محمد جان ویبسٹر (انگلستان)
ذیل کا انٹرویو ماہنامہ ’’چراغِ راہ‘‘ کراچی کے شمارہ جون 1960ء میں شائع ہوا تھا اور اسے مدیر رسالہ پروفیسر خورشید احمد صاحب نے مرتب فرمایا تھا۔اس کا پہلا حصہ آپ گزشتہ ہفتے ملاحظہ فرما چکے ہیں اب دوسرا اور آخری حصہ پیش خدمت ہے۔
…٭…
لیکن اس واقعہ نے مجھ دو اثر چھوڑے۔ پہلا یہ کہ جب ہم جمہوریت اور آزادی کے علمبردار بن گئے ہیں تو ہم نے آخر اس شریف آدمی کو یہ موقع کیوں نہیں دیا کہ وہ اپنا نکتہ نظر بیان کرے۔ ہم اس پر تنقید کرسکتے تھے مگر ہم نے اسے آخر بولنے سے کیوں روکا؟ یہ غیر اخلاقی حرکت ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ کہ اصل مسئلہ ہے کیا؟ اور یہ کیا بنیاد ہے کہ چونکہ وہاں کی آبادی مسلمان ہے اس لیے اسے ہمارے ساتھ ہونا چاہیے اور یہ کہ مسلمانوں کے عقائد کیا ہیں؟ ان کا مذہب کیا ہے؟ یہ سوالات میرے ذہن میں ابھرے اور میں نے مسلمانوں کے حالات اور ان کے مذہب کو پڑھنے کا ارادہ کر لیا۔
اسی زمانے میں مصر نے سویز کو نیشنلائز کرنے کا ارادہ کرلیا۔ یہ فیصلہ امپریلزم پر ایک ضرب کاری تھا اور میں خوشی سے اچھل پڑا۔ پھر میں نے سوچا کہ ناصر مسلمان ہے اور مسلمان امپریلزم کے خلاف لڑ رہے ہیں اور اس بات نے اسلام میں میری دل چسپی کو بڑھا دیا۔ میں اسلام پر کتابوں کی تلاش میں نکلا اور ایک اسٹال پر میری نظر ایک کتاب پر جم گئی Road To Mecca میں نے کتاب خرید لی اور اس کو حرف بہ حرف پڑھا۔ اسے پڑھ کر میں اسلام کے بہت قریب آگیا۔
اب میں نے قرآن کا مطالعہ شروع کیا۔ یونیورسٹی لائبریری سے میں نے ایک انگریز کا ترجمۂ قرآن لیا۔ لیکن اس کے پہلے ہی صفحے پر پیغمبر اسلام پر اعتراض تھا۔ میں نے اسے بند کر دیا کہ جو شخص کتاب کا آغاز ہی اعتراض سے کرتا ہے اس کا ترجمہ قابلِ اعتماد نہیں ہوسکتا۔ پھر میں نے لائبریرین سے کہا کہ ایسا ترجمہ دو جو کسی مسلمان نے کیاہو۔ بڑی محنت کے بعد مجھے ایک ترجمہ ملا۔ محمد علی کا اور میں نے اس کا مطالعہ باقاعدگی سے کیا۔
پھر میںنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کیا اور مجھے اس عظیم انسانؐ کی زندگی کے حالات نے بڑا متاثر کیا۔ حضرت عیسیٰؑ کے مقابلے میں آپ کی پوری زندگی محفوظ تھی۔ یہ زندگی بڑی صاف‘ بڑی پاکیزہ‘ بڑی متاثر کن تھی۔ یہ شخص جو کہتا تھا اس پر عمل کرتا تھا۔ اس کے دوست‘ اس کے جانثار اور اس کے دشمن اسے امین کہتے تھے۔ اس کا کردار ہر شبہ سے بالا تھا‘ اس کی سچائی روزِ روشن کی طرح ظاہر تھی۔
میں نے پڑھا کہ چالیس سال کی عمر میں اس شخص پر وحی کی گئی۔ فرشتے نے سے کہا کہ پڑھ۔ اس نے جواب دیا ’’میں ان پڑھ ہوں کیسے پڑھ سکتا ہوں۔‘‘ کتنا سچا تھا یہ انسان۔
وحی کے اس واقعہ کو آکر اس نے اپنی زوجہ کو بتایا۔ اس کی بیوی کا پہلا ردعمل یہ تھا ’’آپ اطمینان رکھیں اور گھبرائیں نہیں۔ آپ نے کبھی کسی سے برائی نہیں کی‘ آپ کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا۔ آپ پر اللہ کا فرشتہ ہی نازل ہوا ہوگا۔‘‘ ظاہر ہے بیوی ایک ایسی ہستی ہے جس سے انسان اپنا کوئی عیب چھپا نہیں سکتا تھا۔ وہ ظاہر و باطن سب سے واقف ہوتی ہے۔ جس شخص پر سب سے پہلے اس کی بیوی ایمان لائی‘ وہ یقینا نہایت سچا آدمی ہی ہو سکتا ہے۔
پھر میں نے اس شخص کی تعلیم میں دنیا کے مسائل سے دل چسپی اور ان کو حل کرنے میں قوت بھی دیکھی۔ وہ زندگی سے کاٹتا نہیں‘ زندگی کو سنوارتا ہے‘ وہ معاشرتی اور تمدنی معاملات میں رہنمائی دیتا ہے اور ایک نئی تہذیب قائم کرتا ہے۔ جب میں نے اس عظیم شخص کی زندگی کا مطالعہ مکمل کر لیا تو میرے دل سے خود بخود ہی یہ آواز نکلی کہ ’’اللہ ایک ہے اور محمدؐ اس کے سچے رسول ہیں۔‘‘
یہ عجیب بات ہے کہ جب میں یونیورسٹی لائبریری سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا اور پہلی مرتبہ دیکھا حالانکہ میں اس سڑک سے بارہا گزر چکا تھا کہ قریب ہی ایک مسجد ہے جس پر لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ لکھا ہوا ہے۔ مسجد کا اس طرح میری آنکھوں کے سامنے ہونا ایک معجزہ تھا۔ میں اس میں داخل ہوا اور میں نے اعلان کیا لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ۔
یہ ہے میرے قبولِ اسلام کی داستان۔
سوال۔ عالم اسلام کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے جن حالات میں آج کل مسلمان گھرے ہوئے ہیں‘ ان کے متعلق آپ کا تجزیہ کیا ہے؟
جواب: ان حالات کے متعلق میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ اگر عالمِ اسلام کو دیکھ کر میرے اسلام لانے کا سوال ہوتا تو میں کبھی مسلمان نہ ہوتا۔ مسلم دنیا میں آج کوئی ایسی چیز نہیں جو قبولِ اسلام کی تحریک کرتی ہو اور یہ بڑی تکلیف دہ صورت حال ہے۔ میں نے ہند و پاکستان کا بڑی تفصیل سے دورہ کیا ہے۔ عرب ممالک کے مسلمانوں سے لندن میں ملنے اور ان کے حالات کو سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ افسوس مسلمان ان تمام خوبیوں کو چھوڑ چکے ہیں یا چھوڑتے جارہے ہیں جو اسلام نے ان کو سکھائی تھیں بلکہ آپ یقین کریں کہ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یورپ ’’لادین یورپ‘‘ کئی حیثیتوں سے مسلمانوں سے زیادہ مسلمان ہے۔ اسلام نے ہمیں صفائی اور طہارت کی تعلیم دی‘ مسلمانوں کو صفائی اور حفظانِ صحت کا کچھ خیال نہیں۔ اسلام ہر حال میں وعدے کے ایفا کی کی تعلیم دیتا ہے‘ مسلمان کو آج عہد کا کوئی پاس نہیں۔ اسلام وقت کی پابندی کا مطالبہ کرتا ہے‘ ہمارے یہاں آج پاکستان میں ٹائم کے معنی وقتِ مقررہ سے دو گھنٹے پہلے یا دو گھنٹے بعد کے ہیں۔ اسلام حرکت اور عمل کی ترغیب دیتا ہے اور مسلمان آج بیٹھے بیٹھے ان شاء اللہ اور ماشاء اللہ کہتے رہتے ہیں۔ یہ الفاظ انکی گاہ میں آج محض دو بغیر معنی کے بول بن کے رہ گئے ہیںجب وہ ان شاء اللہ کہتے ہیں تو کبھی سوچتے نہیں کہ اللہ کی منشا کیا ہے اور اس نے اس کے پورا کرنے کا کیا راستہ بتایا ہے۔ جب وہ ماشاء اللہ کہتے ہیں تو یہ خیال ان کو نہیں آتا ہے کہ کامیابی کا ایک ایک طریقہ بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے۔
مختصراً ہمارا تین بڑے طبقے ہیں اور تینوں کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہیں۔ عوام جہالت کا شکار ہیں‘ ان کے سامنے نہ کوئی مقصد ہے اور نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ علمائے دین حقائق سے کٹ گئے ہیں اور بسم اللہ کے گنبد میں محصور ہیں۔ جب کہ متوسط کاروباری طبقہ توہمات کا شکار ہے۔ وہ اسلام اور اس کے مطالبات کا کوئی واضح نقشہ اپنے سامنے نہیں رکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ہم عدمِ توازن اور بے اعتدالی کا شکار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تینوں طبقات میں پورا پورا تعاون ہو اور ہر ایک اپنا اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کرے تاکہ تعمیر و ترقی رونما ہو سکے۔
سوال: مسٹر ویبسٹر حالات واقعی مایوس کن ہیں‘ لیکن کیا آپ کو امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے؟
جواب: یقینا اوّل تو اسلام اللہ کا دین ہے اور اس کی ترقی اور ترویج کے لیے وہ خو د بندوبست کرتا ہے۔ اگر آج کے مسلمان اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کریں گے تو وہ کسی اور قوام کو اس کا علمبردار بنا دے گا تاکہ وہ اس کی حقیقی خدمت انجام دے۔ تاریخ ہماری محتاج نہیں۔ ماضی میں بھی اللہ تعالیٰ نے مختلف قوموں سے کام لیا اور مستقبل میں بھی وہ ایسا انتظام کرسکتا ہے۔ چنانچہ حالات کی سنگینی کے باوجود میرے نزدیک مایوسی کا کوئی سوال نہیں ۔
پھر عالمِ اسلام میں بھی امید کی ایک کرن نظر آرہی ہے اور وہ جدید احیائی تحریکات ہیں۔ اخوان المسلمون اور جماعتِ اسلامی اس سلسلے میں بڑی اہم ہیں۔ ان تحریکات کے قائدین سے مل کر میں نے محسوس کیا کہ وہ اسلام کا حقیقی تصور پیش کررہی ہیں۔ اسلامی ریاست کے ارتقا کی جس نہج کو وہ پیش کر رہی ہیں وہ بڑا امید افزا ہے لیکن ان تحریکات کے متعلق جو چیز کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پروگرام میں تعلیمی اور عوامی کام اور سیاسی کام میں توازن قائم نہیں رکھا اور سیاست پر Emphasis کی وجہ سے بہت سی دوسری ضروری چیزیں پوری نہیں ہوسکی ہیں۔
سوال: آپ کے خیال میں مسلمانوں کا رویہ مغرب کے بارے میں کیا ہونا چاہیے؟
جواب: مغرب مادّیت اور الحاد کا علمبردار ہے۔ اسلام کو اس سے کوئی علاقہ نہیں۔ مغرب سامراج اور امپریلزم کا حامی ہے۔ اسلام ان کا دشمن ہے۔ اسلام زندگی کو اخلاقی اور روحانی بنیادوں پر قائم کرتا ہے‘ وہ ترقی کا مخالف نہیں‘ اس کی صحیح نہج کو متعین کرتا ہے۔ اس میں رہبانیت نہیں ہے‘ تصوف نہیں ہے‘ توہم نہیں ہے۔ اسلام تو زندگی کا سیدھا راستہ ہے جو روحانی اور اخلاقی دونوں قسم کی ترقی چاہتا ہے۔ میرے خیال میں مسلمانوں کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے کلچر پر قائم رہیں اور اس کو مستحکم کریں۔ مغربی کلچر‘ مغربی تہذیب‘ مغربی اصولوں کو اختیارکرنا ہمارے لیے مہلک ہوگا۔ ہماری ترقی مغرب کی نقالی میں نہیں‘ اپنے طریقہ کے اتباع میں ہے۔ پھر مغرب خود اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہے اور جو خود دیوالیہ ہو وہ دوسروں کی رہنمائی کیا کرے گا؟ حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا تھا کہ اگر ایک اندھا دوسرے کی رہبری کرے گا تو دونوں گڑھے میں گریں گے۔
ہمارے پاس اسلام کی روشنی موجود ہے پھر ہم بصیرت سے محروم یورپ کی تقلید کیوں کریں۔ لیکن کچھ چیزیں ہیں جن میں ہم یورپ سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں مثلاً عمل اور جدوجہد کا جذبہ‘ صحت و صفائی کے اصول‘ سائنسی ترقی۔ ان تمام چیزوں کو جو دراصل اسلام ہی سے مستعار ہیں‘ ہم اختیار کرسکتے ہیں اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔