ہم کیوں مسلمان ہوئے

محمد جان ویبسٹر (انگلستان)

ذیل کا انٹرویو ماہنامہ ’’چراغِ راہ‘‘ کراچی کے شمارہ جون 1960ء میں شائع ہوا تھا اور اسے مدیر رسالہ پروفیسر خورشید احمد صاحب نے مرتب فرمایا تھا۔
…٭…
ویبسٹر سے میری پہلی ملاقات 1958ء میں ہوئی تھی۔ موصوف اسلامی کولوکیم میں شرکت کے لیے لاہور آئے تھے اور لاعلمی کے باعث قادیانیوں کے چکر میں پھنس گئے تھے۔ قادیانیت کے متعلق میرا ہمیشہ سے خیال ہے کہ اسے شعوری طور پر وہی قبول کر سکتا ہے جو یا تو اچھا خاصاغبی ہو یا کوئی مفاد اسے اس طرف لے جائے۔ ویبسٹر میں ان دونوں میں سے کوئی بھی چیز نہیں تھی‘ اس لیے چند ہی دنوں میں قادیانیت کا پول ان کے سامنے کھل گیا۔ ربوہ سے وہ مختلف شہروں میں گھومتے ہوئے کراچی تشریف لائے اور ہماری ملاقات چند ہی روز میں اچھی خاصی دوستی میں بدل گئی۔
ویبسٹر اور مجھ میں منجملہ اور چیزوںکے ایک چیز یہ بھی مشترک ہے کہ ہم دونوں خط لکھنے کے چور ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دو سال تک آنے جانے والوں کے ذریعے سلام برابر پہنچتے لیکن کسی نے بھی خط نہ لکھا۔ عید سے دو‘ تین دن پیشتر میں مطالعے میں مصروف تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف سے بولنے والے ہمارے دوست سرور صاحب تھے جو کہہ رہے تھے کہ مسٹر ویبسٹر آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ٹیلی فون پر ویبسٹر سے اس طرح اچانک گفتگو میرے لیے ایک خوش گوار سرپرائز تھا۔
ویبسٹر صاحب کراچی میں تقریباً ایک ماہ رہے۔ اس اثنا میں دسیوں اجلاسوں سے خطاب کیا اور بلاشبہ سینکڑوں افراد سے گفتگو کی۔ آج کا ویبسٹر دو سال پہلے کے ویبسٹر سے بہت مختلف تھا۔ اب اسلام پر اس کا مطالعہ بہت Up to Date ہے اور وہ صرف ایک مسلمان ہی نہیں ایک مبلغ بھی ہے۔ انگلستان میں اس نے ایک تبلیغی مشن میں بھی کام شروع کر دیا اور اس کی مساعی کے نتیجے کے طور پر انگلستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وہاں کے مشہور ہائیڈ پارک میں ایک اسلامک پلیٹ فارم قائم ہو گیا ہے‘ جہاں سے ہفتے کی ہر شام کو اسلام پر تقاریر ہوتی ہیں اور ان تقاریر کو ہزاروں افراد سنتے ہیں۔ اس وقت سب سے اچھی حاضری اسلامک پلیٹ فارم پر ہو رہی ہے اور ایک سال میں 112 غیر مسلم افراد حلقۂ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں۔ پر ویبسٹر کی ظاہری شکل و صورت میں بھی آگئی ہے۔ اب اس کے چہرے پر ڈاڑھی بھی ہے جو بھلی معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ ویبسٹر کی ڈاڑھی اور اس کے عام خط و خال مشہور جرمن نو مسلم علامہ محمد اسد سے بہت مشابہ ہیں۔
ویبسٹر کے قیام کراچی کے دوران میں نے ایک انٹرویو بھی لیا تھا جسے ہدیۂ قارئین کرتا ہوں۔
سوال: سب سے پہلے کیا آپ اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ آپ نے اسلام کیوں قبول کیا؟
ویبسٹر: آپ یقین جانیں کہ میرا قبولِ اسلام میرے لیے ایک ذاتی معجزہ سے کم نہ تھا۔ میں اسے معجزہ کیسی عیسائی اثر کی بنا پر نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ فیصلہ اتنا فوری اور اس درجہ غیر متوقع تھا کہ میں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ میرے اسلام لانے میں کسی مسلمان کا کوئی ہاتھ نہ تھا‘ کبھی کسی شخص نے مجھے اسلام کی دعوت نہیں پہنچائی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کبھی کسی مسلمان سے مجھے ربط ضبط کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ اسلام کی نعمت مجھے اپنی ذاتی جستجو اور تلاش سے حاصل ہوئی اور ایسے غیر متوقع طور پر حاصل ہوئی کہ میں اسے معجزہ کہنے پر مجبور ہوں۔ دوسروں کے لیے نہیں صرف اپنے لیے ذالک فضل اﷲ۔
سوال: پھر تو آپ ذرا تفصیل سے بتائیں کہ آپ اسلام کس طرح لائے؟
ویبسٹر: میں لندن کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میری والدہ بڑی نیک اور شریف خاتون ہیں اور بچپن میں مجھ پر سب سے زیادہ اثر اپنی والدہ کا پڑا۔ میں دیکھتا تھا کہ یہ نیک بی بی ہر اتوار کو گرجا جاتی ہیں اور اپنے تمام معاملات کو سچائی اور انصاف کے ساتھ پورا کرتی ہیں۔ اپنے محلہ کی تمام خواتین کی ہر ممکن مدد کرتی ہیں۔ کسی کو دوائی دے رہیں تو کسی کو نصیحت کر رہیں‘ کسی کے کام میں ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ غرض ہر حیثیت سے ان کی زندگی ایک اچھی خاتون کی زندگی تھی اور یہی اقدار میرے دل و دماغ پر رقم ہو گئیں۔ میں نے باقاعدگی سے چرچ جانا شروع کر دیا اور اپنی ماں کا ہر ممکن تتبع کرنے لگا۔ جب میں دس سال کا تھا اور میرے جذبات عیسائیت کے لیے بڑے مخلصانہ تھے تو ایک دن میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ ’’اے مالکِ حقیقی! میں اپنی زندگی تیرے لیے وقف کرتا ہوں تو میری رہنمائی فرما اور مجھے سیدھا راستہ دکھا۔‘‘ پھر میں نے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ اس زمانے میں سالویشن آرمی (Salvation Army) کا بڑا چرچا تھا‘ میں اس میں شریک ہو گیا اور پوری سرگرمی سے اس کے پروگراموں میں شامل ہونے لگا۔
چند ہی برسوں میں‘ میں نے سالویشن آرمی میں ایسا مقام حاصل کر لیا کہ مجھے اندر کے حالات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ پھر اب میں بچہ بھی نہ رہا تھا اور اپنی عمر کے اٹھارہ سال پورے کر چکا تھا۔
جب میں نے اندر سے حالات کا مطالعہ کیا اور سالویشن آرمی کے کرتا دھرتائوں کے قریب ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ ادارہ تبلیغ کا ادارہ نہیں بلکہ تجارت کا ادارہ ہے۔ وہ حضرات اس میں کھلم کھلا نفاق کی تعلیم دیتے تھے۔ اس چیز نے میرے جذبات کو شدید دھچکا پہنچایا اور میں سالویشن آرمی کے ڈائریکٹروں سے متنفر ہو گیا اور اس ادارہ سے اپنا تعلق منقطع کر لیا۔
سالویشن آرمِی کو چھوڑ دینے کے بعد بھی عیسائیت پر میرا اعتماد حسبِ سابق تھا‘ لیکن اب میں نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ میں عیسائیت کا مطالعہ کروں اور اس کے نظامِ فکر و عمل کو سمجھوں۔
عیسائیت کا مطالعہ میری زندگی کے اس دور کا سب سے تکلیف دہ اور جذبات کشن زمانہ تھا۔ جتنا میں اس کا مطالعہ کرتا تھا‘ اتنا ہی میرا اعتماد اس پر متزلزل ہوتا جاتا تھا۔ نئے نئے کانٹے ذہن میں چبھتے جاتے تھے۔ کوئی چیز ایسی نہ تھی جو زخموں کو مندمل کرتی۔
’’ایک میں تین اور تین میں ایک‘‘ کا عقیدہ ذہن کو سخت پراگندہ کرتا رہا اور حلق سے نہیں اتر پایا۔ یہ تصور کہ ایک شخص کے گناہ کی وجہ سے پوری انسانیت کو سزا دی گئی اور اسے زمین پر پھینک دیا گیا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے اور پھر یہ نظریہ کہ تمام انسانوںکے گناہوںکی سزا ایک شخص کو دی گئی‘ دل و دماغ کے لیے اور بھی زیادہ ناقابلِ قبول تھا۔
میں نے عیسائیت کا مطالعہ اس لیے کیا تھا کہ اپنے عقیدہ کو مستحکم کرکے اس کا مبلغ بنوںگا‘ مگر جوں جوں میں آگے بڑھتا گیا‘ پرانے خیالات کا تانا بانا بکھرتا گیا حتیٰ کہ میں نے محسوس کیا کہ عیسائیت میرے دل کی پکار کا جواب نہیں۔ ذہنی اور علمی حیثیت سے یہ مجھے مطمئن نہیں کرسکتی اور اس سے بڑھ کر سماجی اور معاشرتی معاملات میں یہ میری کوئی رہنمائی نہیں کرسکتی۔ اسے انسانوں کے حقیقی مصائب سے کوئی سروکار نہیں‘ معاشی مسائل کا اس کے پاس کوئی حل نہیں‘ معاشرتی انصاف سے اسے کوئی علاقہ نہیں۔ جو مذہب انسان کے مسائل ہی کو حل نہ کرسکتا ہو آخر ا سکی ضرورت ہی کیا ہے؟
بالآخر اپنے آبائی خیالات کو میں نے ترک کر دیا اور صرف اپنے آبائی مذہب کو ہی ترک نہ کیا بلکہ مذہب کو ہی ترک کر دیا۔ میں سوچتا تھا کہ جو مذہب دنیا کے سدھار کے لیے کچھ نہیں کرسکتا تو پھر وہ قطعاً بے کار ہے۔
میرے ذہن کی یہ حالت تھی کہ جب 1921ء میں عظیم معاشی بحران (Great Depression) واقع ہوا‘ لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے‘ ہر طرف غربت اور فقر و فاقہ کا منظر نظر آتا تھا۔ بڑے بڑے سرمایہ دار موجود تھے مگر زمین پر سے روٹی اٹھ گئی تھی‘ روزگار ختم ہو گیا تھا‘ دلوں کی دنیا لٹ گئی تھی۔ ان حالات نے مجھے سرمایہ داری کا سخت ترین مخالف بنا دیا اور میں انگلستان کی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گیا۔
تھوڑے ہی عرصے کے بعد میں پارٹی ممبر بن گیا اور پھر آہستہ آہستہ اوپر اٹھتا رہا حتیٰ کہ انگلستان کی مجلس انتظامیہ (Exective Council) کا رکن اور نوجوانوں کی تنظیم کا سیکرٹری بن گیا۔
میں اشتراکیت کے نصب العین میں مگن پارٹی کے لیے ہر قسم کا کام کرتا رہا مگر جوں جوں میں اوپر بڑھ رہا تھا‘ میں محسوس کر رہا تھا کہ یہاں بھی وہی نفاق ہے جو سالویشن آرمی میں دیکھا تھا۔ عوام کی مشکلات کو ایِکسپلائٹ تو برابر کیا جارہا تھا مگر ان سے کوئی حقیقی ہمدردی نہ تھی بلکہ ان کے مسائل کو اور پیچیدہ بنایا جاتا تھا تاکہ سرمایہ داری نظام ناکام ہو اور اشتراکیت کو کام کرنے کا ماحول ملے۔ اس چیز نے مجھے شاک کیا۔
پھر دو چیزیں ایسی ہوئیں جنہوں نے مجھے بغاوت پر مجبور کیا‘ ایک تو روسی کمیونسٹ پارٹی کی مدافعت اور دوسرے نازیوں کے سلسلے میں کمیونسٹ پارٹی کی پالیسی۔ مجھے جلد ہی اس چیز کا احساس ہو گیا کہ ملک کی کمیونسٹ پارٹی محض روسی پارٹی کی ایک برانچ ہے۔ اس کی سفارت ہے‘ اسے کوئی اختیار نہیں اور اس چیز نے میرے ضمیر کو جھنجھوڑا۔ دوسری چیز اس پارٹی کی وہ پالیسی تھی جو وہ نازیوں اور لیبر پارٹی کے متعلق اختیار کیے ہوئے تھی۔ کمیونسٹ پارٹی نے کہا کہ لیبر پارٹی نازیوں سے زیادہ گئی گزری ہے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں ہوسکتا۔ جن ممبران نے لیبر پارٹی کے ساتھ مل کر نازیوں کے خلاف متحدہ محاذ باننے کی تجویز پیش کی تھی ان کو پارٹی سے نکال دیا گیا اور اس مسئلے پر بڑا ہنگامہ رہا لیکن چند ہی ماہ کے بعد جب مالوٹوف نے کہا کہ نازیوں کے خلاف کمیونسٹ جدوجہد کریں گے تو روس کے اشارہ پر انگلستان کی پارٹی نے اس لیبر پارٹی سے جسے ابھی تک نہ معلوم کیا کیا کہا جارہا تھا‘ مل کر متحدہ محاذ بنا لیا۔ میں نے اس موقع پر مطالبہ کیا کہ جن ممبران کو ہم نے Expell کیا تھا ان کو اب واپس لیا جائے کیوں کہ وہ صحیح تھے اور ہم غلط‘ تو نہ صرف یہ کہ اس مطالبے کو کوئی وزن نہیں دیا گیا بلکہ خود مجھے نکالنے کے مشورے ہونے لگے۔ان حالات نے مجبور کر دیا کہ میں پارٹی چھوڑ دوں۔
کمیونسٹ پارٹی کو چھوڑنے کے بعد میں نے اشتراکیت اور دوسرے سیاسی نظاموںکا مطالعہ کیا اور اس سلسلے میں جرمن مفکرین کا بھی مطاعلہ کیا۔ میں خاص طور پر فریڈرک نطشے سے بہت متاثر ہوا۔ وسعتِ مطالعہ کے ساتھ ساتھ کمیونزم کی فکری کمزوریاں بھی میرے سامنے آتی گئیں اور اس کی معاشی تعبیرِ تاریخ جو اس کی اصل بنیاد ہے‘ کا بودا پن مجھ پر بالکل واضح ہو گیا۔ اس زمانے میں امپریلزم کے خلاف برابر جدوجہد کرتا رہا اور اس سلسلے میں ایک پارٹی بھی قائم کی۔
جنگ کے زمانے میں‘ میں نے جنگ کی مخالفت کی اس لیے نہیں کہ میں جنگ کو برا سمجھتا تھا بلکہ اس لیے کہ یہ جنگ محض استعماری طاقتوں کے درمیان استعماری مقاصد کے لیے ہو رہی تھی اور اس کا اصل نقصان صرف کمزور ممالک کو پہنچ رہا تھا۔ میری ان سرگرمیوں کی بنا پر مجھے گرفتار کر لیا گیا اور جب رہا کیا گیا تو مجھے انگلستان چھوڑنا پڑا۔
اب میں آسٹریلیا آگیا۔ میرا مطالعہ برابر جاری تھا اور اشتراکی فکر کو ترک کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مذہب انسان کے لیے بے کار نہیں۔ مذہب کو محض مابعد العطبیعاتی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے ایک نظامِِ حیات دینا چاہیے اور ایسے اصول اور ایسے اداروں سے مسلح ہونا چاہیے جو معاشرے کو سنواریں اور زمین پر انصاف قائم کرنے کا موجب بنیں۔
آسٹریلیا میں بھی میری سامراج دشمن سرگرمیاں جاری رہیں۔ ہم جلسے کرتے تھے‘ پمفلٹ چھاپتے تھے اور اگر ضرورت ہوتی تو مخالفین کے خلاف پکٹنگ کرتے تھے اور انہیں تقاریر نہیں کرنے دیتے تھے۔
اس زمانے میں وہ واقعہ پیش آیا جس نے میری دنیا ہی بدل دی۔ ہوا یہ کہ پرتھ یونیورسٹی میں انڈونیشیا کا سفیر شمالی آریان کے مسئلے پر تقریر کرنے آیا۔ آسٹریلیا میں انڈونیشیا کے اس مطالبہ کو ایک سامراجی مطالہ سمجھا جاتا تھا۔ ہم لوگ وہاں پہنچے اور ایسے حالات کر دیے کہ تقریر نہ ہو سکی۔ انڈونیشی سفیر بڑی خاموشی اور وقار کے ساتھ واپس چلا گیا۔ (جاری ہے)

حصہ