پروفیسر صوفی محبوب الہیٰ (پاکستان)
عالمِ دین‘ معلم‘ خطیب اور مصنف پروفیسر صوفی محبوب الٰہی (سابق سردار سنت سنگھ) ضلع گوجرانوالہ کے ایک مقتدر سکھ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے (تاریخ) کے طالب علم تھے۔ جب نومبر 1916ء میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور نوع بہ نوع آزمائشوں کے باوجود نہ صرف اس پر قائم رہے بلکہ پوری زندگی اس کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وقف کر دی۔ قرآن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں غایت درجہ کا عشق تھا۔ 7 نومبر 1974ء کو گوجرانوالہ میں انتقال فرمایا۔ ذیل کی تحریر جناب ارشد میر ایڈووکیٹ (گوجرانوالہ) کے اس مضمون کی تلخیص اور متعلقہ حصوں پر مبنی ہے جو موصوف نے صوفی صاحب مرحوم کے بارے میں رقم فرمایا۔ (مرتب)
…٭…
صوفی محبوب الٰہی 17 اکتوبر 1894ء کو ضلع گوجرانوالہ کے معروف قصبہ واہنڈو میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک باعزت سکھ گھرانے سے تھا۔ ان کے دادا گوبند داس کا شمار پنجاب کے روسا اور نامور ساہوکاروں میں ہوتا تھا۔ والد گنپت رائے پہلوانی اور شہسواری میں اپنی مثال آپ تھے۔ مگر ان کا انتقال صوفی صاحب کی پیدائش سے دس پہلے ہو گیا اور موصوف پیدائش سے پہلے ہی یتیم ہو گئے۔ تاہم دادا نے ان کی پرورش اور تربیت بڑے ناز و نعم سے کی اور پوتے کو یتیمی کا بالکل احساس نہ ہونے دیا۔
ابتدائی تعلیم قصبے میں حاصل کرنے کے بعد 1912ء میں میٹرک خالصہ ہائی اسکول گوجرانوالہ سے امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے مہندرا کالج پٹیالہ میں داخلہ لے لیا۔ وہاں سے 1914ء میں ایف اے اور 1916ء میں بی اے کیا۔ بی اے میں کالج میں اوّل آئے اور نارتھ بروک گولڈ میڈل حاصل کیا۔ دورانِ تعلیم انہیں انگریزی ادب اور تاریخ سے خاص دلچسپی تھی۔ تاریخ سے گہری وابستگی ہی کا نتیجہ تھا کہ ایک مرتبہ انہوں نے کالج کی ایک تقریب میں پیغمبرِ اسلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک پُر اثر اور بھرپور تقریر کر ڈالی۔ دراصل اسلام اور مسلمانوں سے ان کے قرب کا سبب واہنڈو کے حق شناس بزرگ پیر جلال الدین بنے‘ جن سے صوفی صاحب بہت متاثر ہوئے اور اکثر ان کے پاس جا کر بیٹھتے حتیٰ کہ ان سے نقشبندی انداز میں ذکر کرنے کا طریقہ بھی سیکھ لیا۔ اس وقت صوفی صاحب ابھی کالج ہی میں پڑھتے تھے۔
اسی زمانے میں اتفاق یوں ہوا کہ گوجرانوالہ کے ایک صاحب قاضی عالم دین نے حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات اردو میں ترجمہ کرکے شائع کر دیے۔ صوفی صاحب نے قاضی صاحب موصوف سے کتاب عاریتاً طلب کی اور بعد میں یہی کتاب ان کے قبولِ اسلام کی محرک بن گئی۔ وہ حضرت مجدد الف ثانی کی نادرِ روزگار شخصیت سے اور بے مثال کارناموں سے بہت متاثر تھے اور اکثر ان کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ فرماتے تھے ’’یوں تو سارے ہی خطوط اپنے اندر معانی کے سمندر سموئے ہوئے ہیں لیکن بعض فقروں نے قلب و ذہن پر اَن مٹ نقوش چھوڑے۔ مثلاً ’’فقر خادم شریعت ہے۔ قیامت کو شریعت کے حوالے سے سوال ہوگا نہ کہ فقر کی نسبت سے۔‘‘ اور اگر اسی ایک فقرے کو سیاق و سباق سے دیکھا جائے تو پورے اسلامی فلسفہ کی ماہیت سمجھ میں آجاتی ہے۔
مکتوباتِ امام ربانی کے مطالعہ سے جب صوفی صاحب اسلام کے بہت قریب آگئے اور مزید تحقیق سے ان پر اسلام کی حقانیت ہو گئی تو وہ راولپنڈی کے صاحبِ دل بزرگ حافظ عبدالکریم کی مجلسوں میں بھی بیٹھنے لگے۔ حافظ صاحب موصوف سے بھی انہوں نے بہت روحانی فیض حاصل کیا۔
اس زمانے میں صوفی صاحب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے تاریخ میں پڑھتے تھے اور ہوسٹل میں رہائش پذیر تھے۔ اسلام کے بارے میں وہ اتنے یکسو ہو گئے تھے کہ اپنے کمرے کا دروازہ بند کرکے وہ باقاعدہ نمازیں پڑھتے تھے۔ا یک روز وہ نماز میں مشغول تھے کہ حکیم مرتضیٰ ملتانی اور چودھری نذیر احمد (سابق اٹارنی جنرل) نے جو صوفی صاحب کے کلاس فیلو تھے‘ دروازے کے سوراخ سے انہیں دیکھ لیا اور پھر دونوں نے انہیں گلے سے لگا کر خوب بھینچا۔
انہی ایام میں ان کے مسلمان پروفیسر نے جو گورنمنٹ کالج میں پڑھاتے تھے‘ انہیں مشورہ دیا کہ دورانِ تعلیم اسلام قبول نہ کریں مبادا انہیں کالج سے نکال دیا جائے اور ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو جائے‘ مگر صوفی صاحب نے اس مشورے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا ’’میرا رزق ایم اے پر موقوف نہیں‘ یہ بی اے کی بنیاد پر بھی مل سکتا ہے۔‘‘ چنانچہ 24 نومبر 1916ء کو انہوں نے قبولِِ اسلام کا اعلان کر دیا اور حافظ عبدالکریم کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ بعد میں ان کی شادی حافظ صاحب کی موصوف کے ایک مرید عبدالعزیز ڈپٹی پوسٹ ماسٹر جنرل کی ہمشیرہ سے ہو گئی۔
صوفی صاحب کے مسلمان ہونے کا اعلان پورے خاندان اور سکھ برادری میں زبردست دھماکہ ثابت ہوا۔ برملا دھمکی دی گئی کہ اگر مسلمان ہو کر گائوں میں آنے کی جرأت کی تو جان سے مار دیے جائو گے‘ مگر آپ کے یقین و ایمان کی پختگی کا یہ عالم تھا کہ آپ نہ صرف بے دھڑک اپنے گائوں میں گئے بلکہ تبلیغِ اسلام کا کام بھی کھلم کھلا شروع کر دیا اور اس سلسلے میں خاندانی روایات کے بالکل برعکس غریب اور نیچ ذات کے لوگوں سے بھی میل ملاقات کرنے لگے۔ خاندان کے لوگوں نے اور خصوصاً ان کے چچا نے اسے اپنی توہین قرار دیا اور صوفی صاحب کو مختلف حیلوں سے باز رکھنے کی کوشش کی مگر موصوف اپنے مؤقف پر مستقل مزاجی سے ڈٹے رہے حتیٰ کہ مخالفتوں کے سارے طوفان اس چٹان سے ٹکرا کر ختم ہو گئے۔
خاندانی حلقے سے باہر ہندوئوں‘ سکھوں اور انگریزو ں نے بھی صوفی صاحب کے قبولِ اسلام پر اعلانیہ بے زاری اور برہمی کا مظاہرہ کیا۔ تاریخ کے ایک غیر مسلم پروفیسر نے کہا ’’اب تمہیں گائے کا گوشت بھی کھانا پڑے گا‘ کیا تمہاری غیرت برداشت کر لے گی۔‘‘ مگر بقول صوفی صاحب ’’میں یہ بات سن کر مسکر ادیا کہ جسے یہ غیرت کہہ رہا ہے‘ میرا مذہب تو اسے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔‘‘
ڈی اے وی کالج کے پرنسپل پنڈٹ ہنس راج نے کہا ’’تمہیں شرم آنی چاہیے کہ مسلمان ہو کر تم نے باپ دادا کا نام ڈبو دیا۔ تم شاید عیش پرست ہو گئے ہو۔ اگر ایسی کوئی بات ہے تو بتائو تمہارا رشتہ ایف سی کالج کے ایک پروفیسر کی لڑکی سے کرا دیتا ہوں۔ سواری یا روپیہ چاہیے تو اس کا بندوبست بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ صوفی صاحب نے جواب دیا ’’آپ مجھے غلط سمجھے ہیں‘ مجھے ایسی کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ مجھے روشنی کی طلب تھی اور وہ مجھے اسلام سے مل گئی ہے جب کہ دوسرے مذاہب میں منزل کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔‘‘
صوفی محبوب الٰہی نے 1918ء میں ایم اے تاریخ اور 1920ء میں ایم اے انگریزی کا امتحان پاس کیا۔ انگریزی میں وہ پنجاب یونیورسٹی میں دوسرے نمبر پر رہے۔ وہ یقینا اوّل آتے مگر بے ایمانی سے ایف سی کالج کے ایک پروفیسر کے لڑکے کو یہ اعزاز بخش دیا گیا۔ ایم اے سے فارغ ہو کر سرٹیفکیٹ لینے گئے تو ایک متعصب انگریز پروفیسر راس ولسن سے ملاقات ہوئی۔ اس نے پریشان ہو کر پوچھا ’’تم مسلمان کیوں ہوئے؟ عیسائی یا بدھ کیوں نہیں ہو گئے؟‘‘
صوفی صاحب نے جواب دیا ’’مجھے پیغمبرِ اسلام کے اخلاق اور سیرت اور مثالی کردار نے متاثر کیا ہے۔‘‘
یہ امر بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ جب صوفی صاحب نے اسلام قبول کیا تو گورنمنٹ کالج کے پرنسپل کرنل اسٹیفن کے پاس تبدیلیِ نام کی خاطر گئے۔ پرنسپل اگرچہ دہریہ تھا مگر ادب اور شاعری خصوصاً سعدی اور شیکسپیئر سے گہری قلبی مناسبت رکھتا تھا۔ اس نے اعتراض کیا کہ سرپرست کی موجودگی کے بغیر نام تبدیل نہیں ہوسکتا۔ آپ نے جواب دیا کہ میں اپنے پہلے سرپرستوں کو نہیں مانتا اب میں خود ہی اپنا سرپرست ہوں۔ یہ سن کر پرنسپل مسکرا پڑا اور نیا اسلامی نام لکھ لیا۔
تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد صوفی صاحب محبوب عالم اسلامیہ ہائی اسکول گوجرانوالہ کے ہیڈ ماسٹر تعینات ہوئے اور 1926ء تک اس فرض کو نبھاتے رہے۔ بعدازاں وہ ایم بی ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر بنے مگر کچھ عرصے کے بعد انٹر کالج گجرات میں لیکچرار ہو گئے۔ پھر سرکاری ملازمت اختیار کر لی اور مختلف ہائی اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر رہے۔ 1941ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹا ہو کر وہ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں لیکچرار مقرر ہوئے اور 1916ء میں یہاں سے ریٹائر ہوئے۔
صوفی صاحب کو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی بڑی فکر تھی۔ کالج میں وہ باقاعدگی سے ساتھ طالب علموں کو قرآن و سنت پر مبنی درست دیتے۔ ہر جمعہ کو تھانے والا بازار کی نابلی والی مسجد میں تقریر کرتے‘ خطبہ دیتے اور نماز پڑھاتے۔ ان تقریریں انگریزی‘ اردو‘ عربی‘ فارسی اور پنجاب زبان کے اشعار اور عالمی مفکرین کے فرمودات سے مزین ہوتی تھیں جنہیں ان کے لہجے کی شیرینی اور خلوص نئی آب و تاب دے دیتا تھا۔ قرآن و حدیث اور تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی۔ چنانچہ سامعین وجد و کیف سے مسحور ہو جاتے اور سینوں میں نیا جذبۂ عمل کروٹیں لینے لگتا۔
صوفی صاحب کو تصنیف و تالیف سے بھی یک گونہ تعلق تھا۔ انگریزی میں سیرتِ مقدسہ پر ایک کتاب لکھی اور ایک دوسرے اہم موضوع پر مواد اکٹھا کر رہے تھے مگر اسے مکمل نہ کرسکے۔
صوفی صاحب کو علامہ اقبال سے والہانہ عقیدت تھی۔ اکثر ان کے اشعار گنگناتے رہتے۔ وہ 1920ء میں پہلی مرتبہ اقبال سے ملے اور جب علامہ کو معلوم ہوا کہ صوفی صاحب نو مسلم ہیں تو بہت خوش ہوئے اور خصوصی محبت اور توجہ فرماتے رہے۔ صوفی صحب کو یہ اعزاز حاصل ہو اکہ انہوں نے علامہ اقبال کی بیاض سے ’’ضربِ کلیم‘‘ کا مسودہ نقل کیا۔ علامہ مرحوم نے ضربِ کلیم کا ایک نسخہ کمال شفقت سے صوفی صاحب کو عنایت فرمایا تھا۔
صوفی صاحب کو قرآن سے عشق تھا۔ احباب کو عموماً قرآنِ پاک کی تلاوت کی تلقین کرتے۔ وہ اسلام کو اس کی صحیح روح کے ساتھ سمجھتے تھے۔ علمائے سو اور عالمانِ ظاہر بین پر شدید گرفت کرتے۔ فرقہ بندی اور بدعات کے سخت خلاف تھے اور توحید پر خصوصی زور دیتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر بھی عملاً کار بند رہے۔ پُر رعب و پُر وقار شخصیت داڑھی سے مزین تھی‘ خوب صورت نورانی چہرہ‘ محبت بھری گفتگو اور لہجے میں کوثر و تسنیم کی مٹھاس اور روانی۔ صوفی محبوب الٰہی کو جو شخص ایک مرتبہ ملتا تھا وہ صوفی صاحب کو واقعی اپنا محبوب بنا لیتا تھا۔