جامعات سے شائع ہونے والے تحقیقی مجلے افسوسناک صورتحال ،پست معیار

832

پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل سے تحقیق کے موضوع پر تفصیلی تبادلہ خیال
(چوتھا حصہ)
تقریبا ً تمام ہی جامعات سے کئی تحقیقی مجلے شائع ہورہے ہیں،آپ ان کے معیارکے حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں ؟ تو اس سوال کے جواب میں
ڈاکٹر سید معین الدین عقیل کا کہنا تھا کہ واقعی اب تقریبا ً تمام ہی جامعات سے تحقیقی مجلے شائع ہورہے ہیں لیکن یہاں بھی افسوس ناک ہی صورت ِ حال ہے۔جب کہ ایچ ای سی نے آغاز میں ایک بہت مثبت اقدام یہ کیاتھا کہ اساتذہ کے لیے ہر سال کم از کم دو تحقیقی مقالات مسلمہ اور معیاری تحقیقی مجلوںمیں شائع کروانا لازم قرار دیاتھا۔اس مد میں خود ایچ ای سی لاکھوں روپے ہر سال خرچ کررہی ہے یعنی جو مجلے نکل رہے ہیں ان کا خرچ یونیورسٹیاں نہیں ایچ ای سی برداشت کررہی ہے۔شروع میں ایچ ای سی ان مجلوں کوتسلیم کرنے یا منظوری دینے میں کڑی شرائط کو پیش ِ نظر رکھتی تھی اور قدرے ان پر عمل بھی ہوتاتھا اور کئی رسائل مجلوں کی صف میں شامل نہ ہوسکتے تھے لیکن اب کئی سالوں سے یہ معاملات دگرگوں ہیں۔اب اگر انفرادی سطح پر آپ مجھ سے پوچھیں کہ ملک کی کس یونیورسٹی سے بہت معیاری اور عالمی سطح و معیار کا مجلہ نکلتاہے تو میں ایک یا دو کے علاوہ شاید کوئی نام نہ گناسکوں۔ان ایک دو کے علاوہ تقریبا ً سب ہی مجلے، جو کہلاتے تو مجلے ہیں لیکن عام رسائل سے بڑھ کر ان کا معیار نہیں ہے، جن میں انتہائی سرسری و سطحی مضامین، تحقیقی لوازم کا لحاظ رکھے بغیر شائع ہوجاتے ہیں اوران میں چھپنے والے مضامین’’ تحقیقی مقالہ‘‘ سمجھے جاتے ہیںَ۔نہ ان میں یکساں اور معیاری رسمیات و اصول برتے جاتے ہیں نہ ان میں معیاری اور بنیادی و ثانوی اسناد و ماخذ کا فرق واضح ہوتاہے نہ ان کا لحاظ رکھاجاتاہے۔پھر ان میں حواشی و اسناد کے درج کرنے، کتابیات ترتیب دینے کے متعینہ اصول موجود ہوتے ہیں نہ اس ضمن میں کسی بین الاقوامی اصول و ضوابط کی پابندی کی جاتی ہے۔یہ کام ایچ ای سی کا بھی تھا یا خود یونیورسٹیوں کو اپنے لیے کوئی باقاعدہ اصول ترتیب دے کر ان کی پابندی کرانی چاہیے تھی لیکن یونیورسٹیوں میں کسی میں یہ بصیرت ہی نہیں کہ وہ اس کام کی اہمیت کو سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہوتیں اور اپنے لیے خود مناسب و معیاری اصول و رسمیات طے کرتیں یا کسی عالمی معیار کے مقررہ و مسلمہ اصولوں یا رسمیات کورائج کرلیتیں۔پھر ان معیاری اصولوں کو اختیار کرنے کے علاوہ یہ بھی ضروری تھا کہ مجلے میں شائع کیے جانے والے مقالات پرمتعلقہ موضوع کے دوماہرین سے منظوری لی جاتی لیکن یہاں یہ اہتمام اس لحاظ سے نہیں ہوتا کہ وہ ماہرین ایک مستند و مؤقر شہرت و مرتبے کے حامل ہوںبلکہ ان کے بجائے دوست احباب، جان پہچان اور قریبی افراد سے رائے لے لی جاتی ہے اور کاغذی خانہ پری کرلی جاتی ہے کہ مقالے پر ماہرین کی منظوری Peer Review لے لی گئی۔ جب کہ شرط دو ماہرین کی آرا و منظوری کا حصول ہے لیکن بالعموم ایک ہی شخص سے رائے لے لی جاتی ہے۔متعدد یونیورسٹیوں میں،سائنس اور بعض شعبوں میں، تو یہ بھی ہورہاہے کہ شعبے ہی کے چند دوست احباب مل کرایک رسالہ جاری کرلیتے ہیں اورآ ٓپس ہی میں خود کو ماہر قرار دے کر، سمجھ کرایک دوسرے کے مقالات پر منظوری کی رائے لکھ لیتے اور مقالہ شائع کرلیتے ہیں۔ایچ ای سی انھیں رقم بھی فراہم کردیتی ہے لیکن پلٹ کر ان مقالات یا رسائل(مجلوں)کے معیارکو نہیں جانچتی۔ہر جگہ اس معاملے میں بھی دھوکا دہی اور جھوٹ و فریب عام ہے اور عام سے ماہنامہ رسالوں کی سطح کے جریدے مجلے قرار دیے جارہے ہیں اور ان میں چھپنے والے مضامین پر اساتذہ بے پناہ فوائد سے بہرہ مند ہورہے ہیں۔ اس صورت حال میں دو ایک جو معیاری مجلے اکا دکا جامعات سے شائع ہوتے ہیں وہ بھی اس صورت حال میں نیک نامی حاصل نہیں کرپاتے۔یہ سب ایچ ای سی کی بے نیازی کے سبب ہے کہ اس نے اصول و ضوابط تو طے کردیے لیکن پلٹ کر یہ نہیں دیکھتی کہ ان اصولوں کو کس کس طرح پامال کیاجارہاہے۔وہ اساتذہ سے تحقیقی مقالات کا مطالبہ تو کرتی ہے لیکن یہ نہیں دیکھتی کہ وہ کس طرح کے رسائل میں مقالات چھپوارہے ہیں، ان کے مقالات، اور جہاں وہ شائع ہورہے ہیں ان کا معیار واقعی معیار ہے؟ اگر وہ معیاری ہیں تو کیا ایچ ای سی نے کبھی ان مقالات یا ان مجلوں کا Impact Factor جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیاہے، کتناہے؟ایسے کسی مقالے کو جس کا کوئی Impact Factor نہ ہو، یعنی وہ آن لائن آکرکسی اور تحقیق کے لیے ماخذ نہ بناہو، اور اس سے کسی نے استفادہ نہ کیاہو،شمار میں نہیںلایا جاتا۔ اب تو عالمی سطح کے جرنلز کے پرانے پرانے شمارے بھی آن لائن آچکے ہیں، جس کی وجہ سے اب ان کا Impact Factor جانچاجاسکتاہے۔اس جائزے سے بھی ان مجلوں اور ان میں چھپے ہوئے مقالات کے معیار کو بہت آسانی سے جانچاجاسکتاہے اور ان کے مطابق اساتذہ کی تحقیقات کے معیار اوران کی ترقیوں اور مناصب کا فیصلہ کیاجاسکتاہے۔اس کے لیے سب سے آسان طریقہ مقالات کے اثرات کو دیکھنا ہے جو Citation یا ان اعداد و شمار کے توسط سے کیاجاسکتاہے کہ کسی مقالے کو کتنی بار کسی نے پڑھا یا اس سے استفادہ کیا۔جتنی بار وہ کسی کے مطالعے میں آیا اس کے مطابق اس کے اثرات کا جائزہ سامنے آتاہے اس لیے کسی استاد کو اگر اعلیٰ سطحی ترقی دی جانی ہو جیسے صدر شعبہ۔ ڈین، وائس چانسلر یا جیسے ۲۲ ویں درجے میں ترقی تو اس کے لیے مناسب ہوگا کہ اس کے مقالات کے استفادے کے اعداد و شمار Citation یا اس کے اثرات Impact factor کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کیے جائیں۔یہ سارے کام ایچ ای سی کے کرنے کے ہیں جسے ان کاموں کے لیے خود کو مستعد ہونا چاہیے یا اگر فی الوقت اس کے پاس وسائل نہیں ہیں تو اسے کسی بیرونی ادارے سے، جو اس قسم کے پیشہ ورانہ کام کرتے ہیں، مدد لینی چاہیے۔ یہ سب اس وقت ممکن ہے جب ایچ ای سی میں بصیرت اور خلوص و مستعدی جیسی صفات موجودہوں۔
اس جائزے سے بھی ان مجلوں اور ان میں چھپے ہوئے مقالات کے معیار کو بہت آسانی سے جانچاجاسکتاہے اور ان کے مطابق اساتذہ کی تحقیقات کے معیار اوران کی ترقیوں اور مناصب کا فیصلہ کیاجاسکتاہے۔
یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ تحقیق کس زبان میںہونی چاہئیے کئی یونیورسٹیوں میں ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے اردو زبان میں لکھنے پر پابندی ہے۔آپ اس کو کس طرح دیکھتے ہیں؟توآپ کا کہنا تھا کہ’’ غلامانہ ذہنیت کے لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔یہ اس حقیقت کا کوئی ادراک نہیں رکھتے کہ ہماری قوم کو اس ذہنیت نے اب تک کس قدر ناقابل ِ تلافی نقصان پہلے ہی پہنچایاہے۔ وہ شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ اعلیٰ ترین تحقیقات جاپان، چین، جرمنی،فرانس، اٹلی، اسپین، روس اور یورپ کے متعددملکوںکی جامعات اور تحقیقی اداروں میں بھی ہوتی ہیں اور ان کی اپنی زبانوں میں ہوتی ہیں۔ صرف برطانیہ، آسٹریلیا اور امریکہ فقط تین ممالک ہیں جہاں انگریزی میں تحقیقات کی جاتی ہیں۔مذکورہ سات ممالک کی جامعات اور ان میں ہونے والی تحقیقات شاید برطانیہ اور امریکا میں ہونے والی جامعات کے مقابلے میں تعداد اور معیارمیں کسی طرح کم نہیں۔جب وہاں انگریزی کے بجاے ان ممالک کی اپنی زبانوں میں تحقیقات ہوسکتی ہیں تو اردو میں کیوں نہیں ہوسکتیں؟ جب کہ اردو زبان اپنے ذخیرہ ٔالفاظ اور اسالیب و پیرایہ بیان میں یورپ کی متعدد زبانوں سے زیادہ با ثروت اور ترقی یافتہ ہے۔پھر اس میں سائنس اور تمام ہی علوم میں ہر طرح کے موضوعات میں تحقیقی مطالعات کی روایت بھی ڈیڑھ سو سال پر محیط اور ہر طرح سے مستحکم ہے۔چند افراد کا صرف اپنی ذہنی اور قلبی وابستگیوں کے بناپر جو انھیں انگریزی زبان اور انگریزی داں ملکوں سے ہے، اپنی قومی اور ملی امنگوں، ضرورتوں اور روایات کو نظر انداز کرنا صرف اور صرف ذہنی کم مائیگی اور افلاس کا ثبوت ہے کوئی منطقی اور علمی جواز نہیں۔پھر انھیں یہ بھی اندازہ نہیں کہ اردو زبان اپنی علمی ثروت اور وسعت و ترقی کے ساتھ ساتھ ایک قانونی جواز اور حیثیت بھی رکھتی ہے جسے کسی بھی سطح پر نظر انداز کرنا غیر قانونی اور توہین عدالت کے زمرے میں آتاہے۔ اس لیے کراچی یونیورسٹی ہو یا بہاولپور یونیورسٹی،اردو میں تحقیقی مقالہ لکھنے پر پابندی عائد کرنا قطعی غیرقانونی اور غیرعلمی رویہ ہے جو قابل مذمت ہے۔ہاں اگر کوئی انگریزی میں لکھنا چاہتاہے تو شوق سے لکھے اس پر کوئی رکاوٹ نہ ہونی چاہیے لیکن اردو میں نہ لکھنے دینا باعث شرم اور غیر قانونی اقدام ہے۔اس اقدام کی ہر سطح اور ہر مقام پر مذمت ہونی چاہیے۔ اس اقدام سے ننانوے فیصد طلبہ اور جیسی تیسی تحقیقی سرگرمیاں اور ذوق و شوق سب ہی بری طرح متاثر ہوں گے۔ہمارے ہاں اب تک جو سندی مقالات برائے ایم فل یا پی ایچ ڈی انگریزی میں لکھے گئے ہیں ان میں کیا کوئی مقالہ ایسا ہے جس نے عالمی سطح کی تحقیق میں کوئی امتیاز حاصل کیاہے؟ اور دیگر تحقیقات کامحرک یا ملتزم و محوربناہے؟ بالعموم جب ہمارے مقالات ممالک غیر میں انگریزی داںممتحن حضرات کے پاس جاتے ہیں تو ان کی زبان و بیان پرجو تمسخر اڑتاہے وہ شاید ان حضرات تک نہیں پہنچتا۔ انھیں شایدیہ بھی معلوم نہیں کہ بہت سے لائق ممتحن ہمارے مقالات کی کمزورانگریزی زبان کے باعث انھیں جانچنے ہی سے انکار کردیتے ہیں چناں چہ قرعۂ فال ان ممتحنین کے نام نکلتاہے جنھیں بالعموم کوئی پوچھتانہیںیا جو برطانیہ یا امریکا کے بجائے کہیں تیسری دنیاکے ممالک میں آباد ہیں یا اصلا ً پاکستانی ہیں اور وہاں جا کر آباد ہوگئے ہیں۔یوں کم سواد مقالات بھی شادکام ہوجاتے ہیں۔ان حقائق کے سبب محض انگریزی میں مقالات لکھنے کے احکامات کی سختی سے مذمت ہونی چاہیے اور انھیں خلاف قانون اور انسان کے بنیادی حقوق کے منافی قراردے کر رد کیاجانا چاہیے۔
(جاری ہے)

حصہ