سند باد جہازی کے حیرت انگیز سفر

206

مُردوں کا غار
اس نے کہا، “تم نہیں جانتے ہماری رسم کیا ہے۔ جب مرد مرتا ہے تو اس کے ساتھ اس کی بیوی کو بھی مُردوں کے غار میں دھکیل دیتے ہیں اور جب بیوی مرتی ہے تو اس کے شوہر کا بھی یہی حشر ہوتا ہے۔”
میں نے کہا، “یہ رسم تو بری رسم ہے۔”
مگر رسم قانون کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی شام لوگ اسے اور اس کی بیوی کی لاش کو شہر کے باہر ایک غار میں لے گئے۔ غار کے منہ سے ایک پتھر ہٹا کر لاش کو اندر پھینک دیا گیا۔ پھر انہوں نے میرے دوست کو رسیوں سے باندھ کر غار میں اتار دیا۔ غار کے سامنے ایک بڑے پتھر کو جما دیا گیا اور سپاہی پہرے پر کھڑے ہو گئے۔
یہ بڑی درد ناک بات تھی۔ میں نے بادشاہ سے اس کا ذکر کیا۔ اس نے کہا، “یہ بڑی قدیم رسم ہے اور میں بھی اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔”
آج نہیں تو کل تیری باری ہے
پھر خود میری پیاری بیوی مختصر سی بیماری کے بعد چل بسی۔ لوگ آئے اور اس کی لاش مُردوں کے غار کی طرف لے گئے۔ پھر میری باری آئی، میں نے احتجاج کی آواز بلند کی یعنی یہ جواز پیش کیا کہ میں اس ملک کا نہیں، اس لیے مجھ پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا، “ہمّت نہ ہارو۔ تم ہم میں سے ایک ہو۔”
وہ مجھے باندھ کر وہاں لے گئے اور غار میں اتار دیا۔ میں نے بڑی عاجزی سے اللہ تعالی سے دعا مانگی، “اے میرے اللہ میں مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ مجھے وہ اپنے قانون کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ اے میرے اللہ! تو مجھے بچا لے۔”
مجھے غار میں کچھ چمک سی نظر آئی۔ دراصل وہ لوگ تمام جواہرات مُردے کے ساتھ غار میں پھینک دیتے ہیں۔ میں نے دیکھا غار میں ہر طرف جواہرات بکھرے پڑے تھے۔ لوگوں کو رسیوں سمیت نیچے ڈال دیا جاتا تھا۔ اس لیے وہاں رسیاں بھی پڑی تھیں۔ پھر میں نے وہاں کچھ حرکت محسوس کی۔ میرے خیال کے مطابق کوئی لومڑی تھی۔ میں نے کوشش کی اسے پکڑوں، مگر اس نے مجھے کاٹا اور بھاگ گئی۔
لومڑی سے چھٹکارے کا ذریعہ
میں نے سوچا کہ اگر لومڑی اندر آتی ہے تو اس غار کے اندر کوئی اور خفیہ راستہ بھی ہو گا۔ لومڑی ایسی ذات ہے کہ ہیرا پھیری سے نہیں رکتی۔ وہ پھر آئے گی اور ضرور آئے گی۔ میں رسّی لے کر اس کی تاک میں بیٹھا کہ اسے قابو کروں گا۔ آخر وہ میرے قابو میں آ گئی اور میں نے اسے رسّی سے جکڑ دیا اور رسّی کا ایک سرا اپنے ہاتھ میں رکھا۔ وہ ایک طرف بھاگی اور ایک سوراخ کو پہنچی۔ معلوم ہوا سوراخ تنگ ہے، لومڑی تو گزر سکتی ہے میں نہیں گزر سکتا۔ میں دن بھر اس سوراخ کو چوڑا کرنے میں مصروف رہا اور آخر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔
باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک پہاڑ کے دامن میں سمندر کے کنارے پر کھڑا ہوں۔ اس مقام کے متعلق مجھے کچھ معلومات تو حاصل تھیں، لیکن میں نے اسے دیکھا نہ تھا۔ جس ڈھلان کے نیچے میں کھڑا تھا وہ دیوار کی طرح عمودی تھی۔ نہ تو کوئی اوپر سے نیچے آ سکتا تھا اور نہ کوئی نیچے سے اوپر جا سکتا تھا۔ قریب ہی ایک ندی سمندر میں گر رہی تھی اور ایک پھل دار درخت بھی تھا۔ میں نے پانی پیا، پھل کھائے اور سوچنے بیٹھ گیا۔ ایک ترکیب سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ یہاں سے ضرور کوئی جہاز گزرے گا، اس لیے اس کا انتظار کیا جائے۔ دوسری بات یہ سوچی کیوں نہ اس غار سے ہیرے جواہرات لائے جائیں۔ اگرچہ اس میں خطرہ بڑا تھا۔ میرے پاس کچھ رسّیوں کے ٹکڑے تھے۔ میں نے سوچا اگر میں سب کو جوڑ کر ایک لمبی رسّی بنا لوں تو غار میں اترنا اور اس سے باہر نکلنا آسان ہو جائے گا۔
چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ کئی بار غار میں اترا اور ڈھیروں جواہرات نکال لایا۔ غار سے کپڑے لا کر ایک بوری بنائی اور اس کو جواہرات سے بھر لیا۔ اب مناسب یہی تھا کہ میں کسی جہاز کا انتظار کروں۔
(جاری ہے)

حصہ