اس نے جواب دیا، “ہاں، لیکن آپ کو یہ کیسے معلوم ہے۔ سندباد تو رخ پرندے والے جزیرے پر الله کو پیارا ہو گیا تھا۔ اس بات کو ایک مدّت گزر چکی ہے۔”
میں نے اسے بتایا کہ میں ہی سندباد جہازی ہوں۔ اپنے مال کی مزید نشانیاں بتائیں۔ اتنے میں سب ملاح ہمارے گرد جمع ہو گئے۔ وہ مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے ساری داستان انہیں سنائی۔ تب انہیں یقین آ گیا کہ سندباد میں ہی ہوں۔ میں بھی اپنا سامان اتروا کر منڈی لے گیا۔ میں نے سارا مال بیچا اور خوب نفع کمایا۔ اس رقم سے میں نے ایسا مال خریدا جو بغداد میں اچھی قیمت پر بک سکے۔
جہاز مزید ایک دو بندرگاہوں پر رکا۔ وہاں بھی خرید و فروخت ہوئی اور الله تعالی کی مہربانی سے مجھے تجارت میں خوب فائدہ ہوا۔ آخر ایک دن ہم بصرہ پہنچ گئے۔ وہاں سے میں بغداد گیا اور پورے مال کو اچھے خاصے منافع پر بیچ دیا۔ ایک بار پھر میں مال و دولت کا مالک ہو گیا۔
دوستو! اگر زندگی رہی تو کل میں آپ کو اپنے چوتھے سفر کا حال سناؤں گا۔
چوتھا سفر
ایک دن کچھ تاجر دوست میرے ہاں آئے۔ باتوں باتوں میں بحری سفر کا ذکر آیا۔ اس سے ایک بار پھر میرے دل میں شوق کی آگ بھڑک اٹھی۔ یہ وہ آگ ہے جو بجھے نہیں بجھتی۔ دوسرے ہی دن میں نے تیاریاں شروع کر دیں۔ چند دنوں میں میں مال لے کر بصرہ جا پہنچا اور ایک جہاز میں سوار ہو کر یہ جا وہ جا۔ مشرق ہمیشہ میرے لیے جادو کی سرزمین رہی ہے۔ وہاں کے جزیرے، ان دیکھے لوگ، انوکھی چیزیں، انوکھے رسم و رواج۔ وہ لوگ جو عجیب و غریب باتوں کی تلاش میں رہتے ہیں، بحری سفر ان کی پیاس بجھاتے ہیں۔
ہم وطن سے بہت دور کھلے سمندر میں رواں دوں تھے کہ ایک دن زور کی آندھی آئی اور جہاز ایسا پلٹا کہ ہم سب پانی میں جا گرے۔ جہاز ڈوبنے لگا۔ میں نے اپنے دل میں کہا، “سندباد، بہت جی لیا تو اب، لیکن آج تیری موت تیرے سر پر کھڑی ہے۔”
ادھر میں نے یہ بات سوچی ادھر ایک تختہ میری طرف بہہ کر آ گیا اور میں اچھال کر اس پر سوار ہو گیا۔ میں نے اس تختے پر بیٹھ کر اوروں کی مدد کی اور وہ بھی کسی نہ کسی لکڑی کے ٹکڑے سے چمٹ گئے۔
یوں بھی ہوتا ہے
اگلے دن ہم موجوں کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پر بہتے چلے گئے۔ آخر خشکی کے ایک کنارے پر جا لگے۔ ہم میں سے کسی میں اتنا دم نہیں تھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل سکے۔ ساری رات کنارے پر ہم بےحس و حرکت پڑے رہے۔ سورج نکلا تو ہم اٹھے۔ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کریں کہ کچھ وحشی وہاں آ گئے۔ وحشی میں نے اس لیے کہا ہے کہ ان کی شکل انسانوں جیسی تھی ورنہ تھے وہ جانور، نہایت بد شکل، بھدّے اور گھناؤنے۔ انہوں نے ہمیں تھپڑ اور چانٹے مار مار کر کھڑا کیا اور جانوروں کی طرح ہانکتے اپنے بادشاہ کے پاس لے گئے۔ بادشاہ نے ان سے کچھ بات کی۔ انہوں نے ہمیں زمین پر بٹھایا۔ ہمارے لیے کھانا لایا گیا۔ یہ کھانا دیکھ کر مجھے تو متلی ہونے لگی۔ جنہوں نے یہ کھانا کھایا وہ جادو میں آ گئے۔ اب ان کی بھوک ہی ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ اس وقت مجھے یاد آیا کہ میں ان وحشیوں کی کہانیاں پہلے سن چکا ہوں۔ جب وہ دوسرے ملکوں کے لوگوں کو پکڑ کر لاتے ہیں تو انہیں یہی غذا دیتے ہیں۔ کھانے والوں کا پیٹ نہیں بھرتا۔ وہ کھاتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اس طرح وہ موٹے ہو جاتے ہیں اور پھر ان وحشیوں کا لقمہ بنتے ہیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ وہ کھانا بند کریں، لیکن ان پر جادو چل چکا تھا اور وہ نہ رک سکے۔
میں جی ہی جی میں کڑھتا رہا کہ کس طرح اپنے ساتھیوں کی جان بچاؤں، لیکن وہ وحشی ہر وقت ان کے گرد جمع رہتے تھے اور ہر وقت انہیں کھلاتے ہی رہتے تھے۔ آخر میں نے سوچا کہ اگر میں ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تو اپنی جان بچانا مجھ پر فرض ہے۔ چنانچہ ایک دن میں ان سے آنکھ بچا کر ایک درخت کے نیچے چھپ گیا، پھر موقع پا کر جنگل کے اندر گھس گیا۔ وہاں مجھے ایک پھل نظر آیا جسے میں جانتا تھا۔ میں نے اس سے پیٹ بھرا اور اپنی جان بچانے کے لیے جتنا تیز چل سکتا تھا چلنے لگا۔ سات دن تک میں چلتا رہا، لیکن کہیں بھی مجھے کوئی انسان یا جانور نظر نہ آیا۔
ساتویں دن ایک جگہ مجھے کچھ انسان نظر آئے۔ میری جان میں جان آئی۔ میں ان کی طرف بڑھا۔ ان لوگوں نے مجھے دیکھا تو اپنی تلواریں سونت لیں۔ میں نے بلند آواز میں کہا، “اللہ کے واسطے میری بات تو سنو۔”
وہ میرے نزدیک آئے تو میں نے اپنی روداد بیان کی۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا، “آج تک تمہارے علاوہ کوئی اور آدمی ان وحشیوں سے بچ کر نہیں آیا۔”
اب میں ان کے ساتھ رہنے لگا۔ یہ لوگ ایک اور جزیرے کے تھے۔ وہ اپنے جزیرے کو چلے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ ان لوگوں نے اپنے بادشاہ سے میرا ذکر کیا۔ دربار میں میری طلبی ہوئی۔ میں نے اپنے بارے میں اور جو کچھ مجھ پر بیتی تھی، اس کا حال بیان کیا۔ بادشاہ نے بڑی دلچسپی سے سنا۔ روزانہ میری طلبی ہوتی اور روزانہ بادشاہ طرح طرح کے سوالات پوچھتا اور غور سے سنتا۔
اس بادشاہ کا جزیرہ خوشحال تھا۔ بادشاہ اور اس کی تمام رعیت گھوڑوں پر سوار ہوتی تھی، لیکن زین کے بغیر۔ میں سمجھ گیا وہ زین سے قطعی ناواقف ہیں۔ ایک دن میں نے زین کا ذکر بادشاہ سے کیا تو اس نے پوچھا، “زین کیا چیز ہے؟”
میں نے کہا، “بادشاہ سلامت! میں ایک زین بنا کر لاؤں گا تب آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ زین کیا ہے۔”
میں نے ایک اچھی سی زین تیار کی۔ بادشاہ اسے استعمال کر کے بہت خوش ہوا۔ اس کے بعد اس کے تمام امرا نے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں ان کے لیے زینیں بناؤں۔ چنانچہ میں نے بے شمار زینیں تیار کر کے انہیں دیں۔ سب نے مجھے انعامات سے نوازا اور میں خاصا دولت مند ہو گیا۔
شادی خانہ آبادی
ایک دن بادشاہ نے مجھے بلوایا اور کہا، “میں اور میری رعیت تمہیں اپنا سمجھتی ہے۔ تم بھی اپنی اپنائیت ثابت کرو۔”
میں نے عرض کیا، “میں اپنے آپ کو آپ کی رعیت میں شمار کرتا ہوں۔ فرمائیے کیا حکم ہے۔”
بادشاہ نے کہا کہ میرے ایک درباری کی ایک حسین و جمیل اور مالدار بیٹی ہے۔ تم اس سے شادی کر لو۔ میں نے ہاں کردی۔ دو چار دنوں میں میری شادی ہو گئی۔ جیسا کہ بادشاہ نے مجھے بتایا تھا، میری بیوی ایک حسین عورت تھی جو مجھ سے محبت کرتی تھی۔ ہم ہنسی خوشی رہنے لگے۔
ایک دن میری بیوی کے ایک رشتے دار کی بیوی فوت ہو گئی۔ میں تعزیت کے لیے اس کے گھر گیا۔ وہ بےچارا بڑا پریشان تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ بیوی کا غم اسے کھائے جا رہا ہے۔ میں نے اس سے کہا، “دیکھو بھئی تقدیر نہیں ٹلتی۔ جس کی موت آتی ہے وہ مرتا ہے۔ مجھے آپ کی بیوی کے مرنے کا سخت صدمہ ہوا ہے۔ آپ صبر کریں۔ اللہ تعالی اس کے اجر میں آپ کو ایک اور نیک سیرت اور خوبصورت بیوی دے گا۔”
(جاری ہے)