14 اگست کی رات تھی۔ حیا نے انگلیوں میں حساب لگایا اس کو اپنی امی کے ہاں آئے ہوئے پورے دو ماہ ہوچکے تھے اور ابھی شادی کو عرصہ ہی کتنا ہوا تھا۔ صرف 3 سال اور ریان تو ابھی صرف ڈیڑھ سال کا تھا۔
فرحان کی عادت تھی 14 اگست کو بڑے جوش وخروش سے مناتے تھے۔ پاکستان سے بہت محبت بھی تھی اور ملک کی خدمت کرنے کا شوق بھی۔ ملک کی بدحالی پر ہر وقت کڑھتے رہتے۔
’’کتنا اچھا ہوا حیا!‘‘ ایک دن وہ جوش کی حالت میں حیا سے مخاطب ہوئے ’’ہم میں سے ہر ایک اپنے ملک کی ترقی کے لیے کوشاں رہے۔ ہم سب اپنے ملک کے ساتھ وفادار اور دیانت دار ہوں تو کیا وجہ ہے کہ ملک ترقی نہ کرے۔‘‘
’’لیکن…‘‘ حیا ان کی بات کاٹ دی ’’افراد کا کیا جب حکومت ہی ٹھیک نہ ہو۔ برسر اقتدار طبقہ ہی ملک کے ساتھ ایمان دار نہ ہو۔‘‘
’’ان چوروں اور لٹیروں کے لانے والے بھی تو ہم ہی ہیں۔ کیوں ہم ایمان دار اور دیانت دار افراد کو نہیں چنتے؟ صاف بات یہ ہے کہ ووٹ کا غلط استعمال بھی بے ایمانی اور نا انصافی ہے۔‘‘
’’صحیح کہہ رہے ہیں آپ۔‘‘ حیا قائل ہو کر بولی۔
’’کتنا تبدیل کردیا ہے فرحان کے ساتھ نے مجھے۔‘‘حیا نے حیران ہو کر سوچا۔ کبھی پارک یا عام جگہوں پر کچرا پھینکنے نہیں دیا۔ ’’ہر کوئی اِدھر اُدھر پھینک رہا ہے۔ اگر ہم بھی پھینک دیں تو کیا حرج ہے؟‘‘ حیا اعتراض کرتی۔
’’نہیں اپنے ملک کو کچرادان بنانے میں ہم کیوں حصہ ڈالیں۔‘‘
نتیجتاً حیا کا پرس کچرے سے بھر جاتا۔ اگرکچرادان نظر نہ آتا تو پھر گھر آکر ڈسٹ بِن میں ڈالا جاتا۔ اسی طرح کی بہت سی اچھی عادتیں حیا نے فرحان کی بدولت اپنا لی تھیں۔
’’لیکن اب کیا کروں؟‘‘ حیا نے دل ہی دل میں سوچا۔ ’’معمولی بات پر ایسا ہنگامہ ہوگیا… اور فرحان کو کیا ہوگیا کہ پلٹ کر پوچھا تک نہیں۔‘‘
اس دن کا منظر اس کی آنکھوں میں فلم کی طرح چلنے لگا۔ فرحان دو ہفتے کے لیے لاہور گئے تھے۔ جب ثمرین خالہ‘جو حیا کی خالہ اور فرحان کی امی کی قریبی سہیلی تھیں‘ دراصل حیا اور فرحان کا رشتہ کرانے میں انہوں نے ہی مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ وہ اپنی بیٹی کی شادی کا کارڈ دینے آئی ہوئی تھیں۔ اسی وقت فرحان کی امی قدسیہ بیگم کا موڈ سخت خراب تھا۔ بلڈ پریشر کی مریضہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا غصہ روک نہیں پاتی تھیں اور حیا کو یہ بات معلوم تھی۔اس لیے وہ عموماً ان کی غصے میں کی گئی بات کو ہنس کر ٹال دیتی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں سب کچھ نارمل ہوجاتا تھا۔ غصہ اترنے کے بعد قدسیہ بیگم بھی شرمندہ نظر آتیں۔ لیکن جب اس دن معمولی بات پر انھوں نے حیا کو ڈانٹا تو نہ جانے کیا ہوا شاید فرحان کی ایک ہفتے سے گھر میں عدم موجودگی نے حیا کو دلبرداشتہ کردیا اور پھر ثمرین خالہ کی اچانک آمد نے بھی حیا کو اتنا آزردہ کردیا کہ وہ ثمرین خالہ سے گلے ملتے ہوئے رونے لگی۔ انھوں نے حیا کے گھر میں جا کر نہ جانے کیا کہا کہ دوسرے دن بھائی جان جو کہ حیا کو بہت چاہتے تھے اُسے لینے کے آگئے۔ قدسیہ بیگم حیا کے اس طرح رونے سے بہت زیادہ ناراض ہوئیں اور ثمرین خالہ کے آگے بہت شرمندگی ہوئی۔ اس وقت سے وہ حیا سے بات نہیں کر رہی تھیں۔ چنانچہ حیا‘ جو کہ اس صورتِ حال سے بے حد تھک چکی تھی‘ سوچا کہ اس ماحول سے نکلنا ہی بہتر ہے۔ جب فرحان آئیں گے تو وہ واپس آجائے گی۔ جب قدسیہ بیگم کو بتانے گئی تو انھوں نے منہ پھیر لیا اور بات کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ حیا نے اپنا ایک ہفتے کا سامان پیک کیا۔ وہ فرحان سے مستقل رابطے میں تھی۔ اس نے فرحان کو ساری بات سچ سچ بتادی تھی۔ فرحان نے کہا کہ جب وہ گھر آئیں گے تو امی کو سمجھا لیں گے۔ لیکن حالات بہت زیادہ بگڑ گئے۔ قدسیہ اور ثمرین کے مشترکہ دوستوں تک بھی ثمرین خالہ کے ذریعے بات پہنچ گئی جس نے قدسیہ بیگم کے غصے کو مزید تیز بڑھا دیا۔
فرحان نے حیا کو سمجھایا کہ وہ ابھی صبر سے قدسیہ بیگم کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرے‘ جیسے ہی حالات نارمل ہوں گے وہ اسے لینے آجائیں گے۔ اسی انتظار میں دو ماہ گزر گئے۔
’’فرحان کیا آپ اس مرتبہ میرے بغیر 14 اگست منائیں گے؟‘‘ حیا نے واٹس ایپ پر وائس نوٹ بھیجا۔ ساتھ ساتھ رونے والی ایموجی بھی بنائی۔
’’بتایئے اس طرح مجھ سے ناراض ہو کر آپ اکیلے کیسے ملک کی ترقی میں اچھا کردار ادا کرسکیں گے؟ اور پھر اپنے بیٹے کو میں اکیلے اس ملک کا مفید شہری کیسے بنا سکتی ہوں؟ امی کو میں منا لوں گی۔ بس آپ مجھے لینے آجائیں۔‘‘ حیا کی آواز بھرا گئی۔
’’میں آپ کی طرف ہی آرہا ہوں حیا صاحبہ! بس آپ تیاری پکڑیں۔‘‘ فرحان کی مسکراتی آواز نے حیا کی زندگی میں رنگ بھر دیے۔