سوشل میڈیا پر غزہ کی گونج

298

فلسطین کی سرزمین ایک بار پھر اسرائیلی حملوں کی زد میں۔ پاکستان میں 4 دن یہ ٹرینڈ چلتا رہا،GazaunderAttack۔پچھلے جمعہ کی نمازکے بعد سے اسرائیلی بمباری کا سلسلہ مستقل جاری ہے۔اس حملے میں اسرائیل نے اسلامک جہاد کے رہنما تیسر الجبری کو ہدف بنانے کا دعوی کیا تھا، مگر مجموعی طور پر 11 معصوم مسلمان اس حملے میں شہید ہوئے ہیں جبکہ40کے قریب شدید زخمی ہوئے اور عمارتیں جو تباہ ہوئی وہ الگ تھیں۔ٹرینڈ میں سب سے زیادہ انہی شہید اور زخمی بچوں کی وڈیوز تھیں ،اسرائیلی جارحیت کے خلاف امت کے دلوں کو جھنجھوڑتی میمز،جن کے لیے واقعی کوئی الفاظ نہیں۔15 سال سے کوئی 21 لاکھ مسلمان دنیا کی سب سے بڑی جیل کے طور پر اپنے ہی علاقے غزہ میں ناجائزاسرائیلی ریاست کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئےہیں۔فلسطین صرف ایک مسلم ملک ہی نہیں بلکہ قبلہ اول،ارض مقدس ہونے کی وجہ سے ہر مسلمان کے ساتھ ایک قلبی،روحانی،جذباتی تعلق رکھنے والی سرزمین ہے۔غزہ کے مسلمانوں کے لیے یہ حملے نئے نہیں ہیں،ذرا تصور کریں کہ وہ کیسی زندگی گزاررہے ہیں کہ کسی بھی وقت سر پر کوئی میزائل گرسکتا ہے۔اسرائیل نے 2009 سے 2021 تک غزہ کے خلاف پانچ بڑی جنگی کارروائیاں کی ہیں اور مسلم آبادی کم کرانے کے جامع منصوبے پر مکمل عالمی تعاون کے ساتھ کام جاری رکھاگیا ہے۔یہی فارمولا کشمیر میں بھی لگتا ہے،برما،بوسنیا،ہر جگہ کے لیے یہ آسان فارمولا ہے۔اسلامک جہاد 1981 میں مصر میں فلسطینی طلبہ کے ہاتھوں بننے والی تنظیم تھی جس کا مقصد اسرائیل کے ناجائز قبضے والے حصوں جن میں ویسٹ بینک،غزہ اور دیگر علاقے شامل تھے،ان کو فلسطینی ریاست میں واپس شامل کرانا۔اسلامک جہادکا متحرک عسکری ونگ “القدس بریگیڈ” کے نام سے کام کر رہا ہے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق اسلامک جہاد کی کارروائیوں نے اسرائیل کے لیے بہت مسائل کھڑے کیے ہوئے تھے۔اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اسلامک جہاد ،اسرائیل کو تباہ کرنے کےلیے ایران کی مکمل معاونت سے کام کر رہی تھی۔جمعہ کے بعد اسلامک جہاد نے تل ابیب پر اگلے دن شدید گولہ باری کی۔جواب میں اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کو نہیں بخشا،اور 8اگست تک مجموعی شہداء کی تعداد 50 تک پہنچا دی جس میں 12 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔یاد رہے کہ مئی 2021 میں اسرائیلی جارحیت نے 260 فلسطینی مسلمان شہید کیے تھے،اُس وقت حماس کے میزائلوں نے اُن کوتکلیف پہنچائی تھی۔اب اسلامک جہاد تنظیم اُن کا نشانہ تھی۔پاکستان کی جانب سے بھی شدید الفاظ میں مذمت آئی۔ترک صدر اردوان نے بھی انقرہ میں منعقدہ سفیروں کی کانفرنس میں اسرائیلی جارحیت کی سخت مذمت کی اور صاف کہاکہ مسجد اقصی ہماری ریڈ لائین ہے،ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے حقوق کے دفاع کی ہرممکن کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔مصر نے اس معاملے میں آگے بڑھ کر اتوار کی نصف شب جنگ بندی کرائی۔
9 اگست کواسرائیلی فورسز نے فلسطینی شہر “نابلوس” کی ایک عمارت کامحاصرہ کر کے الاقصی بریگیڈکے رہنما 26سالہ نوجوان ابراہیم النابلسی اسرائیلی کوشہیدکیا۔ابراہیم النابلسی ایک فلسطینی شیر تھاجس نے اسرائیل جس کا خوب پیچھا کیا۔وہ تنہا اپنے دشمن سے لڑنے اور اسے کاری ضرب لگانے میں ایک لشکر کی مانند تھا۔فلسطین کے پڑوس میں اردن نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی،وہاں تو دو دن ابراہیم نابلسی کی شہادت پر ٹرینڈ بھی رہا۔ابراہیم نابلسی کی شہادت پر اسکی والدہ کی ایمان افروز تقریرکا 40 سیکنڈ کا کلپ خوب وائرل رہا۔وہ ماں چلا کر کہہ رہی تھی کہ “ابراہیم ۔جسے انہوں نے گولی ما ردی۔مگر یہاں 100 اور ابراہیم ہیں۔یہاں موجود ہر فرد ابراہیم ہے۔تم سب میرے بچے ہو۔تم سب ابراہیم ہو۔میرا ابراہیم اب ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہوگا،اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ ہوگا۔”پھر لوگوں کی جانب سے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ مبارک ہو شہید کی ماں کو،مبارک ہو۔”” کاش ہماری ماں بھی آپ کی جگہ لے”” ،””مبارک ہو،وہ جیت گیا “”،وہ جیت گیا۔شکر الحمد للہ ۔شکر الحمد للہ ۔ “کون ہے جو اس جذبے کا مقابلہ کرے گا؟کون ہے جو اس عربی پوسٹ کا مقابلہ کرے گا جو ابراہیم کی تصویر کے ساتھ وائرل رہی ترجمہ:تمہاری شرف و عزت کی قسم کوئی بھی بارود کو نہیں چھوڑنے والا۔”میں سوچتا رہا کہ یہودی ، اپنی ڈھیروں ریسرچ و سازشوں کے باوجود یہ بات کیوں سمجھ نہیں پا رہا کہ مسلمانوں کے لیےپر تشددکارروائیاں ایمانی جذبات،جذبہ شہادت و جہاد کو بڑھاتی ہیں، کم نہیں کرتیں۔یہ بات مسلمانوں کی تاریخ سے بہت ہی واضح اور نمایاں ہے۔پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ وہ ظلم یا تشدد یہودی کر رہا ہو،لو بھئی اب تو سوال ہی پیدانہیں ہوتا کہ جذبہ جہاد کو کوئی کم کر سکے۔اس لیے وہ آج تک ساری کوششوں،سارےنیٹ ورک،جاسوسی،غداری کے باوجود اسلامک جہاد جیسی چھوٹی تنظیم کے ممبران کی تعداد بھی نہ معلوم کر سکے،ماسوائے ’’دہشت گرد تنظیم‘‘ کا لیبل دینے کے۔ ایران کے انقلابی دستے کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی نے صاف کہا ہے کہ اسرائیل اس کے نتائج بھگتے گا۔ یہ بیان ایسے وقت میں آیا جب روس نے ایران کی ایک سیٹلائٹ ’’خیام‘‘ کو خلا میں بھیجا۔
بات جہاد کی چلی ہے تو صرف یہاں تک نہیں۔ کچھ ہی دن قبل پاکستان سے مفتی تقی عثمانی جیسے علماء کا ایک اعلیٰ سطحی وفد افغانستان جاتا ہے۔تحریک طالبان پاکستان سے کسی قسم کے مذاکرات ہوتے ہیں۔اس کا نتیجہ جو بھی ہو نتائج پر نہیں جاتے۔10 اگست کوجماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد ایک وڈیو شیئر کرتے ہوئے ٹوئیٹ کرتے ہیں کہ ’’سرحد پر باڑ، فوجی چھائونی سوات، FC، پولیس، انٹیلی جنس اداروں کی موجودگی میں پراسرار طور پر سوات کے پہاڑوں، دیر کے علاقوں پر طالبان کا قبضہ کیسے ہوگیا؟ فوج، پولیس کے اعلی افسر کیسے یرغمال بنے؟ قوم ڈرامے کے لکھاریوں، ہدایت کاروں، اس کےمقاصد سے آگاہی چاہتی ہے۔ پختون سرزمین پر آگ خون کا کھیل پختون قوم کو برداشت نہیں۔‘‘ اس کے بعد تحریک انصاف کے رہنما و سابق وفاقی وزیر مراد سعید کی وڈیو سامنے آئی، جس میں وہ طالبان کی موجودگی پر شدید پریشان تھے۔ مشہور زمانہ حقیقت ٹی وی کے آفیشل اکاونٹ سے ٹوئیٹ ہوئی ’’مراد سعید کے انکشافات کے بعد اب ہر دوسری جگہ سے اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ سوات میں تحریک طالبان واپس آگئے ہیں، سمجھ سے باہر ہے ہم پھر اسی جنگ میں جہاں صرف تباہی ہی تباہی واپس کیوں جا رہے اور کس طرح تحریک طالبان والے واپس آگئے ہیں۔‘‘ اس ٹوئیٹ کو 5200 افراد نے ری ٹوئیٹ کیا۔ اظہر مشوانی،تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ نے ٹوئیٹ کیا کہ،”اس وقت طالبان سوات میں قبضے کررہے۔فوجیوں اور پولیس والوں کو یرغمال بنا رہے ہیں۔بلوچستان اور وزیرستان کے حالات مخدوش ہیں۔لیکن ملک کے وزیر دفاع اور وزیر داخلہ سمیت تمام ادارے سمجھ رہےہیں 50 فالورز والے 17 سالہ لڑکے اور شہباز گل سے ملک کی سالمیت کو خطرہ ہے۔”اب سب جانتے ہیں کہ کے پی میں کس جماعت کی حکومت ہے،ایسا عمران خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ طالبان سے رابطے میں ہیں۔بہرحال Swat ٹرینڈنگ میں آگیا۔بہرحال یہ سب ایسے وقت میں ہوا کہ جب عمران خان کے قریبی ساتھی شہباز گل کی ڈرامائی گرفتاری ہوئی۔اُن پر الزام تھا کہ انہوں نے’’اداروں کے خلاف‘‘ اے آروائی کے شو میں باتیں کیں۔ متذکرہ ٹی وی چینل کے نیوز ہیڈ کو بھی گرفتار کیا گایا، چینل پر پابندی بھی لگی۔اس کے بعد عمران خان کی ٹیم نے بڑا کمال کر دیاگو کہ خان صاحب کو پسینہ بہت آیا تاہم انہوں نے ہمت مرداں کرتے ہوئے شہباز گل کے جملوں کو جواز دینے کے لیے اپنی پریس کانفرنس میں مختلف تقاریر کے ٹوٹے نشر کردیے۔یہ ٹوٹے نواز شریف ،آصف زرداری،مولانا فضل الرحمن،مریم نواز کے “خاص اقوال “جو وہ اداروں کے بارے میں جلسوں یا پریس کانفرنسوں میں فرماتے تھے۔
اب کیا تھا ،سوشل میڈیا پر دھمال مچ گیا۔ ایک بار پھر باجوہ صاحب کو بیچ میں لایا گیا۔شہباز گل کورہاکرو، شہباز گل، ارشد شریف، امپورٹڈ سیٹ اپ نا منظور، پاکستان انڈر فاشزم، اے آر وائی نیوز بحال کرو، BajwaHasToGo, Enough isEnough, GenBajwaWillStayجیسے ٹرینڈ شروع ہوگئے۔ ان کے بیچ میں اچانک سے مولانا طارق جمیل بھی نا معلوم کیوں آگئے؟ ان کی جانب سے اسمبلی میں ممبران کی خرید و فروخت پر کمنٹ نے بھی بھونچال برپا کردیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ مولانا کی سوشل میڈیا پر بڑی رسائی ہے مگر وہ جب بھی عمران خان سے ملتے ہیں ان پر تنقید شروع ہوجاتی ہے۔اب کی بار تحریک انصاف نے خوب دفاع کیا WeStandWithTariqJameel کا ٹرینڈ جواب میں بنایا۔اس پور ے معاملے میں یہ معاملہ اپنی جگہ اہم تھا کہ اگر شہباز گل گرفتار ہو سکتا ہے تو وہ سارے کیوں نہیں جو یہ ٹرینڈ چلاتے ہیں، چلواتے ہیں۔ پاکستان میں اداروں کےخلاف سوچنے والوں کے خلاف بھی ایسے اقدامات ہوتے رہے ہیں کہ ایک دہائی گزر گئی مگر آج تک ان کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی لاش بھی نہیں دیکھ پائے۔ تو از خود یہ سوال جنم لیتا ہے کہ “گالی “دینے کے ایسے 2معیارات کیوں؟پاکستان میں جیسے جیسے یوم قیام پاکستان قریب آرہا تھا، سوشل میڈیا پر ٹرینڈز کے تیور بھی اسی طرح بن رہے تھے ۔جیسے ہم چھین کےلیں گے آزادی، پھر سے روشن پاکستان، حقیقی آزادی جلسہ، اسی طرح محرم الحرام کے موقع پر بھی محرم، کربلا و دیگر ٹرینڈ بنائے گئے۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن اور ان کا بیانیہ”حل صرف جماعت اسلامی”، سوشل میڈیا کےتمام پلیٹ فارمز پر مقبول رہا۔”حل صرف جماعت اسلامی” کے نعرے پر بننے والی میمز اور وڈیوز نے بھی قبولیت کے نئے ریکارڈ بنائے ، ماہرین نفسیات کے مطابق اس ضمن میں ، اس طرز پر کیا جانے والا منفی پروپیگنڈہ بھی مثبت ہی نتائج دیتا ہے 9-10 اگست کی برسات نے دوبارہ عوام کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ حل صرف جماعت اسلامی۔

حصہ