بندو بھائی ماہر قلب

299

کامی بتارہا تھا کہ ”رات سے طبیعت خراب ہے، اسپتال میں دکھایا، دل کی پٹی نکلوائی، ڈاکٹر نے ہائی بلڈ پریشر بتایا ہے جس کی وجہ سے رات پریشانی میں گزری، انتہائی بے چینی کی کیفیت ہے، ابھی بھی دل پر بوجھ محسوس کررہا ہوں، عجیب عجیب خیال آرہے ہیں، سوچتا ہوں کہیں دل کے عارضے میں مبتلا نہ ہوجاؤں۔“
کامی کی بات ابھی جاری ہی تھی کہ بندو بھائی ماہر قلب بن کر آن ٹپکے۔ بس پھر کیا تھا، اپنے مخصوص انداز میں بولے:
”یہ دل کی بیماری ویماری کچھ نہیں، یہ سب ڈاکٹروں کا پیسے بٹورنے کا چکر ہے۔ اور جہاں تک دل کا تعلق ہے، یہ خود بڑا ڈرامے باز ہے، اسی لیے تو اس نے سب کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے یا ہم نے خود کو اس کے حوالے کررکھا ہے… تبھی تو ”کسی کا دل نہ توڑو“، ”میرے دل نے تجھے چاہا“، ”دل کی آنکھوں سے دیکھوں“، ”تم دل میں رہتے ہو“ جیسے گانے بناکر دل کی اہمیت ایسی بڑھادی کہ یہ آپے سے باہر ہوتا چلا گیا۔ ظاہر ہے جب زندگی کے سارے فیصلے کرنے کا اختیار اسے سونپ دیا جائے تو اسی قسم کے نتائج برآمد ہوں گے۔ اور تو اور ”میرا دل کہہ رہا ہے وہ ضرور آئے گا“، ”یہاں دل نہیں لگ رہا، چلو کہیں اور چلتے ہیں“، ”میرا دل بہت اداس ہے، کسی کام میں دل نہیں لگتا“ وغیرہ وغیرہ جیسے جملوں نے انسان کو سست، کاہل، کام چور اور ہڈ حرام تک بنا ڈالا۔“
بندو بھائی اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے: ”پچھلے دنوں رشید کہہ رہا تھا کہ زلیخا اس کے دل میں رہتی ہے، وہ اس سے ہی شادی کرے گا۔ اگلے دن وہ گلی میں گھومتی ہوئی نظر آئی، اسے دیکھتے ہی اندازہ ہوگیا کہ دل جھوٹ بھی ٹکا کے بولتا ہے۔ بھلا بتاؤ گلی میں گھومتی پھرتی لڑکی کو اپنے آپ میں رکھنے کا چکر دے کر رشید کو باؤلا بنا رکھا ہے۔“ ایک اور بات جس کے وہ چشم دید گواہ ہیں، سناتے ہوئے کہنے لگے: ”محلے میں رہنے والے وارث چغلی کو کون نہیں جانتا.. اُس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کا دل انتہائی کالا ہے۔ جب وہ مرا تو اتفاق سے پوسٹ مارٹم کے وقت میں بھی اسپتال میں ہی موجود تھا، میں نے خود دیکھا کہ اُس کا دل لال تھ،ا یعنی یہاں بھی اس نگوڑے دل نے ہی ٹوپی کروائی۔“ پھر کہنے لگے: ”پہلے میں بھی اس کے چکر میں آجاتا تھا، ظاہر ہے جب بڑے بڑے ڈاکٹر اور سائنس دان بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے تو میں کس کھیت کی مولی ہوں! لیکن اللہ بھلا کرے اجمل سراج کا کہ جس نے اسے اوقات میں رکھنے کا ایسا نسخہ دیا کہ سب چکر بازی بھول کر ایک طرف جا بیٹھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن.. کوئی حرکت یا کسی قسم کی کوئی گڑبڑ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو فوراً یہ شعر پڑھ کر اسے اس کی اوقات پر لے آتا ہوں:
میں نے اے دل تجھے سینے سے لگایا ہوا ہے
اور تُو ہے کہ میری جان کو آیا ہوا ہے
شعر سنتے ہی فوراً اپنی حد میں آجاتا ہے، سمجھ جاتا ہے کہ اس نے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ ہم نے اسے اپنے سینے میں رکھا ہوا ہے، ذرا سی اکڑ دکھائے گا تو اٹھا کر باہر پھینکا بھی جا سکتا ہے۔ بس اسی دن سے اپنی عزت بچائے سینے میں چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے۔ اب تو محلے والے بھی مجھے بندو بھائی کے بجائے ”دل پھینک“ کہہ کر پکارتے ہیں جس سے میری زندگی میں یہ مسئلہ پیدا ہوگیا کہ میری بیوی مجھ سے جلنے لگی ہے۔ دل کو سبق سکھانے کے مقابلے میں بیوی کا جلنا میرے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا، کیونکہ مجھے جتنی مرتبہ بھی دل پھینک کہہ کر پکارا جائے گا یہ دل اتنا ہی سہمے گا، اور پھر بیوی کا کیا ہے، دو چار میٹھی باتیں کرکے منا لوں گا۔ لہٰذا میری مانو کھاؤ پیو اور ڈاکٹر کے چکر میں نہ پڑو، خاص طور پر دیسی گھی میں پکائے گئے کھانے تمہاری صحت کے لیے مفید ہیں۔ صبح ناشتے میں دیسی گھی میں بنے پراٹھے اور مکھن کا استعمال بڑھا دو، مختلف مربے کھاؤ۔ میں پھر کہہ رہا ہوں دل کو توانا رکھنے کے لیے کھانے پینے میں احتیاط مت کرو بلکہ میرے نسخے پر عمل کرو۔ اگر دل پھر بھی کوئی مسئلہ کرے تو اسے اوقات میں لانے کا جو فارمولا بتایا ہے اُس پر عمل کرو۔“
بندو بھائی کی باتیں بھی خوب ہیں، جو منہ میں آئے بولے چلے جاتے ہیں۔ یہ ان کی سادگی ہے یا کچھ اور، خدا جانے.. میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ان کی جانب سے پیش کیا جانے والا فلسفہ بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔ ان کی باتیں سن کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ بندو بھائی سمیت ہمارے معاشرے میں نہ جانے کتنے لوگ ہیں جنہیں یہ بھی خبر نہیں کہ دل انسانی جسم کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے، اور دنیا میں ہر برس امراضِ قلب سے ایک کروڑ 75 لاکھ افراد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یعنی دل کے امراض ہی بیشتر ممالک میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کی مثال ہی لے لیجیے، ہمارے ہاں بھی ہر سال ایک لاکھ سے زیاہ افراد دل کی کسی نہ کسی بیماری کے باعث جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ اور یہ بھی بندو بھائی کو کیسے سمجھایا جائے کہ بلند فشارِ خون، مٹاپا، شوگر اور کولیسٹرول جیسے امراض میں مبتلا افراد میں دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اس کے علاوہ غیرمتوازن غذا، ورزش یا چہل قدمی نہ کرنے، تمباکو نوشی اور الکوحل کے استعمال سے بھی دل کے امراض ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ ہمارے ہاں احتیاط اور آگاہی نہ ہونے سے دل کی بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے، اس سلسلے میں عوام کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ انہیں بتانا ہوگا کہ دل کی بیماریاں اُس وقت شروع ہوتی ہیں جب کولیسٹرول، چربی، اور پلاک کی شکل میں چونا (کیلشیم) خون کی نالیوں (شریانوں) میں جمنے لگے اور کولیسٹرول، چربی اور کیلشیم کے جمنے سے دل کو خون فراہم کرنے والی شریانوں میں خون کے گزرنے کا راستہ تنگ ہوجائے تو دل کو مناسب مقدار میں آکسیجن نہیں مل پاتی جس کے نتیجے میں دل کو آکسیجن کی کمی ہونے لگتی ہے اور یہی سینے میں درد کا باعث بنتی ہے، جسے انجائنا بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح ذہنی تناؤ بھی دل کے امراض کا سبب بن سکتا ہے، یعنی یہ بھی دل پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ذہنی تناؤ اُن عوامل کو متاثر کرسکتا ہے جو دل کی بیماری کے خطرے کو بڑھاتے ہیں جیسے کہ ہائی بلڈ پریشر اور کولیسٹرول میں اضافہ۔ سگریٹ نوشی بھی ایک ایسا عمل ہے جو ہمیں دل کی بیماری میں مبتلا کرسکتا ہے جس کی وجہ سے بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے اور شریانوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
گھر، دفتر یا سڑک کہیں بھی ہوں.. ذہنی دباؤ سے بچنا مشکل ہے۔ آج کے دور میں کسی بھی شخص کی زندگی سو فیصد پُرسکون نہیں، یعنی ہر دوسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہورہا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے چند باتوں پر عمل کیا جائے تو کسی حد تک پُرسکون زندگی گزاری جاسکتی ہے: مثبت انداز میں خود کلامی کرنا جیسے کہ ”میں یہ کرسکتا ہوں“ اس سے ذہنی تناؤ میں کمی آسکتی ہے۔ اس کے علاؤہ خود کو مثبت سرگرمیوں میں مشغول کرنا، جیسے کہ لکھنا پڑھنا، عبادت کرنا، یوگا، ورزش، چہل قدمی، کھیل، بچوں کے ساتھ وقت گزارنا وغیرہ۔
دل کی بیماریوں کی علامات کے حوالے سے لوگوں کو بتانا ہوگا کہ ہارٹ اٹیک کی صورت میں مریض سانس لینے میں دشواری یا تکلیف کا سامنا کرسکتا ہے۔ الٹیاں کرنا، سر میں ہلکا درد یا بے ہوش ہونا، ٹھنڈے پسینے آنا بھی دل کی کسی بیماری کی علامت ہوسکتی ہے۔
یہ بھی آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ دل کے دورے اور فالج کی علامات میں سینے کے درمیان میں اکثر درد یا تکلیف کا ہونا، بازوؤں، بائیں کندھے، کہنیوں، جبڑے یا پیٹھ میں درد کا ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ جبکہ فالج کی سب سے عام علامت جسم کے ایک طرف چہرے، بازو یا ٹانگ کی اچانک کمزوری یا بے حسی ہوتی ہے۔ الجھن کا شکار ہونا، بولنے یا سمجھنے میں دشواری ہونا، ایک یا دونوں آنکھوں میں دیکھنے میں دشواری، چلنے پھرنے اور توازن برقرار رکھنے میں ناکامی، شدید سر درد اور بے ہوشی بھی فالج کی علامت ہوسکتی ہے۔ ان سب علامات کا سامنا کرنے والے افراد کو فوری طور پر طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں جس تیزی سے دل کے امراض میں اضافہ ہورہا ہے یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ قلب کی بڑھی ہوئی بیماریوں میں ایک دل کے والو کی بیماری ہے جو بہت عام ہے، اس کے بارے میں بھی آگاہی کی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان میں دل کے والو کی بیماریوں کی کم آگاہی کی وجہ سے مریض بروقت علاج نہیں کروا پاتے جو بیماری کی پیچیدگیوں کو بڑھاکر وقت کے ساتھ ساتھ دل کے فیل ہونے اور موت کا باعث بن جاتا ہے۔ دل کے والو کی بیماریوں کی چند اہم وجوہات جن کو جاننا اہم ہے ان میں گٹھیا کا ہونا جس سے دل کے والو بند ہوجاتے ہیں یا سکڑ جاتے ہیں۔ کچھ مریضوں میں والو کے نقائص پیدائشی بھی ہوسکتے ہیں، یا پھر عمر بڑھنے سے بھی والو میں خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
لوگوں کو یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ چند احتیاطی تدابیر اختیار کرکے دل کی بیماریوں سے بچاو ٔمیں مدد مل سکتی ہے، مثلاً سادہ غذا، ورزش، کم از کم ایک گھنٹہ روزآنہ پیدل چلنا اور وزن کو بڑھنے نہ دینا۔ سگریٹ نوشی کو ترک کرنے سے بھی دل کی بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہے۔
اس کے علاوہ بلڈ پریشر اور شوگر میں مبتلا افراد کو چاہیے کہ ان پر کنٹرول رکھیں۔ کیونکہ دل کی بیماریوں میں مبتلا 80 فیصد افراد شوگر کے مریض ہیں، اور اگر بلڈ پریشر قابو میں نہ ہو تو فالج ہوسکتا ہے، نظر ختم ہوسکتی ہے، دل کمزور ہوسکتا ہے جس کے بعد دل میں خون کا بہاؤ متاثر ہوتا ہے اور دل اور گردے فیل ہوسکتے ہیں۔ پھیپھڑوں میں پانی بھی بھر سکتا ہے۔
کھانے میں بدپرہیزی نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمام گھر والوں کو چاہیے کہ کھانوں میں نمک، چکنائی اور میٹھے وغیرہ میں احتیاط کریں اور مریض کو وقت پر دوا لینے کے لیے یاد دہانی بھی کروائیں۔ اس کے علاؤہ یہاں ایک بات اور بہت اہم ہے کہ اگر کسی کے خاندان کے بزرگوں میں عارضہ قلب ہے تو ماہرین کے مطابق اس بات کا امکان پچاس فیصد تک ہوتا ہے کہ خاندان میں آنے والی نسل میں بھی یہ بیماری ہوجائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ افراد جن کے خاندان کے قریبی عزیز کو عارضہ قلب ہو، وہ چھوٹی عمر سے ہی احتیاطی تدابیر اپنائیں۔آخر میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا حسین تحفہ ہے جس کا دارومدار صحت مند دل پر ہے، اس کی حفاظت کریں اور بندو بھائی جیسے باتونی لوگوں کے فلسفے سے دور رہیں۔

حصہ