آزادی کی خوشیاں منانے کی تیاری تو سب کر رہے تھےلیکن عادل کو توکب سے بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ وہ رویئے، وہ احساسات اور لوگ کہاں گئے جو ہمارے تھےاور ہم سے کہیں کھوگئے۔وہ سچےرشتے وہ مخلص رویئے کبھی ہمیں مل پائیں گے یا شاید کبھی بھی نہیں اسکا ذہن بس ایسے ہی خیالات کے گرد چکر کاٹتا۔
ایسا نہیں ہے کہ وہ پڑھائی میں کم تھا یا اپنے پیارے ملک میں صرف ایک ہی جگہ وقت گزارا تھا۔وہ ایک ذہین طالبعلم تھا باباکے ساتھ پاکستان کے چپے چپے میں گھوماتھا۔اسکے پاس اپنے ملک کے ہر حصے کے نقشے طرز رہائش طرز معاشرت پر ڈھیروں کتابوں کا ذخیرہ تھا۔اسے مختلف زبانوں کے لوگوں سے بات کرناانکی رائے لینا انکے رہن سہن میں رنگ جانا اچھا لگتاتھا۔ وہ مری کے خوبصورت سبزہ زار پہاڑوں، ہرنائی ہنزہ کیلاش سوات کی خوبصورت وادیاں گھوم چکاتھا،وہ کوئٹہ کے نوجوانوں سے بھی ملاتھا۔ لیکن یہ سب جاننے کے باوجود بھی وہ کسی ایسی شے کی تلاش میں تھاجو بقول دادا جان سے کہ اس ملک کی کامیابی کی کنجی ہے۔
اسے یوں محسوس ہوتاکہ بس ہر جگہ اب ظاہری چیزوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔مادی روپیہ پیسہ بینک بیلنس،اسٹیٹس کی دوڑ۔عزت بھی اسی کی جو زیادہ رتبہ اور شان والاہو۔یہ ملک حاصل کرنے کا مقصد خلوص، چاہت و لگن بس کہیں کھوگئے تھے۔
عادل نویں جماعت میں پڑھتاوہ اپنے داداجان سے ٹوٹ کر محبت کرتا۔اسکے دادا اپنے فارغ اوقات میں اسے قیام پاکستان کے جو قصے سناتے اس کی نظریاتی اساس کی جو باتیں بتاتے وہ اسے اب بے سروپاباتیں لگتیں۔وہ سوچاکرتاکہ کہاں کمی ہے۔
ایک دن اسکے بابا داداجان کے لئے نیا فرنیچر نئے بستر نئی الماری نیا بک شیلف لائے۔لیکن دادا نے صاف کہہ دیا وہ اپنے بستر کو نہیں چھوڑ سکتے۔کیونکہ اسکے علاوہ انہیں کہیں نیند ہی نہیں آتی۔لیکن شوکیس،کتابوں کی الماری انہیں پسند آگئی۔اس الماری کو ترتیب دینا عادل میاں کی ذمہ داری ٹہری۔
دادا عادل میاں کے ساتھ اپنی کپڑوں کی الماری سےکتب نکالتے جاتے اور عادل میاں انہیں نئے بک شیلف اور شوکیس میں دادا کی ہدایت کے مطابق سلیقے سے ترتیب دیتے جارہےتھے۔داداکی پرانی ڈائریاں انکی ہدایت کے مطابق نئی الماری میں سب سے اوپری خانے میں ترتیب دے رہے تھے۔
اچانک دادا نے ایک ڈائری نکال کر انہیں پڑھنے کو دی۔عادل میاں نے پڑھنا شروع کیا۔
٭1991یکم جنوری۔۔۔اے اللہ اس سال کو میرے ملک پاکستان کے لئے رحمتوں برکتوں والا سال بنادے۔دشمنوںکی سازش بس انہی پر الٹ دے۔جو میرے ملک کو اس دنیا سے مٹانے کے درپےہیں۔
٭نماز تہجد نماز فجر تلاوت کے بعد تھوڑی دیر کےلیے آرام کیا۔
٭9 بجے ناشتے کے بعد حسب معمول تفہیم القرآن جلد اول کا مطالعہ شروع کیا۔
٭مطالعہ قرآن اہم نکات
1۔ انسان کے دل میں جس چیز کی سب سے زیادہ طلب اور خواہش ہوتی ہے وہ اسکے کئے دعا کرتاہے۔
2۔ابتداء میں دعا کی تعلیم دی گئی اور بتایاگیا کہ ہر علم کا سرچشمہ یہ ہدایت یعنی قرآن ہے۔
3۔بندہ دعا کرتاہے تو اللہ پورا قرآن اسکے سامنے رکھ دیتاہے۔
4۔اسلامی تہذیب کا پہلاقاعدہ یہ ہےکہ ہرکام کی ابتداء اللہ کے بابرکت نام سے ہوگی
5۔اسکافائدہ یہ ہوگاکہ اللہ کی مدد نصرت و تائید اس کام میں شامل ہوجائے گی۔
عادل نے سوچایہ کتنے پیارے اور واضح نکات ہیں وہ بھی اسی طرح تفہیم القرآن کا مطالعہ کرےگا۔۔کتابوں کی الماری مکمل ترتیب دے کے وہ کچھ سوچتے ہوئے اپنے کمرے میں آگیا۔
اس نے سوچنا شروع کیا کہ کتنی مرتبہ اسنے اس ملک کی ترقی استحکام سلامتی کی اللہ سے دعائیں مانگیں۔شاید کبھی نہیں
اس نے کتنی بار لوگوں کو یہ بتایاکہ اس ملک کی بنیاد کلمہ لاالہ الاللہ پر ہے۔شاید کبھی نہیں
میں نے خود کتنی بار اپنے اندر کے تضاد کو ختم کیا۔
عادل میاں کو یہ بات سمجھ آگئی کہ جب تک اپنےاندر تبدیلی نہیں ہوگی۔دوسروں کو تبدیل کرنے کے لیے سوچنا بےکارہے۔اس ملک کی بنیاد ہی لا الہ الا اللہ پر تھی اللہ کانام لیا تھا تو اللہ کی نصرت، تائید و فتح ہماری کوششوں میں شامل ہوگئی اور ہم اپنا الگ ملک لینے میں کامیاب ہوئے۔
جب ہم نے اپنے اس اسلام کلمےکو فراموش کردیا سنتوں کی پامالی شروع کی تو پھر ہم نیچوں سے نیچ ہوکر پستی کا شکار ہوگئے۔
دادا درد کے لہجے میں کہہ رہے تھے
یہ ملک ہمیں تحفے میں نہیں ملا۔میرے بیٹے اس کے لیے سینکڑوں پاکباز مردعورت بچے قربان ہوگئے۔جبھی تو یہ پاک دھرتی وجود میں آئی ہے۔دادا جان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
عادل یہ سن کر دل میں ایک عزم مصمم لے کر اٹھے کھانا کھایااوراپنے دوست سے ملنے چلے گئے۔جون کا مہینہ شروع ہوتے ہی داداجان کی مدد سے اپنے گھر کے صحن میں سمر کیمپ کیا۔
مختلف پرگراموں سرگرمیوں اور دیگر تفریحات کے ذریعے بچوں کو اسلام کی تعلیمات سے قریب کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
ایک دن عادل میاں گھر میں ننھے ننھے بہت سے پودے خرید لائے۔بڑے میدان میں جاکر بچوں کے ساتھ وہ پودے زرخیز زمین میں لگادیئے۔اور سب نےہلکا ہلکا پانی دیا کچھ دن بعد۔بچے اپنے ہاتھوں کے لگے پودوں کو یوں ہنستا مسکراتا دیکھ کر بہت پرجوش تھے۔
عادل میاں نے اس سرگرمی کے حوالے سے مختلف بچوں سے انکے تاثرات لئے۔
چھوٹے بلال کاکہناتھا کہ اس سے پاکستان ہرابھرا ہوجائےگا۔
اس سے بڑے حسان کا کہنا تھاکہ نہ صرف پاکستان ہرابھراہوگا بلکہ پودے لگانے کا اجروثواب بھی ملے گا۔
دانیہ کا کہنا تھا یہ ہمارے لئے صدقہ جاریہ بھی ہوگا۔
عادل بہت خوش تھے انکی تھوڑی سی محنت اور کوشش بھرپور رنگ لارہی تھی۔
سمر کیمپ کا اختتام بہت احسن انداز سے ہوا۔اگست کا خوبصورت مہینہ شروع ہوچکا تھا ہر طرف بارش کے باعث سبزے کی بہار تھی۔اب گھر میں بھی چھوٹے بہن بھائی 14اگست کی تیاریوں میں جھنڈیوں کی بجائے مقامی پودے لگانے میں مصروف تھے اور دادا جان تو جیسے دوبارہ جوان ہو گے تھے۔