فيض احمد فيضؔ
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب، سرِ رہگزار چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے شبِ اِنتظار چلی گئی
مرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر میرے غمگسار چلے گئے
نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکائتیں نہ شکائتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اِختیار چلے گئے
نہ رہا جنونِ رُخِ وفا، یہ رَسَن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہگار چلے گئے
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے
جاں نثار اختر
افق اگرچہ پگھلتا دکھائی پڑتا ہے
مجھے تو دُور سویرا دکھائی پڑتا ہے
ہمارے شہر میں بے چہرہ لوگ بستے ہیں
کبھی کبھی کوئی چہرہ دکھائی پڑتا ہے
چلو کہ اپنی محبت سبھی کو بانٹ آئیں
ہر ایک پیار کا بھوکا دکھائی پڑتا ہے
جو اپنی ذات سے اک انجمن کہا جائے
وہ شخص تک مجھے تنہا دکھائی پڑتا ہے
نہ کوئی خواب، نہ کوئی خلش، نہ کوئی خمار
یہ آدمی تو ادھورا دکھائی پڑتا ہے
لچک رہی ہیں شعاعوں کی سیڑھیاں پیہم
فلک سے کوئی اترتا دکھائی پڑتا ہے
چمکتی ریت پہ یہ غسلِ آفتاب ترا
بدن تمام سنہرا دکھائی پڑتا ہے
سیماب اکبر آبادی
چمک جگنو کی برقِ بے اماں معلوم ہوتی ہے
قفس میں رہ کے قدرِ آشیاں معلوم ہوتی ہے
کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
ہوائے شوق کی قوت وہاں لے آئی ہے مجھ کو
جہاں منزل بھی گردِ کارواں معلوم ہوتی ہے
قفس کی پتلیوں میں جانے کیا ترکیب رکھی ہے
کہ ہر بجلی قریبِ آشیاں معلوم ہوتی ہے
ترقی پر ہے روز افزوں خلش دردِ محبت کی
جہاں محسوس ہوتی تھی، وہاں معلوم ہوتی ہے
نہ کیوں سیماب مجھ کو قدر ہو ویرانیئ دل کی
یہ بنیادِ نشاطِ دو جہاں معلوم ہوتی ہے
احمد فراز
تڑپ اٹھوں بھی تو ظالم تری دہائی نہ دوں
میں زخم زخم ہوں پھر بھی تجھے دکھائی نہ دوں
ترے بدن میں دھڑکنے لگا ہوں دل کی طرح
یہ اور بات کہ اب بھی تجھے سنائی نہ دوں
خود اپنے آپ کو پرکھا تو یہ ندامت ہے
کہ اب کبھی اسے الزامِ نارسائی نہ دوں
مری بقا ہی مری خواہشِ گناہ میں ہے
میں زندگی کو کبھی زہرِ پارسائی نہ دوں
جو ٹھن گئی ہے تو یاری پہ حرف کیوں آئے
حریفِ جاں کو کبھی طعنِ آشنائی نہ دوں
مجھے بھی ڈھونڈ کبھی محوِ آئینہ داری
میں تیرا عکس ہوں لیکن تجھے دکھائی نہ دوں
یہ حوصلہ بھی بڑی بات ہے شکست کے بعد
کہ دوسروں کو تو الزامِ نارسائی نہ دوں
فراز دولتِ دل ہے متاعِ محرومی
میں جامِ جم کے عوض کاسۂ گدائی نہ دوں
جون ایلیا
کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے
جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے
شام ہوئے خوش باش یہاں کے میرے پاس آ جاتے ہیں
میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آ جاتے ہوں گے
وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا
آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے
اس کی یاد کی باد صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا
یوں ہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے
یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے
میرا سانس اکھڑتے ہی سب بین کریں گے روئیں گے
یعنی میرے بعد بھی یعنی سانس لیے جاتے ہوں گے
خمار بارہ بنکوی
وہ کون ہیں جو غم کا مزہ جانتے نہیں
بس دُوسروں کے درد کو پہچانتے نہیں
اِس جبرِ مصلحت سے تو رُسوائیاں بھلی
جیسے کہ ہم اُنھیں وہ ہمیں جانتے نہیں
کمبخت آنکھ اُٹھی نہ کبھی اُن کے رُوبرُو
ہم اُن کو جانتے تو ہیں، پہچانتے نہیں
واعظ خُلوص ہے تِرے اندازِ فکر میں
ہم تیری گفتگو کا بُرا مانتے نہیں
حد سے بڑھے توعلم بھی ہے جہل دوستو
سب کچھ جو جانتے ہیں، وہ کچھ جانتے نہیں
رہتے ہیں عافیّت سے وہی لوگ اے خمار
جو زندگی میں دل کا کہا مانتے نہیں
\عارف شفیق
جب بھی دشمن بن کے اس نے وار کیا
میں نے اپنے لہجے کو تلوار کیا
میں نے اپنے پھول سے بچوں کی خاطر
کاغذ کے پھولوں کا کاروبار کیا
میری محنت کی قیمت کیا دے گا تو
میں نے دشت و صحرا کو گلزار کیا
میں فرہادؔ یا مجنوں کیسے بن جاتا
میں شاعر تھا میں نے سب سے پیار کیا
اس کی آنکھیں خواب سے بننے لگتی ہیں
جب بھی میں نے چاہت کا اظہار کیا
اپنے پیچھے آنے والوں کی خاطر
میں نے ہر اک رستے کو ہموار کیا
اس کے گھر کے سارے لوگ مخالف تھے
پھر بھی عارفؔ اس نے مجھ سے پیار کیا
آفتاب مضطر
عہدِ جنوں بھی کیسا کرشماتی دور تھا
پانی میں بھی چراغ جلایا تو، جل گیا
کرگس پنَے سے عمر گزاری تو کیا کیا
کوے پنَے سے بات بنائی تو، فائدہ!؟
کیوں اُٹھ رہی ہے شہر کراچی سے شیونی
دل جل بجھے ہیں یا کہ سمندر ہی جل بجھا
کلے پُھلا پُھلائے سپیرا بجائے بین
ہے سانپ کو بھی شوق سپیرے کی بین کا
یہ پاورق ورق نہ کرو حاشیہ گری
بین السطور بات کہو، بات، برملا
تھی جس فضا میں چھائی ہوئی مردنی تمام
دل نے غزل سنائی وہاں تازہ واردہ
اس دن سے کافری نے اٹھایا تھا مجھ میں سر
جس دن کہ سخت زعم میں کہلایا وہ خدا
مت آئنہ بہ دست نکل اندھے شہر میں
او میرے یار، دوست مرے، میرے مضطرا
مارا نہ غمِ دوزخ و نے حرصِ بہشت است
بردار ز رُخ پردہ کہ مشتاقِ لقائیم
مولانا رومیؒ
شعر کاترجمہ
ہمیں نہ تو دوزخ کا کوئی غم اور ڈر ہے اور نہ ہی بہشت کی کوئی حرص اور خواہش ہے، بس تُو اپنے چہرے سے پردہ اُٹھا دے کہ ہم تو تیری دید ہی کے مشتاق ہیں۔