی نہیں ہوپاتی کہ اس کی حاجت روائی ہوسکے۔ انسان جو اشرف المخلوقات ہے، جو مسجود ملائک ہے، جو کعبہ سے زیادہ محترم ہے، یہ اس کی تذلیل ہے۔
خدمتِ خلق کا یہ وہ نامناسب انداز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا ہے بلکہ اس کے لیے سخت وعید ہے۔ یہ خدمت کے بجائے پکڑ اور گرفت کا باعث ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سائل بالخصوص سفید پوش افراد کو تلاش کیا جائے اور ان کی مدد کی جائے۔ اگر کسی سائل کی درخواست موصول ہو تو گھر کی دہلیز پر حاجت مند کی ضرورت پوری کرنے کا اہتمام ہو، نہ کہ اسے غیرضروری دفتری کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑے۔ مناسب ہوگا کہ خدمتِ خلق سے وابستہ کارکنان منظم انداز میں خود حاجت مندوں تک پہنچیں اور ان کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے مدد کریں، احسان مند ہوں اور اللہ سے اجر چاہیں۔ یقیناً ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اُس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دُکھ ہو۔