شعرو شاعری

319

علامہ اقبال
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہرِ یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمّتِ مردانہ!
یا سنجر و طغرل کا آئینِ جہاں‌گیری
یا مردِ قلندر کے اندازِ ملوکانہ!
یا حیرتِ فارابیؔ یا تاب و تبِ رومیؔ
یا فکرِ حکیمانہ یا جذبِ کلیمانہ!
یا عقل کی رُوباہی یا عشقِ یدُاللّٰہی
یا حِیلۂ افرنگی یا حملۂ ترکانہ!
یا شرعِ مسلمانی یا دَیر کی دربانی
یا نعرۂ مستانہ، کعبہ ہو کہ بُت خانہ!
مِیری میں فقیری میں، شاہی میں غلامی میں
کچھ کام نہیں بنتا بے جُرأتِ رِندانہ

فیض احمد فیض
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں‌نہیں‌دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں‌نہیں دیتے
دردِ شبِ ہجراں‌کی جزا کیوں‌ نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں ‌نہیں دیتے
ہاں نکتہ ورولاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں ‌نغمہ گروساز ِ ‌صدا کیوں ‌نہیں دیتے
مِٹ‌جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں ‌نہیں ‌دیتے
پیمانِ جنوں‌ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو گریباں کا پتہ کیوں‌نہیں دیتے
بربادئ دل جبر نہیں‌ فیضؔ‌ کسی کا
وہ دشمنِ جاں ‌ہے تو بُھلا کیوں‌ نہیں ‌دیتے

شکیل بدایونی
غم سے کہاں اے عشق مفر ہے
رات کٹی تو صبح کا ڈر ہے
ترکِ وفا کو مدت گزری
آج بھی لیکن دل پہ اثر ہے
آئنے میں جو دیکھ رہے ہیں
یہ بھی ہمارا حسنِ نظر ہے
غم کو خوشی کی صورت بخشی
اس کا بھی سہرا آپ کے سر ہے
لاکھ ہیں ان کے جلوے جلوے
میری نظر پھر میری نظر ہے
تم ہی سمجھ لو تم ہو مسیحا
میں کیا جانوں درد کدھر ہے
پھر بھی شکیلؔ اس دور میں پیارے
صاحب فن ہے اہل ہنر ہے

حفیظ ہوشیارپوری
پھر سے آرائش ہستی کے جو ساماں ہوں گے
تیرے جلووں ہی سے آباد شبستاں ہوں گے
عشق کی منزلِ اول پہ ٹھہرنے والو
اس سے آگے بھی کئی دشت و بیاباں ہوں گے
تو جہاں جائے گی غارتِ گر ہستی بن کر
ہم بھی اب ساتھ ترے گردش دوراں ہوں گے
کس قدر سخت ہے یہ ترک و طلب کی منزل
اب کبھی ان سے ملے بھی تو پشیماں ہوں گے
تیرے جلووں سے جو محروم رہے ہیں اب تک
وہی آخر ترے جلوئوں کے نگہباں ہوں گے
اب تو مجبور ہیں پر حشر کا دن آنے دے
تجھ سے انصاف طلب روئے گریزاں ہوں گے
جب کبھی ہم نے کیا عشق پشیمان ہوئے
زندگی ہے تو ابھی اور پشیماں ہوں گے
کوئی بھی غمِ ہو غم دل کہ غمِ دہر حفیظؔ
ہم بہ ہر حال بہ ہر رنگ غزل خواں ہوں گے

جون ایلیا
کس سے اظہارِ مدعّا کیجے
آپ ملتے نہیں ہیں کیا کیجے
ہو نہ پایا یہ فیصلہ اب تک
آپ کیجے تو اور کیا کیا کیجے
آپ تھے جس کے چارہ گر وہ جواں
سخت بیمار ہے دعا کیجے
ایک ہی فن تو ہم نے سیکھا ہے
جس سے ملیے اسے خفا کیجے
ہے تقاضا مری طبیعت کا
ہر کسی کو چراغ پا کیجے
ہے تو بارے یہ عالمِ اسباب
بے سبب چیخنے لگا کیجے
آج ہم کیا گلہ کریں اس سے
گلۂ تنگیٔ قبا کیجے
نطق حیوان پر گراں ہے ابھی
گفتگو کم سے کم کیا کیجے
حضرتِ زلف غالیہ افشاں
نام اپنا صبا صبا کیجے
زندگی کا عجب معاملہ ہے
ایک لمحے میں فیصلہ کیجے
مجھ کو عادت ہے روٹھ جانے کی
آپ مجھ کو منا لیا کیجے
ملتے رہیے اسی تپاک کے ساتھ
بے وفائی کی انتہا کیجے
کوہ کن کو ہے خودکشی خواہش
شاہ بانو سے التجا کیجے
مجھ سے کہتی تھیں وہ شراب آنکھیں
آپ وہ زہر مت پیا کیجے
رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب
خون تھوکوں تو واہ وا کیجے

سیف الدین سیف
چین اب مجھ کو تہ دام تو لینے دیتے
تیرے فِتنے کہیں آرام تو لینے دیتے
آپ نے اُس کا تڑپنا بھی گوارہ نہ کیا
دلِ مضطر سے کوئی کام تو لینے دیتے
موت بھی بس میں نہیں ہے ترے مجبوروں کی
زندگی میں کوئی الزام تو لینے دیتے
پل میں منزل پہ اڑا لائے فنا کے جھونکے
لطف رک رک کے بہرگام تو لینے دیتے
ہاتھ بھی اُن کی نگاہوں نے اٹھانے نہ دیا
دل ِ بے تاب ذرا تھام تو لینے دیتے
سیف ہر بار اشاروں میں کیا اُس کو خطاب
لوگ اُس بت کا کبھی نام تو لینے دیتے

محمد دین تاثیر
حضورِ یار بھی آنسو نکل ہی آتے ہیں
کچھ اختلاف کے پہلو نکل ہی آتے ہیں
مزاج ایک، نظر ایک، دل بھی ایک سہی
معاملاتِ من و تُو نکل ہی آتے ہیں
ہزار ہم سخنی ہو ہزار ہم نظری
مقامِ جنبشِ ابرو نکل ہی آتے ہیں
حنائے ناخنِ پا ہو کہ حلقۂ سرِ زلف
چھپاؤ بھی تو یہ جادو نکل ہی آتے ہیں
جنابِ شیخ وضو کے لیے سہی لیکن
کسی بہانے لبِ جوُ نکل ہی آتے ہیں
متاعِ عشق وہ آنسو جو دل میں ڈوب گئے
زمیں کا رزق جو آنسو نکل ہی آتے ہیں

حصہ