کہتے ہیں کہ زعفران کے کھیت میں کھڑے ہو جائیں تو خود بخود ہنسی آنے لگتی ہے‘ زعفران میں یہ قہقہہ آور خصوصیت پائی جاتی ہے یا نہیں‘ یہ تو معلوم نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ وجد طاری کرنے والی خوشبو کا دوسرا نام ’’زعفران‘‘ ہے۔ زعفران کو اگر پلاسٹک کی کئی تھیلیوں میں بند کرکے بھی رکھا جائے تب بھی اس کی لطیف خوشبو فضا کو معطر کرتی رہتی ہے لیکن زعفران محض خوشبو اور رنگت ہی کے حوالے سے مقبول نہیں بلکہ اطبا کے نزدیک طبی اعتبار بھی اس کی بڑی اہمیت ہے۔
زعفران‘ نباتی دوا کے طور پر آج سے نہیں‘ ہزاروں سال سے استعمال ہو رہا ہے بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ زمانہ ماقبل تاریخ میں بھی وید دوائوں میں زعفران استعمال کیا کرتے تھے۔ سنسکرت کی قدیم ویدک لغت ’’بھائو پرکاش‘‘ میں بھی ہمیں زعفران کا ذکر ملتا ہے۔ انجیل میں بھی زعفران کا تذکرہ آیا ہے۔ کشمیر کے کچھ علاقے زعفران کی کاشت کے لیے بہت مشہور رہے ہیں۔ مغلیہ عہد میں زعفران کی کاشت بڑے اہتمام سے کی جاتی تھی یہی وجہ ہے کہ تزک بابری‘ تزک جہانگیری اور آئین اکبری میں زعفران کے تذکرے ملتے ہیں۔ دسویں صدی عیسوی میں زعفران کو اسپین میں کاشت کیا گیا جہاں سے اسے فرانس اور انگلستان لے جایا گیا۔ ایران میں بھی زعفران خاصی مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ گزشتہ چند سال سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں زعفران کی کاشت شروع کی گئی ہے جو کامیابی سے جاری ہے۔ بھارت کے جنوبی صوبہ حیدرآباد میں بھی زعفران کاشت کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن کامیاب نہ ہوسکی۔
کشمیر کا زعفران اپنی خوشبو‘ رنگت اور نفاست کے اعتبار سے ایک عرصے تک بہترین سمجھا جاتا تھا لیکن ایک وقت آیا کہ یورپ میں اسپین زعفران کی منڈی بن گیا اور زعفران طرح طرح کے تجارتی ناموں سے خوب صورت پیکنگ میں بند ہو کر دنیا بھر میں فروخت ہونے لگا۔ تجارتی ذہنوں نے اس پر خوب تجربے کیے اور ملاوٹ سے پاک زعفران کا ملنا دشوار ہو گیا۔
زعفران دراصل اس کے پھول میں پیدا ہونے والے گل ریزوں کو کہا جاتا ہے گو کہ پھول کے دیگر حصوں سے بھی کم تر درجے کا زعفران تیار کیا جاتا ہے۔ اس کا پودا پیاز نما جڑوں (بلبز) کو کاشت کرکے اُگایا جاتا ہے۔ پودے کا قد چھ‘ سات انچ ہوتا ہے اور یہ پودا بہت نرم ہوتا ہے اس میں تنا نہیں ہوتا۔ پتے گھاس سے مشابہ ہوتے ہیں اور ان کی تعداد چھ سے دس تک ہوتی ہے۔ پھول پتوں سے بلندی پر کھلتے ہیں۔ پھول کی ڈنڈی اندر سے کھوکھلی اور خاصی لمبی ہوتی ہے۔ پنکھڑیاں لانبی‘ چوڑی اور قیف نما ہوتی ہیں۔ پھول کی رنگت عام طور پر بنفشی ہوتی ہے لیکن بعض قسموں میں سفید بھی دیکھنے میں آتی ہے۔
پھول براہِ راست پیاز نما جڑ سے نکلتا ہے۔ گل ریزے زرد رنگ کے اور طویل ہوتے ہیں۔ تخم دان کی بالائی نالی لمبی اور سہ شاخہ ہوتی ہے جس میں سے ہر ایک شاخ تقریباً ایک انچ دوری تک پھول سے باہر نکلی ہوئی ہوتی ہے۔ اس نالی کا رنگ شوخ سرخ ہوتا ہے اور اسی کو خشک کرکے زعفران بنا لیا جاتا ہے۔ ایک گرام زعفران میں تقریباً آٹھ سو خشک نالیاں آجاتی ہیں۔ پودے میں پھول‘ تقریباً وسط اکتوبر میں آتے ہیں۔ پرانی جڑوں کے ساتھ ساتھ اوپر کی جانب نئی پیاز نما جڑیں بنتی رہتی ہیں جو دوسرے پودے اُگانے کے کام آتی ہیں۔
جس زمین پر زعفران کا شت کرنا مقصود ہو‘ اسے سات آٹھ سال سے افتادہ ہونا چاہیے۔ یعنی اس میں کچھ نہ بویا گیا ہو۔ ایسی زمین میں بیج کے طور پر زعفران کی پیاز نما جڑیں (بلبز) بودی جاتی ہیں۔ بوائی کا مناسب زمانہ جولائی اور اگست کے مہینے ہیں۔ ایک بار لگائے گئے پودے چودہ برس تک خود بخود بڑھتے رہتے ہیں اور ان کی جڑوں سے نئے پودے جنم لیتے رہتے ہیں۔ اکتوبر کے وسط میں جب پودے پر کاسنی رنگ کے خوب صورت پھول کھِل اٹھتے ہیں تو حُسن‘ خوشبو اور رنگ ایک کیف آور ماحول تشکیل دیتے ہیں۔
پھول جب پوری طرح کھِل کر پختہ ہو جاتے ہیں تو انہیں توڑ کر سکھا لیا جاتا ہے۔ پوری طرح خشک ہو جانے پر پھول کے اندر سے نمودار ہونے والی تین لانبی نالیاں نوچ کر جمع کر لی جاتی ہیں۔ یہ نالیاں تخم دان کا بڑھائو ہوتی ہیں۔ یہی اوّل درجے کا زعفران ہوتا ہے جسے ’’مونگرا زعفران‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ شوخ سرخ ہوتا ہے اور اس کی خوشبو تیز ہوتی ہے۔ اس کی ہر ایک نالی جدا نظر آتی ہے۔ پھول کی ڈنڈی کے اندر نالیوں کا زیریں حصہ ہوتا ہے۔ اس کی رنگت بہت ہلکی ہوتی ہے‘ لیکن اس سے بھی زعفران تیار کیا جاتا ہے۔
مونگرا زعفران چن لینے کے بعد پھولوں کو ہلکے ہاتھ سے کوٹ کر پھٹک لیتے ہیں تاکہ پھول کی پنکھڑیاں اور فالتو چیزیں الگ ہو جائیں۔ اس کے بعد باقی بچے ہوئے پھول کو پانی میں ڈال دیتے ہیں۔ اس طرح تخم دان کی نالیوں کے بھاری حصے تہ نشین ہو جاتے ہیں اور ہلکی چیزیں پانی کی سطح پر تیرنے لگتی ہیں۔ جو چیزیں پانی کی تہ میں بیٹھ جاتی ہیں انہیں اکٹھا کرکے خشک کر لیا جاتا ہے اس طرح دوسرے درجے کا زعفران تیار ہو جاتا ہے۔ جو حصے پانی کی سطح پر تیر رہے ہوتے ہیں‘ انہیں اکٹھا کرکے مزید کوٹا جاتا ہے اور پھر پانی میں ڈالا جاتا ہے۔ اب کچھ حصہ پانی کی تہ میں چلے جاتے ہیں۔ ان حصوں کو اکٹھا کرکے خشک کر لیتے ہیں‘ اس طرح تیسرے درجے کا زعفران تیار ہو جاتا ہے۔ دوسرے اور تیسرے درجے کا زعفران‘ مونگرا زعفران کے مقابلے میں رنگ اور خوشبو دونوں لحاظ سے بہت کمتر ہوتا ہے۔
زعفران کی کاشت کے سلسلے میں ایک بات بڑی اہم ہے کہ اس کے کھیتوں میں جانور گھس جائیں اور پودوں کو نقصان پہنچ جائے تو ان پودوں سے تین سال تک نئی کونپلیں نہیں پھوٹتیں۔ زعفران کے کھیتوں میں کوئی اور فصل بھی نہیں بوئی جاتی کہ کہیں چوہے نہ پیدا ہو جائیں اور زعفران کے پودوں کو نقصان پہنچائیں۔
مغل حکمرانوں کو زعفران کاشت سے بڑا مالی منافع ہوتا تھا۔ اس ضمن میں سب سے اچھا انتظام اکبر نے کیا تھا۔ میر باقر کو ’’دیوانِ زعفران‘‘ مقرر کرکے سینکڑوں افراد ان کی ماتحتی میں دے دیے تھے جو فصل کی ابتدا سے لے کر زعفران کے چُنے جانے تک یعنی پورے نظام کی کڑی نگرانی کرتے تھے۔ شہنشاہ اکبر کے عہد سے تقسیمِ برصغیر تک کوئی بھی دور ایسا نہیں گزرا جس میں زعفران کی سالانہ پیداوار نے اکبر کے دور کے پیداواری ریکارڈ سے تجاوز کیا ہو۔
زعفران چوں کہ تیل اور پانی دونوں میں حل ہو جاتا ہے اس لیے اس کے استعمال بڑے وسیع ہوتے ہیں۔ لوگ اسے مذہبی اور سماجی دعوت میں استعمال کرنا بہت ضروری سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کے ہاں بچوں کے عقیقے کے موقع پر ‘ بچے کے بال منڈوانے کے بعد بچے کے سر پر زعفران لگا دیا جاتا ہے اس کا مقصد دراصل یہ ہوتا ہے کہ زعفران کے جراثیم کش اثرات کی وجہ سے نوزائیدہ بچیض کے سر کی نازک جلد محفوظ رہے اور اگر کوئی زخم ہو گیا ہو تو وہ جلد مندمل ہو جائے‘ لیکن یہاں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بچے کے سر پر اگر زعفران کا موٹا سا لیپ کر دیا جائے تو اس کی گرم تاثیر سے سر کی جلد میں دورانِ خون تیز ہو جاتا ہے اور اس کی حدت سے بچوں کی نازک جلد پر دانے نکل آتے ہیں۔ ہندوئوں کے ہاں بھی مذہبی رسومات پر زعفران کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پوجا پاٹ کے علاوہ شادیوں کے مواقع پر اونچی ذات کے ہندو زعفران کا تلک پیشانی پر لگایا لیا کرتے ہیں۔
شادی بیاہ کے موقع پر زعفران کا ایک عام استعمال کھانوں میں ہوتا ہے لیکن ناواقفیت کی وجہ سے اس قیمتی شے کی بہت بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے۔ باورچی حضرات عام طور پر اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ زعفران میں بہت لطیف اور ضروری روغنی اجزا ہوتے ہیں جو حرارت پانے سے اُڑ جاتے ہیں۔ دراصل یہی ضروری روغنیات اپنے اندر خوشبو اور فوائد رکھتے ہیں۔ یوں بھی اس قدر قیمتی اور مفید دوا کو محض رنگ اور خوشبو کے لیے استعمال کرنا اسے ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
زعفران کا استعمال دوائوں میں کثرت سے کیا جاتا ہے‘ خصوصاً طبِ یونانی میں اس کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ جسم میں پہنچ کرف بہت جلد دورانِ خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس کی اسی خوبی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے ان دوائوں میں شامل کیا جاتا ہے جنہیں فوری طور پر جسم کے اندرونی حصوں تک پہنچانا مقصود ہو۔ زعفران اپنے ساتھ ان دوائوں کے اثرات کو بھی لے کر جسم کے اندرونی حصوں تک پہنچا دیتا ہے۔ بیرونی طور پر استعمال ہونے والے مرہموں‘ ضمادوں (لیپ) میں بھی زعفران کو شامل کیا جاتا ہے۔
زعفران دل‘ دماغ‘ اعصاب اور جگر کو طاقت دیتا ہے۔ پیشاب لانے کی خاصیت رکھتا ہے‘ حیض کی بندش کو بھی دور کرتا ہے۔ اعضا پر اگر ورم آگیا ہو تو مریض کو ایسی دوائیں استعمال کروائی جاتی ہیں جن میں زعفران شامل ہوتا ہے۔ عام جسمانی کمزوری ہلکے فشارِ خون (لو بلڈ پریشر) کی صورت میں بھی زعفران کو دیگر دوائوں کے ساتھ شامل کرکے استعمال کروایا جاتا ہے۔ تقویتِقلب‘ تقویتِ دماغ و اعصاب نیز گھبراہٹ دور کرنے کے لیے جو دوائیں استعمال ہوتی ہیں زعفران ان کا بھیج اہم جزو ہے۔ زعفران کو سرموں میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔ یہ سرمے آنکھوں کے مختلف امراض اور نظر کی کمزوری کو دور کرنے کے لیے مفید ہیں۔ بعض یورپی ملکوں میں لوگ اپنے پالتو پرندوں کو زعفران کھلاتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اس طرح ان پرندوں کے پَر اور جِلد نہایت چمک دار نکلتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی جہاں تیتر اور مرغ لڑانے کا رواج ہے وہاں انہیں زعفران کھلایا جاتا ہے۔
زعفران کو اگر تنہا استعمال کیا جائے تو اس کی مقدار خوراک 30 ملی گرام سے 250 ملی گرام تک ہے۔ یوں تو اس میں کوئی جزو نقصان دہ نہیں ہے لیکن بلند فشار (ہائی بلڈ پریشر) کے مریضوں اور حاملہ خواتین کو اس کی استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے۔
زعفران نہایت قیمتی دوا ہے۔ فی الوقت یہ دس‘ بارہ ہزار روپے فی کلو گرام سے کم قیمت پر دستیاب نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ اس میں ملاوٹ کا رجحان ہمیشہ سے پایا جاتا ہے۔ دراصل زعفران نباتات کی جس نوع سے تعلق رکھتعا ہے اسی نوع سے تعلق رکھنے والے چند اور پودے زعفران سے خاصی حد تک مشابہ ہوتے ہیں۔ انہیں رنگ کر یا مصنوعی خوشبو ملا کر زعفران میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ عموماً زعفران میں کم اور ہار سنگھار کے پھولوں کی ملاوٹ کی جاتی رہی ہے ایسی صورت کا پتا لگانا آسان ہوتا ہے‘ لیکن یورپی ملکوں سے جو زعفران آتا ہے اس میں اصلی نقلی کا پتا چلانا دشوار ہوتا ہے‘ وہاں ’’کروکس سلی را‘‘، کروکس آرمی اس‘‘ یا ’’کروکس لیوی اس‘‘ کے پودے زعفران میں شامل کر دیے جاتے ہیں۔
بعض حضرات یہ کرتے ہیں کہ زعفران سے رنگ دار جوہر نکال لیتے ہیں جس میں خوشبو بھی شامل ہوتی ہے اور باقی بچے ہوئے حصے کو دوبارہ مصنوعی طریقے سے رنگ و خوشبو دے کر فروخت کر دیتے ہیں۔ بعض لوگ زعفران کا وزن بڑھانے کے لیے اس میں کچھ معدنی اور نباتی تیل ملا دیتے ہیں جس سے وہ زیادہ بہتر نظر آتا ہے۔
زعفران میں ملاوٹ کا پتا چلانے کے لیے سب سے سادہ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ کانچ کے ایک گلاس میں پانی لے کر اس کی سطح پر زعفران کے چند ریشے ڈالے جائیں۔ یہ ریشے کچھ دیر بعد پھول کر کھل جائیں گے اور مخصوص قسم کی گائودم شکل اختیار کر لیں گے ہر ریشے کے اندر نالی نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر ریشہ بالائی سرے کی طرف سے چوڑا اور زیریں سرے کی طرف تدریجاً پتلا ہوتا چلا جاتا ہے اس کے علاوہ پانی کی رنگت دھیرے دھیرے گہری زرد ہو جاتی ہے۔ اگر پانی کی رنگت سنہری مائہل زرد‘ گلابی یا سرخ ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ زعفران میں ملاوٹ کی گئی ہے۔
مزید اطمینان کے لیے آپ کیمیائی امتحان بھی کر سکتے ہیں۔ زعفران کو پیس کر مرتکز گندھک کے تیزاب (قوی سلفیورک ایسڈ) پر چھڑکا جائے جہاں جہاں زعفران گرے گا وہاں وہاں تیزاب گہرا نیلا نظر آئے گا۔ اسے خورد بین کی مدد سے آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو زعفران میں ملاوٹ ہوگی۔
ایتھریا پٹرولیم اسپرٹ میں اگر زعفران کو شامل کیا جائے تو اس کا رنگ نہیں نکلے گا‘ لیکن مصنوعی رنگت فوراً ہی حل ہو جائے گی۔ ایک صورت یہ ہے کہ ہڈی کو جلا کر کوئلہ بنا لیں اور اسے باریک پیس کر پانی میں حل کر لیں۔ اب اس میں زعفران کو ملایا جائے تو اس کی رنگت فوری طور پر ختم ہو جاتی ہے۔ اگر زعفران اصلی نہ ہو تو رنگت کے زائل ہونے میں وقت لگتا ہے۔
اگر زعفران میں تیل کی ملاوٹ کا خدشہ ہو تو اسے باریک کاغذ کی تہ میں رکھا جائے۔ اگر تیل ہوگا تو چکنائی کے دھبے کاغذ کی سطح پر نمودار ہو جائیں گے۔