پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل سے تحقیق کے موضوع پر تفصیلی تبادلہ خیال
(پانچواں حصہ)
ڈاکٹر صاحب سے میں نے کہا کہ’’ آپ نے ساری دنیا دیکھی ہے کئی ممالک میں تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ رہے، آپ ہمیں یہ بتائیے کہ جن قوموں کو ہم ترقی یافتہ کہتے ہیں اور جو ماضی میں بہت پس ماندہ تھیں لیکن انھوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کی اور آج غالب ہیں۔وہاں تدریس اور تحقیق کے کام کے لیے مقامی زبان کو اہمیت دی جاتی ہے یا پھر رائج بین الاقوامی زبان کو اختیار کرنے پر زور دیا جاتا ہے؟ تو آپ کا کہنا تھا کہ ’’آپ نے ایسے ممالک کے حوالے سے پوچھاہے جو ماضی میں پس ماندہ تھے لیکن آج ترقی یافتہ ہیں، میں ایسے ممالک میں سے چین اور ملیشیا کا ذکر کرنا چاہتاہوں۔ان ممالک میں زیادہ تر تحقیقات تو ان کی اپنی ہی زبان میں ہوتی ہیں لیکن جو افراد انگریزی میں لکھنا چاہیں انھیں اس کی اجازت دی جاتی ہے۔ لیکن اصرار وہاں اپنی ہی زبان پر ہے۔اس ضمن میں حالیہ چند برسوں ملیشیا میں انگریزی زبان میں متعدد مقالات لکھے گئے ہیں جو زیادہ تر غیر مقامی افراد نے لکھے ہیں۔اس طرح صرف غیر ملکی افراد کو یہ رعایت دی جاتی ہے۔ لیکن یورپی ممالک میں تو انگریزی میں لکھنے پر اب تک پابندی ہی ہے۔وہاں صرف مقامی زبان میں لکھنا لازمی ہے۔جاپان کی اکثر یونیورسٹیوں میں جاپانی زبان ہی میں مقالات لکھے جاتے ہیں۔لیکن میرے تجربے میں ہے کہ ایک دو یونیورسٹیوں میں، خاص طور پر کیوتو یونیورسٹی کے ایک دو کلیوں میں، جہاں عالمی علاقائی مطالعات کا ایک عمدہ سلسلہ ٔ تحقیقات شروع ہوا ہے وہاں طلبہ کے لیے لازم کیاگیاہے کہ وہ انگریزی زبان میں مقالہ لکھیںکہ ان کے موضوعات کی نوعیت ایسی ہے۔ورنہ بالعموم ہر ملک میں چاہے وہ تیسری دنیا ہی سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں، مقامی زبان ہی میں تحقیقات کا رواج ہے اور سب ہی اس پر عمل کرتے ہیں۔کاش پاکستان میں انگریزی سے مرعوب غلامانہ ذہنیت بھی قومی احساسات و جذبات سے سرشار ہوجائے اور انگریزی پر اصرار ختم کرسکے۔اگر ایسا ہوجائے تو یقینا ہمارے ملک میں تحقیقات کی تعداد ہی نہیں بڑھے گی،معیار بھی بلند ہوجائے گا۔
فن تحقیق سے متعلق ایک سوال کے جواب میں آپ کا کہنا تھا کہ’’تحقیق،دریافت و انکشاف ِ حقیقت ہے۔یعنی جو حقائق چھپے ہوئے اور نامعلوم ہیں انھیں معلوم کرنا۔کچھ باتیں معلوم بھی ہوں تو ان پر نئے زاویے اور نئے نقطہ ٔ نظر سے غورو تجزیہ کرنا اور انھیں اس طرح پیش کرنا کہ اس ’’حقیقت‘‘ کے مزید پہلو سامنے آسکیں، جو ظاہر نہ تھے۔اس عمل کو اگر ارادتا ً کسی ایک موضوع یا عنوان پر مرکوز رکھا جائے تو گویا اس عنوان یاموضوع پربالتفصیل غور کیاجارہاہے یا بالتفصیل مطالعہ کیاجارہاہے۔اس غور و فکر اور مطالعے میں وہ سارے تقاضے استعمال میں آرہے ہیں جو اس عنوان یا موضوع پر تمام ممکنہ معلومات فراہم کرسکیں۔ ان تقاضوں کی تکمیل کے لیے وسائل درکار ہوتے ہیں جنھیں تحقیق کی زبان میں سند یا ماخذ کہتے ہیں۔ اس طرح جب تک تحقیق کے لیے سند یا ماخذ یا اسناد و ماخذ کی جستجو کرکے ہر ہر ذریعے و وسیلے سے انھیں حاصل کرکے انھیں سامنے نہ رکھا جائے، ان سے مدد لے کر اپنے مطالعے اور اس کے نتائج کو حاصل نہ کیاجائے ’’حقیقت ‘‘معلوم نہیں ہوسکتی یا تحقیق نتیجہ خیز، مکمل یا جامع نہ ہوگی۔اس عمل میں تحقیق کو مستند و معیاری بنانے کے لیے اسناد و ماخذ کو پرکھنا اور جانچنا ضروری ہے کہ آیا وہ عنوان یا موضوع سے مناسبت و تعلق رکھتے بھی ہیں یا نہیں؟اور قابل اعتماد بھی ہیں یا نہیں؟ اعتماد کے لیے ان کی حیثیت کیاہے؟ بنیادی؟ثانوی؟ عصری؟ یاقدرے کمزور؟تحقیق کو معیاری بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے وسائل اور ماخذ بنیادی اور بذات مستند و قابل اعتماد ہوں تاکہ ان کی مدد سے حاصل ہونے والے نتائج یا تحقیق بھی مستند ہوسکے۔ان سب سے قطع نظر تحقیق کا مقصد و مدعا ان باتوں کا کھوج لگانا ہے، جو نامعلوم ہیں یا موضوع کے لحاظ سے اچھوتے کہ کسی نے اب تک ان کو موضوع نہیں بنایایا اگر موضوع بنایا بھی ہے تو اس کا حق ادا نہیں کیا، نامکمل اور تشنہ معلومات پیش کی ہیں۔ایسی کمزوریوں کو دور کرنا بھی تحقیق کا ایک مقصد ہے۔
بات طویل ہوگئی تھی لیکن میں نے پھر بھی ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ ’’ کیا آپ کے خیال میں جامعات میں ہونے والی تحقیقات اپنے مضمون اور معاشرے کے لیے کوئی مفید حیثیت رکھتی ہیں۔مراد یہ ہے کہ کیا ایک تحقیقی مقالہ اپنے موضوع پر موجود علمی سرمائے میں اضافے کا باعث بنتا ہے اور یہ کہ اس تحقیقی مقالے کا فائدہ دوسرے محققین اور معاشرے کو پہنچا ہے یا نہیں؟اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ تو آپ نے عرض کیا کہ ’’ضرور فائدہ پہنچاتی ہے، اگر وہ معیاری اور نتیجہ خیز ہو۔یہ تو دراصل موضوع پر منحصر ہوتاہے کہ موضوع کیاہے؟ موضوع کی افادیت خود اس کے متعلقہ علم کے لیے یا معاشرے کے لیے کیاہے؟ اگر تحقیق معیاری ہوتو وہ کم از کم اپنے متعلقہ علم میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے،اور جو جو خلا اس علم میں معلومات، نظریے، یا اس کی روایات و تاریخ میں موجود ہوں تو وہ دور ہوسکتے ہیں اوران میں بہتری بھی آسکتی ہے یا ان میں اضافہ بھی ہوسکتاہے۔ہر علم سے اس کی ایک تاریخ منسلک ہوتی ہے اور ہر علم ایک معاشرے سے نسبت رکھتاہے۔ کوئی علم کسی معاشرے سے علیحدہ نہیں ہوتا۔پھر ہر معاشرے کی بھی ایک تاریخ ہوتی ہے اور معاشرہ اور تاریخ علم سے مربوط ہوتے ہیں۔اس لیے یہ موضوع پر منحصر ہوتاہے کہ اس کا تعلق علم سے کتناہے اور معاشرے سے کتنا۔ہرعلم اپنے دائرہ کار کی حد تک معاشرے کی تعمیر و بہتری کے لیے استعمال میں آسکتاہے۔تحقیق سے یہ کام بھی لیاجاسکتاہے کہ وہ معاشرے کی کمزوریوں اور نقائص کا تعین کرے اور اس کی تعمیر و بہتری کے لیے علم سے مدد لے اور علم کے اصولوں اور ضوابط سے، جو اس معاشرے کی تعمیر و بہتری کے کام آسکیں،نشاندہی کرے تاکہ معاشرہ انھیں اخذ کرکے ان سے استفادہ کرے اوراس علم کی روشنی میں اپنے میں ممکنہ بہتری لاسکے۔یہ تحقیق کا کام ہوتاہے کہ وہ معاشرے کو وہ رہنما اصول فراہم کرے جو اس کی بہتری کے لیے متعلقہ علم مہیا کرسکتاہے۔
میں نے مزید پوچھا کہ’’ سوشل سائنس یا علوم عمرانی،ان کا تعلق پورے معاشرے سے ہوتا ہے، اورہمارا معاشرہ جو طرح طرح کی معاشی،نفسیاتی،تاریخی ادبی، صحافتی اوردیگر پیچیدہ مسائل اور الجھنوں میں گرفتار ہے سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے کو درپیش مسائل کے بارے میں جامعات کی تحقیق کوئی روشنی اور کوئی بصیرت فراہم کرسکتی ہے؟اگر ایسا نہیں ہے تو جامعات میں ہونے والی تحقیق کا فائدہ استاد کی فراہمی کے سوا کیا ہے؟ جب معاشرے کو اس تحقیق سے فائدہ نہیں پہنچ رہا تو تحقیقات پر خرچ ہونے والے لاکھوں،کروڑوں روپوں کا کیا مصرف ؟ تو ڈاکٹر سید معین الدین عقیل کا کہنا تھا کہ واقعی، جو تحقیق معاشرے کو فائدہ نہ پہنچائے وہ مستحسن نہیں، لیکن اگر معاشرے کو فائدہ نہ پہنچائے مگر علم و ادب اس سے فائدہ اٹھائیں یا علم کے خلا پُر ہوں یانئی معلومات حاصل ہوسکیں اور نئے تصورات یا نظریات تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئیں تو ایسی تحقیق خود معاشرے کے لیے مفید ہوسکتی ہے اور یوں اس طرح معاشرہ ایسی تحقیقات سے مستفید ہوسکتاہے۔اس تناظر میں یہ جامعات اور تحقیقی منصوبوں کو منظوری عطا کرنے والی مجلسیں یا تحقیقی منصوبوں کے نگران چاہیں یا ارادہ کریں تو مطالعات اور تحقیق کے لیے ایسے منصوبے وضع کریں جو معاشرتی فوائد کے حامل ہوں۔ہماری جامعات میں اب ایسے اساتذہ اور سربراہ کم ہی ہوتے ہیں جو اخلاص اور بصیرت کے ساتھ ایسے عمدہ منصوبوں کے بارے میں سوچیں جن میں معاشرتی افادیت اور تعمیر و اصلاح کے پہلو موجود ہوں۔ورنہ جو تحقیقی سرگرمیاں ہماری جامعات میں دیکھنے میں آرہی ہیں وہ زیادہ تر اساتذہ کے ذاتی مفادات کے تحفظ و فروغ اور نام نہاد ترقیوں کے مقصد ہی کے لیے ہیں۔ان وسائل سے، جو تحقیق پر صرف ہورہے ہیں، ملک و قوم اور معاشرے کا فائدہ کم اور اساتذہ کا زیادہ ہے۔اس طرح آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ قومی و ملکی وسائل و سرمایہ افراد پر زیادہ صرف ہورہاہے قوم و ملک کے مفادات پر کم۔
اس ضمن میں ایک تفصیلی سوال میں نےپوچھا کہ ’’ہماری جامعات میں معیاری تحقیق نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس میں مقالے کو جانچنے کا جو طریقہ کار اور انتظام ہے وہ شفاف یا میرٹ پر نہیں ہے،ہوتا یہ ہے کہ وہ نگراں مقالہ جس کی رہنمائی اور نگرانی میں مقالہ نگار تحقیق کرتا ہے، اس کے تحقیقی مقالے کے ممتحن کی فہرست بھی نگران مقالہ ہی منتخب کرتا ہے، اس فہرست میں سے نگران مقالہ کے کہنے،سننے پر اس کے واقف کاریا جاننے والے ممتحن کا بی ایس آر کے اجلاس میں انتخاب کرلیاجاتا ہے، پھر نگران مقالہ ہی ممتحن سے رابطہ کرکے اسے مقالے کی جانچنے کی رضامندی لیتا ہے اور جب مقالہ امیدوار کے ذریعے ممتحن تک پہنچ جاتا ہے (واضح رہے یہ بی ایس آر کے کرنے کے کام ہیں )تو اس کے بعد نگران مقالہ ممتحن سے اپنے تعلقات اور مراسم کی بنا پر بہت کم وقت میں مثبت رپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے مقالے کے معیار کو تحقیقی اصولوں پر نہیں پرکھا جاتا اور کم تر معیار کے مقالے کو بھی بہت آسانی سے ڈگری مل جاتی ہے۔جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ آج تک کسی ایک مقالے کے بارے میں یہ رپورٹ نہیں آئی کہ مقالہ مسترد کردیا گیا یا شاذونادر کسی مقالے کے بارے میں ممتحن یہ رپورٹ کرتا ہے کہ اس کو ٹھیک کر کے جمع کیا جائے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ڈگری کے حصول کے بعد مقالہ نگار مقالے کو اہل علم سے چھپائے رکھتا ہے۔ اگر آپ اس پورے تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں تو اس کی اصلاح کے لیے آپ کے ذہن میں کیا تجاویز ہیں؟
ڈاکٹر سید معین الدین عقیل نے بڑے صبر کے ساتھ سوال کو سنا اور جواب دیا کہ ’’جو صورت ِ حال آپ نے بیان کی ہے وہ بالعموم درست ہے۔ہمارے ہاں مقالے کے موضوع کی منظوری سے لے کراسے مکمل صورت میں پیش کرنے اور اس پر ممتحن حضرات سے مثبت آرا ٔ کے حصول تک بلاشک و شبہ بدعنوانیوں کا ایک سلسلہ ہے جس کی طرف کسی حد تک آپ نے اس وقت اشارہ کیاہے۔انتہائی سطحی، سرسری، علم و معاشرے کے لیے بے فائدہ، از کار رفتہ اور فضول موضوعات طے ہوجاتے ہیں، منظور بھی ہوجاتے ہیں اور ان پر جیسے تیسے کام بھی ہوجاتے ہیں اور مقالہ مکمل ہوکر سند کے حصول کے مقصد سے پیش بھی کردیاجاتاہے اور منظور بھی ہوجاتاہے۔اس لیے کہ اگر موضوع سطحی اور فضول ہو تب بھی منظوری عطا کرنے والی مجلس میںاساتذہ انجمنوں کے کارندے یانمائندے یا حلقہ ٔ اثر کے افراد موجود ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی اور موضوع منظور ہوجاتاہے۔مذکورہ مجلس میںایک آدھ پروفیسر ایمریطس ہوتاہے جو بالعموم بے اثر ہی ہوتا ہے یا اس قدر سنجیدہ کہ خاموشی کو زیادہ ترجیح دیتاہے۔اور اکثر کوئی ایسا پروفیسر یا ماہر مضمون یا تو ہوتانہیں یا اگر ہو تو اس ایک کی کیا چلے گی۔پھر وہ کس کس مضمون میں دخل اندازی کرسکے گا؟ اگر معاملہ سائنس کا ہو اور وہ معاشرتی علوم سے متعلق ہو یا اس کے برعکس ہوتو بھی وہ بے اثر ہی ہوتاہے۔ باقی اراکین سیاست کے راستے سے رکن بنتے ہیں یا بمناسبت ِ عہدہ کہ یا تو ڈین ہوں گے یا کسی اور مناسبت سے اس کے رکن بن جائیں گے۔ ایسے افراد اگر سینئر ہوں یا باعتبار عہدہ رکن ہوں تو ضروری نہیں کہ تحقیق اور مطالعے اور لکھنے پڑھنے کا ذوق بھی رکھتے ہوں۔اس لیے کم ہی ایسا ہوتاہے کہ کوئی فضول اور سرسری موضوع منظور نہ ہوسکتاہو۔ویسے تو اگر کسی منصوبے کو کوئی با ذوق اورشوق و دل چسپی رکھنے والا طالب علم اپنے لیے پسند کرتاہے یااس کا نگران ہی لائق اور فاضل ہوتو معمولی موضوع آگے ہی نہیں بڑھتا۔مذکورہ مجلس کی جانب سے منظوری کے بعد واقعی مقالے کی تکمیل اور اس کے لیے ممتحنین کے انتخاب میں نگران کو یہاں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے جو ممتحنین کے نام تجویز کرتاہے اور جب اس طریقہ ٔ کار کے تحت جو موضوع کی منظوری کے لیے اختیار ہوتاہے، ممتحنین کے نام منظور ہوجاتے ہیں جو موجودہ نظام کے تحت بالعموم نگران ِ مقالہ کی رسائی میں رہتے ہیں اور نگران ان پر اثر انداز ہوکر اپنی مرضی کی رائے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اس لیے کم زور اور سطحی مقالات بھی اکثر کامیابی سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔اسی لیے فضول اور اذکاررفتہ موضوعات اور سطحی معیار کے مقالات بھی ’’تحقیق‘‘ کے زمرے میں شمار ہوکر ’محقق‘ کو، ’نگران‘ کو اور’ جامعہ‘ کو سرخ رو کردیتے ہیں اور’محقق ‘سند حاصل کرلیتاہے،نگران ترقی پالیتاہے اور جامعات اپنے درجات کی بلندی میں انھیں شمار کروالیتی ہیں۔لیکن مقالہ یا تحقیقی کام کس معیار کا ہے، یہ اُس وقت کوئی اور نہیں دیکھتا، نہ جامعہ میں نہ ایچ ای سی میں ایسا کوئی ضابطہ ہے جس کے تحت ممتحنین سے پہلے اس کام کے معیار کو جانچاجاسکے اور اسے معیاری سمجھاجائے تو اگلے مراحل کے لیے پیش کیاجائے۔ (جاری ہے)