’’شائستہ صفائی کا کام جلدی جلدی مکمل کرو‘ آج کپڑے بھی دھونے ہیں۔‘‘ امی نے کام والی کو ہدایت دی۔
ابھی مشین میں پانی بھرا ہی تھا کہ بجلی چلی گئی۔ اب اس بے وقت کی بجلی آنے جانے کا کیا کیا جائے۔
’’باجی اب بجلی تو کئی گھنٹے تک نہیں آئے گئی۔ مجھے باقی گھروں میں بھی کام کے لیے جانا ہے۔‘‘ شائستہ نے بھی جانے کی اجازت چاہی اور اس لوڈشیڈنگ کی بدولت کام دھرا کا دھرا رہ گیا۔
ادھورے کام سے صرفِ نظر کر کے امی نے دوپہر کا کھانا بنانا شروع کیا تو گیس بھی غائب۔ بہ مشکل تمام کئی گھنٹوں میں جاکر سالن تیار ہوا اور روٹیاں باہر سے منگوائی گئیں۔
دوپہر کے کھانے کے بعد امی کی قیلولہ کی عادت ہے لیکن صبح کی گئی بجلی اس وقت لوٹی تو امی نے مشین لگالی کہ پھر نہ جانے کب یہ بجلی دوبارہ غائب ہوجائے۔
’’جیتے گا بھئی جیتے گا اس بار قلم جیتے گا۔‘‘ حسن نعرے لگاتے ہوئے اسکول کے لیے تیاری میں مصروف تھا کہ امی کی آواز آئی ’’حسن! تم اسکول جارہے ہو یا سیاسی جلسے میں؟‘‘
’’امی ہمارے اسکول میں الیکشن ہونے والے ہیں۔ ہم ووٹ ڈال کر پرفیکٹ چنیں گئے اور پھر بڑے ہو کر میں نے بھی سیاست دان بننا ہے۔‘‘
حسن کی مستقبل کی منصوبہ بندی سن کر امی مزید خفا ہوگئیں۔’’تم نے پڑھنا نہیں ہے۔ بس یہ بے کار کام کرنے ہیں۔‘‘
’’امی! قائداعظم بھی سیاست دان تھے۔‘‘ حسن بھی ہار مانے کو تیار نہیں تھا۔ اسی دوران اسکول کی گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔ ’’اچھا امی! السلام علیکم میں جارہا ہوں۔‘‘ حسن اللہ حافظ کرتا اسکول کے لیے نکل گیا۔
’’پتا نہیں کب ان کو سمجھ آئے گی۔‘‘ امی خیالات کو جھٹک کر کاموں میں مصروف ہوگئیں۔
شام کی چائے پہ سب گھر والے جمع تھے۔ امی نے عمیر سے پوچھا ’’بیٹا! آج یونیورسٹی سے آنے میں بہت دیر ہوگئی؟‘‘
’’امی! بلدیاتی الیکشن ہونے والے ہیں ہم یونیورسٹی کے دوست اس کے کاموں میں مصروف ہیں۔ اس میں وقت لگ گیا پھر ٹریفک میں پھنس گیا تھا۔‘‘ عمیر نے جواب دیا۔
’’احمد صاحب آپ کے دونوں بیٹے سیاسی میدان میں سرگرم ہیں۔‘‘ امی نے ابو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جی بیگم! مجھے علم ہے اور یہ اچھی بات ہے آخر کو یہ نوجوان ہی ملک کا مستقبل ہیں۔‘‘ ابو نے عمیر کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ عمیر اور حسن ابو کی حمایت سن کر مسکرا اٹھے۔ امی ابو چاہتے تھے کہ بچے اچھی اجتماعیت سے جڑے رہیں امی البتہ لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں سے گھبراتی تھیں۔
’’امی! گھر میں پانی، بجلی، گیس جیسی بنیادی سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ باہر نکلیں تو ٹریفک کے کتنے مسائل اور گندگی کے ڈھیر ہیں۔ ہم خاموش رہیں گے تو یہ مسائل کیسے حل ہوںگے؟‘‘ عمیر نے کہا۔
’’یہ سب ٹھیک ہے لیکن مجھے ڈر لگتا ہے ان سیاسی سرگرمیوں سے کتنے برے لوگ ہوتے ہیں یہاں ذرا سی بات پہ لڑائی جھگڑے ہو جاتے ہیں۔‘‘ امی کی پریشانی بھی بجا تھی۔
’’اگر سمجھ دار لوگ سیاست کو برا سمجھ کر اس سے دور رہیں گے تو برے لوگ ہی قابض رہیں گے۔ یہ نوجوان آج بیدار ہوں گے تو ان کو دیانت دار اور مخلص لوگوں کی پہچان ہوگی۔ یہ اپنے ملک کے حالات سے باخبر ہوں گے اور کل کو ملک ایک بہترین قیادت کے ہاتھ میں ہوگا۔‘‘ ابو نے کہا۔
حسن بے اختیار بولا ’’امی! آپ بھی بی اماں بن جائیں۔ بولی اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔‘‘ حسن کی بات پہ سب مسکرا اٹھے۔ سب کے دلوں میں امید کے کئی چراغ چل اٹھے تھے۔ اپنے ملک کے لیے کام کرنے کا عزم جوان تھا اور ابو سوچ رہے تھے کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔