’’ امی جلدی سے مجھے ناشتہ دے دیں پھر میں نے آج ایک اور جگہ انٹرویو دینے جانا ہے۔‘‘
’’زبیر بیٹا! بیٹھ جاؤ ناشتہ تیار ہے اللہ تمہیں کامیاب کرے۔‘‘
’‘بس امی دعا کیجیے گا میں تو تھک گیا ہوں دھکے کھا کھا کر آپ اور ابو مجھے بیرون ملک اپلائی کرنے کی اجازت دے دیتے تو میں کب کا اپنی زندگی سیٹ کر چکا ہوتا مگر پتا نہیں آپ کو اس پاکستان میں کیا نظر آتا ہے ایک اچھی نوکری تک تو مل نہیں سکتی یہاں…‘‘
’’اچھا ابھی تو تم جاؤ شام کو آرام سے بات کریں گے۔‘‘
’’اچھا امی اللہ حافظ… دعا کرتی رہیے گا۔‘‘
شام کو زبیر واپس آیا تو امی نے اس کے لیے چائے بنائی اور صحن میں لے کرآگئیں جہاں زبیر اداس بیٹھا تھا۔
امی زبیر کو چائے دیتے ہوئے بولیں ’’بیٹا! تم نے صبح مجھ سے شکوہ کیا تھا کہ میں اور تمہارے ابو تم کو بیرون ملک اپلائی کرنے کی اجازت کیوں نہیں دیتے‘ تو بیٹا! تم کو نہیں پتا کہ ہمارے بڑوں نے کتنی قربانیاں دے کر یہ وطن حاصل کیا تھا۔ تم تو ابھی کچھ دن پہلے ہی تعلیم حاصل کر کے فارغ ہوئے ہو اور چند ایک جگہ انٹرویو دے کر ہی گھبرا گئے ہو آج میں تمہیں اپنے علاقے کا سچا واقعہ سناتی ہوں جس سے تم کو شاید اندازہ ہو جائے ہماری اس وطن سے محبت کا۔
میرے امی ابو اور خاندان کے دوسرے لوگ پاکستان بننے سے پہلے ہندوستان کے شہر آگرہ میں رہتے تھے میں اور مجھ سے دو بڑی بہنیں اور تھیں‘ بھائی ہمارا کوئی نہیں تھا‘ میرے ابو تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور اسی وجہ سے محلے کے شر پسند ہندو اور سکھ ابو سے بے انتہا خار کھاتے تھے مگرکھل کر اظہار نہیں کرتے تھے۔ جوں جوں تحریک زور پکڑ رہی تھی بلوائی بھی اپنی اوچھی حرکتیں دکھاتے رہتے تھے۔ پھر اس رات جب وہ واقعہ ہوا میں دو دن پہلے اپنی نانی کے گھر رہنے گئی ہوئی تھی اس رات ابو محلے کی ایک کارنر میٹنگ میں ایک پر جوش تقریر کر کے آئے تھے‘ اپنے الگ وطن کی حمایت میں محلے کے انتہا پسند ہندوئوں نے مل کر پروگرام بنایا کہ آج تو اسے چھوڑیں گے نہیں اور اس مسلے (مسلمان) کو سبق سکھا کر رہیں گے۔ رات اپنے گندے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چار ہندو لڑکے گھر میں خاموشی سے کودے اور ابو کو سوتے میں ہی جکڑ لیا ابو نے کافی دیر تک ان غنڈوں کا مقابلہ کیا مگر ان چاروں نے ابو کو صحن میں موجود پلر سے باندھ دیا اور بولے اب تو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی دونوں جوان بیٹیوں کا تماشا دیکھے گا ابو نے دکھ اور کرب کے عالم میں اپنی آنکھیں بند کرلیں اور چلائے ’’بے شرموں چھوڑ دو میری بیٹیوں کو اگر ہمت ہے تو مجھ سے مقابلہ کرو…‘‘
مگر بزدل اور بے غیرت ہندوئوں میں اتنی ہمت کہاں سے آتی اور پھر ایک باپ پر وہ قیامت آئی جسے لفطوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ کتنے ہی گھنٹے گزرے میری امی جو پہلے ہی اَدھ مری پڑیں تھی انھوں نے بمشکل اٹھ کر پہلے دونوں زخموں سے چور بہنوں پر چادریں ڈالیں اور پھر ابو کو رسیوں سے آزاد کیا ابو کے ہاتھ کھلتے ہی ابو باہر کی طرف بھاگنے لگے کہ ان بدمعاشوں کو نہیں چھوڑوں گا امی نے بڑی مشکل سے ابو کو روکا اتنے میں ایک زوردار چھپاکے کی آواز آئی دونوں نے چونک کر دیکھا تو میری دونوں بہنیں نہ جانے کس طرح ہمت جمع کر کے صحن کے کونے میں بنے کنویں تک پہنچ کر ایک ساتھ کنویں میں کود کر اپنی جان دے چکی تھیں۔ یہ منظر دیکھتے ہی میری امی دل پکڑ کر ایسے بیٹھیں کہ پھر دوبارہ اٹھ نہ سکیں۔ اُس کالی رات کی صبح میرے گھر سے تین جنازے اٹھے تم بتاؤ میں اس وطن سے نفرت کیسے کروں جس کی بنیادوں میں میرے پیاروں کا لہو شامل ہے‘ میں کیسے اس مٹی کو چھوڑ کر تمہیں کہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دے دوں؟ میرے بچے! اس وطن میں رہ کر اس کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرو نہ کہ اس سے نفرت کا اظہار کرو۔‘‘
اور زبیر پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اپنی ماں کے گلے لگ گیا اور بولا ’’امی مجھے معاف کر دیں میں آئندہ کبھی پاکستان چھوڑنے کی بات نہیں کروں گا‘ میں پاکستان میں رہ کر کم میں گزارا کر لوں گا مگر کبھی آپ کا اور ابو کا دل نہیں دکھاؤں گا۔ جیسی محبت آپ پاکستان سے کرتی ہیں اتنے ہی خلوص سے میں پاکستان کے لیے کام کروں گا۔‘‘
’’جیتے رہو بیٹا!‘‘ امی نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ زبیر کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔