ایک سوال

157

آج پرنسپل صاحب کی نوازش سے 20 منٹ کی بریک ملی، تو ہم فوراً اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے کتاب سمیت گراؤنڈ میں پہنچ گئے۔ ابھی کتاب کھولی ہی تھی کہ کئی جملے کانوں سے ٹکرائے۔ ’’کاش ہم بھی جا سکتے، اس دفعہ تو ٹکٹ بھی نہیں خرید سکتے… پتا ہے میرا اتنا دل کر رہا تھا کہ عاصم اظہر کو دیکھوں لیکن…‘‘
آوازیں تیز ہونے لگیں تو مجھے بھی سر اٹھانا پڑا کیوں کہ کتاب میں لکھے الفاظ اب سمجھ آنے سے انکاری تھے۔ جا کر پوچھا کہ بھئی کون سا مسئلہ پیدا ہوگیا جو اس قدر شور ہو رہا ہے۔ مختصراً پتا چلا کہ کسی کالج میں میوزیکل کنسرٹ رکھا گیا ہے جس میں ہمارے ملک کے مشہور ترین سنگرز تشریف لا رہے ہیں۔ کوئی کنسرٹ کا پاس حاصل کرنے کے لیے جذباتی ہو رہا تھا تو کوئی نہ جانے پر آہیں بھر رہا تھا۔ اتنے میں بیل ہوئی اور سب کلاس میں واپس چلے گئے۔
اگلے لیکچر میں ٹیسٹ تھا ، پورے ٹیسٹ کے دوران مجھے اپنے خاموش رہنے پر افسوس ہوا کہ کیوں میں نے کسی کو یہ نہیں کہا کہ تم ایک غلط چیز کے بارے میں پریشان ہو! اگلا لیکچر شروع ہوا اور سر کلاس میں تشریف لائے، وہ کبھی اس نامی گرامی کالج میں پڑھاتے رہے تھے، لڑکیوں نے اس بارے میں سر سے کہا کہ انہیں کسی ذرائع سے کنسرٹ کے پاس دلوا دیں، جس پر سر نے جہاں نہایت عمدگی سے اس بات کو واضح کیا کہ اس چیز کو حواس پر سوار نہ کیا جائے وہیں ہلکے پھلکے انداز میں انہوں نے یہ بات بھی واضح کردی کہ وہ ہمیں روک نہیں سکتے البتہ یہ بات وہ اپنی بیٹی کے لیے بھی پسند نہیں کریں گے۔ تمام لوگ سر کی باتوں سے بظاہر متفق نظر آرہے تھے۔
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کتنے اسٹوڈنٹس اس کنسرٹ میں شرکت کر رہے ہیں۔ ہمارے مشہور و معروف تعلیمی ادارے کیونکر اس قدر خود مختار ہو گئے ہیں کہ احکامات الٰہی کی اس طرح سے نفی کریں۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر شراب، جوا اور نرد (یا بورڈ گیمز یا آلۂ موسیقی) کو حرام قرار دیا ہے۔ ‘‘ (بحوالہ: مشکوٰۃ شریف)
کیا یہ سراسر غلط نہیں ہے؟ اداروں کی پامالی نہیں ہے؟ اسکول‘ کالجوں میں مختلف سرگرمیاں منعقد ہوتی ہیں اور یہی ان اداروں کا اقدار ہے۔ اگر ہم اپنے ذہنوں پر ذرا سا زور ڈالیں تو ہمیں یاد آئے کہ پاکستان لاالٰہ الااللہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔ کیا ہم محض نام کے مسلمان رہ گئے ہیں، کیا ہماری شاندار تاریخی کامیابیاں فقط کتابوں کی نذر ہو گئی ہیں۔ تعلیمی ادارے اور تعلیمی نظام کسی بھی ملک اور معاشرے کے مقاصد کے عکاسی کرتے ہیں، لیکن افسوس اور معذرت کے ساتھ کہ ہمارے تعلیمی ادارے تو نوجوان نسل کو کلبوں کا ماحول مہیا کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ پھر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا کوئی گانے نہیں سنتا؟ بھئی اگر کوئی طالب علم جھوٹ بولتا ہے تو کیا ٹیچر کلاس میں یہ اعلان کریں گی کہ آج ہمارے اسکول میں جھوٹ کا دن ہے آؤ ہم سب جھوٹ بولیں۔ نہیں ! یہ انتہائی مضحکہ خیز لگے گا لیکن جب بات دین کی آئے تو ہمیں یہ مضحکہ خیز باتیں بھی ٹھیک لگتی ہیں۔ آپ کو ایسے ایسے جواز دیے جائیں گے کہ آپ نہ صرف ان پر یقین کر لیں گے بلکہ خود کو بے وقوف بھی گردانیں گے کہ کیوں آپ اب تک اس بات سے محروم تھے۔ میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ کیا ہمارے اداروں میں اسلام صرف اسلامیات کے لیکچر تک رہ گیا ہے۔ جوابِ شکوہ میں اقبال نے یہی کہا تھا نہ
تم مسلماں ہو یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
افسوس کہ آج طاؤس و رباب سرِ فہرست ہے اور ہمارا اقدار موسیقی کی اس گونج کی نذر ہوگیا ہے۔ ہمارے مستقبل کے دعویداروں نے ہمیں ڈگریاں لینا تو سکھا دی ہیں لیکن ہمیں ہماری اصل سے دور کر دیا۔ حیرت اُن پر ہے جو اس کھلم کھلا خلاف ورزی پر خاموش ہیں؟ ان اساتذہ پر جو اس کی اجازت دیتے ہیں اور ان لوگوں پر جو اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کیا آپ بحیثیت مسلمان یہ یقین نہیں رکھتے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو زندگی کا حصہ بنا لینا ہی اسلام ہے یا آپ کو یہ لگتا ہے کہ اسلام کوئی جزوی دین ہے جس کی جو بات پسند آئے اسے مان لیں اور باقیوں کو تبدیل کرلیں ، اپنے لیے گنجائش پیدا کر لیں۔ اگر نہیں تو اپنے دین کو مکمل طور پر اپنائیں اور غلط کو غلط کہنا سیکھیں۔اگر ہم آج حق بات کہنے سے ڈر رہے ہیں تو پھر یہ ہمارے لیے سوالیہ نشان ہے کہ کیا ہم مسلمان ہیں؟

حصہ