قرآن کا نیا اور آسان ترجمہ ،اس کے مترجم محمد عبدالحلیم فاروقی سے بات چیت
تمام انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا خاص انعام اور تحفہ قرآن ہے۔قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام، اس کی آخری کتاب اور اس کا ایک معجزہ ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ قرآن نے اپنے سے پہلے کی سب الہامی کتابوں کومنسوخ کردہا ہے۔ اور ان میں کوئی بھی آج اپنی اصل صورت میں محفوظ نہیں۔ البتہ قرآن تمام پہلی کتابوں کی تعلیمات کو اپنے سمیٹے ہوئے ہے۔اور قرآن مجید واحد ایسی کتاب ہے جو پوری انسانیت کے لیے رشدوہدایت کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب ِ ہدایت میں انسان کو پیش آنے والے تمام مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے۔ مسلمانوںکی دینی اوردنیاوی زندگی کی کامیابی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑھا، سمجھا اورعمل نہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے تراجم اردو سمیت دنیا کی تمام اہم زبانوں میں ہوچکے ہیں۔
اردو میں قرآن کریم کا پہلا ترجمہ حکیم محمد شریف خان دہلوی متوفی1807ء نے کیا ، مگر وہ کبھی شائع نہ ہوسکا۔ اس لیے شاہ ولی اللہ کے صاحبزادوں شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر کے ترجمے کو اردو میں قرآن کا پہلا ترجمہ قرار دیا جاتا ہے ۔ انہوں نے 1788ء ہی میں مکمل کرلیا تھا ۔ شاہ عبدالقادر کاترجمہ شاہررفیع الدین کے ترجمے سے پہلے 1805ء میں شائع ہوا۔اور شاہ رفیع الدین کا نصف صدی بعد 1838ء میں ممکن ہوا۔
اس کے بعد مختلف ادوار میں لفظی اور سلیس اردو میں ترجمے ہوتے رہے۔
قرآن چونکہ تمام انسانیت کے لیے کتاب ہدایت ہے اس وجہ سے مترجم محمد عبدالحلیم نے ٹائٹل میں اسے ’’آسان ترجمہ قرآن مبین : سب کے لیے‘‘ لکھا ہے۔ جوایک حقیقت بھی ہے۔ اس ترجمے کی تکمیل کو وہ اب ایک خواب سمجھتے ہیںکہ اس فضلِ خاص پر اللہ ربّ العزت کا ہرسانس پر شکر ادا کریں تو بھی کم ہے۔
حال ہی میں شائع ہونے والا آرکیٹیکٹ محمد عبدالحلیم فاروقی کا ترجمہ ’قرآن مبین‘ اتنا آسان، سہل ،رواں اور عام فہم ترجمہ قرآن ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد دل چاہتا ہے کہ ایک ہی نشست میں پورے ترجمہ ٔ قرآن کا مطالعہ کرلیا جائے۔
’’قرآن مُبین‘‘ کے تام سے شائع ہونے والے اس ترجمے کا بنیادی مقصدیہ ہے کہ ایک عام آدمی چاہے کتنا ہی کم پڑھا ہوا کیوںنہ ہو وہ بھی اس ترجمے سے قرآن کو آسانی سے سمجھ لے اورقرآن کومشکل کتاب نہ سمجھے اور اس کا تعلق قرآن عظیم سے جڑ جائے اور قرآن سے براہِ راست استفادے کا سبب بن جائے۔ انسان کی یہ تمنا نہ رہ جائے کہ کوئی نسخہ ترجمہ ایسا ہوتا جسے پڑھ کر ایک عام آدمی بھی قرآن کو سمجھ سکتا۔ اس وجہ سے اس ترجمہ قرآن مبین میں نہایت آسان اور سادہ الفاظ میں ترجمہ بول چال کے انداز میں بیان کیا گیا ہے، جیسا قرآن مبین کا انداز ہے۔
اس ترجمے کی مترجم نے کیوں ضرورت محسوس کی، کو ’’وجۂ سبب ترجمہ قرآن مبین میں بیان کی ہے، جو کہ قرآن کریم کے مطالعہ کا نچوڑ ہے۔ کتاب کی ترتیب میں جدتِ تخلیق ہے، آغاز سے تکمیل تک۔
پہلے میں اس کے مترجم انجینئر محمد عبدالحلیم فاروقی کے بارے میں کچھ بتاتا چلوں، جو میرے دورِ طالبعلمی کے دوست ہیں اوروہ اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن اور ہمارے حلقے (عزیز آباد، کراچی) کے ناظم بھی تھے۔ ان کے والدین کا علمی گھرانے سے تعلق ہے اور والدین حیدرآباد دکن سے ہجرت کرکے پاکستان آئے اورکراچی میں سکونت اختیار کی۔
عبدالحلیم نے 1975ء میں اس وقت کے داؤد انجینئرنگ کالج، کراچی سے بیچلر آف آرکیٹکچر کی ڈگری جامعہ کراچی سے حاصل کی ۔ 1982ء میںMIT- USAکا Housing in Islamic Cultures کا آغا خان کا ایڈوانس کورس کیا۔
1972ء میں والدہ محترمہ کے ساتھ حج کی سعادت نصیب ہوئی اور ماہِ رمضان المبارک سے ماہِ محرم تک ساڑھے چار ماہ ارضِ مقدس میں گزارے ۔ اس کے بعد ہی حرمین شریفین کی محبت میں ایسے گرفتار ہوئے کہ سوتے جاگتے وہیں کے خواب دیکھنے لگے، ان خوابوں کی تعبیر جنوری 1990ء میں حقیقت کا روپ اختیار کرگئی اور ان کا مسجد حرام کی دوسری بڑی توسیع کے آرکیٹکٹ کی حیثیت سے تقرر ہوگیا۔ انہوں نے حرم شریف کے سینئر آرکیٹکٹ کی حیثیت سے تقرر ہوگیا۔
صفا اور مروہ کی توسیع کے علاوہ بیت اللہ شریف کی تعمیر کے لیے بھی محمد عبدالحلیم فاروقی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس دوران مسلسل 217 دن بیت اللہ کے اندر رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
میوزیم حرمین شریفین کے مجرد خیال آغاز و انتہا ، ڈیزائن ، تعمیر ، تحسین اور ہر مرحلے کے آرکیٹکٹ بھی رہے۔ وزیر رئیس الحرمین شریفین الشیخ عبداللہ بن السبیل نے تعریفی سند اور شیلڈ سے نوازا۔
اس کے علاوہ مسجد نبوی ؐ کی توسیع اور دیگر تعمیراتی کاموں کے سلسلے میں مدینہ منورہ میں چارسال اورپھرریاض میں چارسال اور اس کے بعد مکہ مکرمہ اور جدہ میں ساڑھے چار سال قیام رہا اس دوران مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں آئمہ حرمین اور کبار علمائے کرام کی مجلسوں میں شرکت کا موقع ملتا رہا اور ان سے فیض بھی حاصل ہوتا رہا ۔
یہ ترجمۂ قرآن مبین اپنے طرز اور اندازِ تحریر میںپہلی منفرد کوشش ہے۔ جس کا مجھے اس کے مطالعہ میں بخوبی اندازہ ہوا۔ ایک اور ممتاز چیز اس میں ’’ توجہ اور ترغیب قرآن‘‘ اور اسمائے قرآن جو قرآن مبین میں آئے ہیں،ایک جدول میں تحقیق کرکے حوالوں کے ساتھ تحریر کردئیے گئے ہیں۔
محمد عبدالحلیم فاروقی کا کہنا ہے کہ میں نے اس ترجمہ قرآن مبین میں یہ کوشش کی ہے کہ اسے ایک عام آدمی بھی چاہے کتنا ہی کم پڑھا ہوا کیوں نہ ہو، وہ بھی اس قرآن مبین کو آسانی سے سمجھ لے اورقرآن کو مشکل نہ سمجھے ۔اس وجہ سے عام بول چال میں بولے جانے والے الفاظ ہی اس میں استعمال کئے گئے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ لفظی ترجمے ہی میں ترجمانی کی کوشش کی ہے۔ عربی میں جس طرح ایک آیت کے الفاظ جس ترتیب سے آئے ہیں۔ اسی ترتیب میں جو بات بیان کی گئی ہے اس کی ایک اہمیت اور کیفیت ہے جو کہ پہلے آنے والی آیت کے بیان میں ایک ربط معلوم ہوتا ہے تو اُسی ربط اور تعلق کو لفظی ترجمے میں ترجمانی کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔تاکہ قرآن مبین کے اس خاص ربط کو قائم رکھتے ہوئے اسی طر ح سے بیان بھی ہو۔