آزادی کی قدر اور تقاضے

452

اے وطن ! قائد اعظم کے مقاصد کی زمیں
خوابِ اقبال کی تعبیر دلآویز و حسیں
تیری مٹی سے فروزاں ہے عقیدت کی جبیں
تو کہ ہے خونِ شہیداں کے تقدس کا امیں
وطن عزیز پاکستان! اسلامی دنیا کا واحد ایٹمی طاقت اور امت کی امیدوں کا محور ہے۔ موجودہ دور میں جب کہ دور دراز کی خبریں بھی آسانی سے میسر ہیں، ہم بحیثیت ملتِ اسلامیہ ایک دوسرے سے بہتر طور پر خود کو جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم ترکی میں آیا صوفیہ کی نماز جمعہ کے روح پرور مناظر سے تسکین پاتے ہیں اور فلسطین میں القدس کی خاطر جدوجہد کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ حال ہی میں لبنان میں ایٹمی دھماکہ کے خوف ناک دن کو گویا ہم نے لبنان کے زخمی مسلمانوں کے ساتھ گزارا۔ جنتِ نظیر کشمیر کے لہو رنگ مناظر نے بھی ہمیں بہت رلایا۔ ہم نے شام کے مہاجرین کی حالتِ زار بھی دیکھی اور میانمار کے لٹے پٹے مسلمانوں کے درد کو بھی محسوس کیا۔ ان ممالک نے جو کچھ کھویا ہے وہ ہمارے پاس موجود ہے یعنی ’’آزادی !‘‘
’’آزادی‘‘ کا مطلب پوچھو غزہ کے ان مسلمانوں سے جن کے گھر کے اوپر جنگی طیارے پرواز بھرتے ہیں اور ان کے شور سے بچے روتے ہیں‘ آزادی کتنی مہنگی ہے پوچھو کشمیر کی اُن بیٹیوں سے جن کے گھروں پر رات کے اندھیرے میں فوجیوں کی یلغار دروازہ توڑ کے اندر آجاتی ہے! پوچھو آزاد فضا کیا ہوتی ہے شام کے مسلمانوں سے، جنھیں کسی تہہ خانے میں بغیر کچھ کھائے پیئے ہفتوں گزارا کرنا پڑتا ہے۔ پوچھو سانسیں کس طرح رکتی ہیں چائنا کے ایغور مسلمانوں سے جن کو قید خانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تو پھر آپ بہتر طور پر جان سکیں گے کہ ’’آزادی‘‘ کس نعمت کو کہتے ہیں؟
آج سے75 برس قبل ہمارے آبا و اجداد نے آزادی حاصل کرنے کے لیے آگ اور خون کے کتنے دریا عبور کیے اور پھر کہیں جا کر وہ اس قابل ہوئے کہ اپنی آئندہ نسلوں کو،اپنے بچوں کو آزاد فضا اور زمین دلا سکیں۔ ہم نے اپنے رب سے مانگا کہ ہمیں ایک خطۂ زمین عطا کر جہاں ہم دین کے مطابق زندگی گزار سکیں اور رب نے ہمیں یہ خطہ عطا کردیا۔
پاکستان اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے دیا گیا تحفۂ خاص ہے۔ بہترین زرخیز زمین، بہترین آب و ہوا، بہترین موسم ، انسانی وسائل، بندرگاہیں، بلند ترین پہاڑی چوٹیاں، ہیرے جواہرات اورمعدنی ذخائر سے مالا مال پاکستان… اللہ نے ہم پہ اپنی نعمتیں تمام کردی ہیں، کسی چیز کی کمی نہیں رکھی، کمی اگر ہے تو ہماری کوششوں میں کہ ہم نے اپنے وطن کو جس مقصد کے لیے حاصل کیا تھا اس مقصد کے لئے محنت نہیں کر رہے، ہم نے اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنا تھا، اپنے نظام تعلیم کی اصلاح کرنا تھی، معیشت و تجارت کو دین کے مطابق چلانا تھا، اسمبلیوں میں رب کے احکام کا اطلاق کرنا تھا، آئین میں اقتدارِ اعلیٰ صرف اللہ کی ذات ہے، اسے اپنے عمل سے ثابت کرنا تھا کہ ہم صرف اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور وقت کے کسی فرعون سے نہیں ڈرتے۔ ہم نے مظلوموں کے زخموں پہ مرہم رکھنا تھا، بھائی چارے کی فضا بنانی تھی، اسلامی دنیا کا سہارا بننا تھا !
لیکن یہ کام تو ہم نے کیے ہی نہیں۔ ہم نے اپنا ووٹ بھی بھیڑ چال میں ضائع کردیا، کسی سیاسی پارٹی کے منشور کو دھیان سے پڑھا ہی نہیں کہ وہ پارٹی اقتدار میں آ کر کیا کام کرے گی یا کچھ کرے گی بھی کہ نہیں؟ ہم نے لیڈر چنتے وقت بھی اس کی زندگی کا ریکارڈ چیک نہیں کیا اور نہ اس کے قول و فعل کے تضاد کو دیکھا یہی وجہ ہے کہ آج ہماری آزادی کی دولت خطرے میں ہے، چوروں اور لٹیروں نے اسے کھا کھا کے کنگال کر دیا ہے ، وطنِ عزیز کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی غلامی میں دے دیا ہے، عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں۔ قومی اثاثوں کو بیچا جارہا ہے، قومی پالیسیاں وطن سے باہر بن رہی ہیں، دہری شہریت والوں کو مسندِ اقتدار پر بٹھا دیا گیا ہے، ہر اہم پوسٹ پر کوئی بہروپیا وطن کی دولت کو اپنی کرپشن کی قبر میں چھپائے بیٹھا ہے، ہمارے تجارتی و ترقیاتی منصوبوں کو غیر ملکی آقاؤں کو ٹرے میں رکھ کے پیش کردیا گیا ہے، ہماری ناقص خارجہ پالیسی نے ہمیں دنیا بھر میں اکیلا کر دیا ہے اور سوائے ایک ترکی کے کوئی ملک ایک بیان تک ہمارے حق میں دینے کا روادار نہیں۔ عملاً ہم دنیا میں تنہا ہیں۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ ہم صورتِ حال کی نزاکت کا ادراک کریں، نام نہاد خوش فہمیوں کے خول سے باہر آکر تلخ حقیقت کا سامنا کریں، اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں۔ بار بار آزمائے ہوئے لوگوں کو مسندِ اقتدار پر نہ بٹھائیں، لیڈر کی شخصیت اور کپڑوں کو نہیں بلکہ اس کے عمل ،کردار اور ریکارڈ کو دیکھیں، اپنی صفوں میں ایسے دیانت دار اور کھرے لوگ تلاش کریں جن کی جڑیں اسی پاک مٹی میں ہوں، جن کی اولادیں اور اثاثے بیرونِ ملک میں نہ ہوں، جو اللہ سے ڈرتے ہوں اور عوام کے دکھ درد میں ان کے ساتھ شریک ہو۔ ایسے ایمان دار لوگ یقیناً کم ہوں گے لیکن تلاش کرنے پر مل جائیں گے، جو اس دھرتی کے بیٹے بھی ہوں گے اور اسلام کی عظمتوں کے امین بھی، وہی لوگ قوم کی ڈوبتی ناؤ کے پتوار سنبھالنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ آزادی کی حفاظت کا راز یہی ہے کہ ان لوگوں پر اعتماد کرو۔
اے پیارے لوگو! سجدے میں جا کے مانگو دعا یہ خدا سے
ارضِ وطن کو سیراب کردے اپنے کرم کی گھٹا سے !

حصہ