چبھن

267

ضمیر کی چبھن نے اسے درد سے بے حال کر رکھا تھا‘ واقعی سچ ہے ضمیر کے مجرم کی جائے پناہ کہیں نہیں ہوتی۔ اسے اس کے پیاروں نے بڑے پیار سے سمجھایا تھا کہ کسی کے بہکائوے میں نہ آنا‘ لوگ موقع کی تلاش میں اور شیطان طاق میں ہے۔
تب اس نے پروا ہی نہ کی تھی اور غلطیوں پہ غلطیاں کیے چلی گئی۔ اس کا شوہر چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا جس کی اپنی کوئی جائداد نہ تھی۔ وہ والد کی جائداد کی ان کی ہدایت پر خرید و فروخت کرتا اور اپنا کمیشن وصول کرتا۔ لین دین کی سہولت کے پیش نظر زیادہ مدت محفوظ کرنے کی غرض سے پلاٹ اس کے نام لگوائے بھی جاتے۔ پہلے سسر کی وفات ہوئی اور کچھ عرصے بعد اچانک حادثاتی موت میں شوہر بھی چل بسا۔
یہ قیامت تھی جو اس ہنستے بستے گھر کو اجاڑ گئی۔ سسر کی جائداد کی تقسیم اس کی عدت کے دوران اس کی نندوں نے اس کے ساتھ مل کر باہم رضا مندی سے کی۔
عدت کے بعد دو ہفتے کے لیے میکے روانگی کیا ہوئی کہ وہ اپنے لالچی باپ کے بہکائوے میں آ گئی اور بوجوہ شوہر کے نام کی جانے والی جائداد پر شوہر کی جائیداد ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ مستزاد یہ کہ شوہر کا قرض بھی دینے سے انکاری ہو گئی۔ یہ قدم پورے خاندان کے لیے ایک بھاری دھچکا تھا کہ انھیں اپنی بہو سے اتنے غلط اقدام کا گمان تک نہ تھا کہ وہ دوسروں کا حق چھیننے کی کوشش کرے گی۔
اس کے بعد تو حد کر دی۔ عدالت میں جائداد کی گارجین شپ کا کیس دائر کر دیا۔ ایسے میں کچھ لوگ بیچ میں آئے‘ دینی رہنمائی کے پیش نظر سسرال والوں نے اس مسئلے کو حل کروانے کا فتویٰ مانگا۔ جس کے مطابق جرگہ بیٹھنا تھا۔ فتویٰ کے مطابق نندوں اور اس کی ساس سے قسم لے کر‘ کہ ترکہ کس کا ہے‘ اس کا فیصلہ کیا جانا تھا۔ دوسری صورت میں اسے اس پر دو گواہ پیش کرنے تھے کہ جائداد اس کے شوہر کی ہے۔
اس کے لالچی باپ نے لالچ اور بلیک میلنگ کے ذریعے دو گواہ بھی تیار کر لیے۔ شاید ضمیر کی چبھن تھی کہ گواہوں نے گواہی سے انکار کر دیا۔ اب جج ان محترمہ کو حلفیہ بیان کے لیے بلا رہا تھا۔ بیان تو بڑا سخت تھا حلفیہ کلمات سے اسے کہنا تھا کہ اگر میں جھوٹ بولوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت اور اللہ کا غضب ہو۔ وہ مسلسل تین ماہ سے حلف ٹال رہی تھی۔ مگر کب تک آخر اسے یہ مرحلہ تو سر کرنا ہی تھا۔ دوسری طرف ضمیر کی جنگ‘ جو اس کا دن رات کا سکون برباد کیے ہوئے تھی۔ حقیقت خود تو جانتی تھی دنیا کے سامنے کتنی ہی دلیلیں کیوں نہ گھڑ لیتی۔
اس مرحلے پر نہ وہ واپس سسرال پلٹنے کے قابل تھی آخر کس منہ سے جاتی۔ باپ کے پاس رہتی تو ضمیر چیختا تھا۔
آج وہ پلٹنا چاہتی تھی مگر یہ اتنا آسان نہ تھا‘ باپ کے ساتھ اب بھائی اور کئی متعلقین بھی غلط راستے پر اس کے ساتھی بن چکے تھے ہر ایک کے اپنے اپنے مفادات تھے اسے پلٹنے بھی کیسے دیتے۔ وہ بہت بری طرح پھنس چکی تھی۔ اسے اب ادراک ہوا تھا کہ اس کی ڈور اس کے اپنے ہاتھ سے کب کی نکل چکی ہے اور وہ صرف کٹھ پتلی بن کر رہ گئی ہے۔ یہ چکر اس کے دین و ایمان تک کو خطرے میں ڈال رہا تھا۔ ایسے میں وہ اپنے بچوں کو بھی سوائے ظلم میں حصہ داری اور حرام مال کے دے بھی کیا سکتی تھی۔
وہ روتے ہوئے نڈھا ل تھی اس گرداب سے نکلنے کا راستہ چاہتی تھی۔ ایسے میں اسے قرآن کلاس کی یاد آئی۔
فائقہ اس بند گلی کی گھٹن خوب جانتی تھی اسے کندھے سے لگائے بولی ’’ایک شخص غفلت اور لالچ میں ایک غلط قدم رکھتا ہے اور اسے خبر ہی نہیں ہوپاتی کہ وہ ایک بڑے گڑھے میں گر رہا ہے۔ ہر آنے والا دن اسے مزید پستی میں گراتا چلا جاتا ہے۔ ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب اس کے پاس گڑھے اور گرداب سے نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔
لہٰذا جب اور جہاں بھی قدرت راستہ بنائے پلٹنے کو تیار رہنا چاہیے کہ تاریک راہوں پر سوائے تاریکی در تاریکی کے کچھ نہیں ملتا۔ مہلت بھی شاذ ہی ملا کرتی ہے۔ مجرم کو تو صرف ڈھیل ملتی ہے۔ اس کا وقت کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو آخر میں دردناک پکڑ مقدر ہوتی ہے۔‘‘
وہ ڈر سے کانپ سی گئی۔
فائقہ نے اسے دلاسا دیا‘ پھر ٹھہر ٹھہر کر بولی ’’میری بچی! گناہ سے مکمل پاک تو رب کے فرشتے ہیں اور توبہ سے دور ی صرف شیطان کے لیے ہے۔ انسان تو انسان اسی سے ہے کہ وہ گناہ کرتا ہے اور پلٹ آتا ہے۔ اسلام میں مایوسی کفر ہے۔ رب کریم ایک مومن کو گناہ کے پچھتاوے میں مبتلا کرنے کے بجائے اسے ان گناہوں سے پاکی اورشفافیت کا راستہ دکھاتے ہیں۔ اسے توبہ کرنے والے‘ پلٹنے والے بے حد پسند ہیں۔کتنے بھی گناہ کیوں نہ ہوں رب کریم نے رحمن اور رحیم کی صفات اپنے لیے خاص کی ہیں۔ وہ کسی تائب کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔
تم نے حدیث مبارکہ کا مفہوم سنا ہی ہوگا کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص‘ جس نے سو قتل کیے‘ اللہ ربی نے اسے بھی نیک نیت اور نیکی کی طرف چند قدم بڑھانے کے سبب بخش دیا اور اسے جنت کے فرشتے کے حوالے کیا۔
اللہ ربی تو توبہ کرنے والے سے اتنا خوش ہوتا ہے کہ اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ حدیث مبارکہ میں اس خوشی کے لیے کیسی پیاری تمثیل بیان کی گئی کہ وہ شخص جس نے صحرا میں اپنا اونٹ ساز و سامان کے ساتھ کھو دیا ہو اب اس کے سامنے صرف موت ہو اور وہ اچانک اونٹ کو سامنے پائے اور اس خوشی میں وہ کہنا کچھ چاہے ہو اور الفاظ کچھ اور منہ سے نکلیں۔ اللہ ربی اس شخص سے کہیں زیادہ اپنے بندے کے پلٹنے سے خوش ہوتا ہے۔
ایک شخص اللہ کی طرف ایک قدم بڑھاتا ہے اور رب کریم دو قدم بڑھاتے ہیں‘ بندہ اپنے رب کی طرف، چل کر آتا ہے اور رب کریم اس کی طرف دوڑ کر آتے ہیں۔ لیکن یاد رہے پہلا قدم تو بہر حال بندے کو خود ہی بڑھانا ہوتا ہے پھر وہ تھام لیتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ قدم مشکل ہے۔ اخروی کامیابی ہمیشہ کی زندگی بھی تو اسی سے جڑی ہے۔‘‘
وہ آنسو پونچھے فون پر کسی کا نمبر ڈائل کر رہی تھی۔ شاید وہ مزید دیر نہیں چاہتی تھی۔ فائقہ اطمینان سے اس کے کانپتے ہاتھوں کو سہلانے لگی۔
منزل بہت دور نہ تھی۔

حصہ