قیامت ڈھاتی جاب مارکیٹ

292

دنیا میں بہت کچھ، بلکہ تقریباً سبھی کچھ بدل رہا ہے۔ جب سبھی کچھ بدل رہا ہے تو پھر جاب مارکیٹ بھلا کیوں ٹس سے مَس نہ ہو؟ اس وقت جاب مارکیٹ بھی کچھ کی کچھ ہوئی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں کارپوریٹ کلچر تیزی سے اپنایا جارہا ہے۔ اس کلچر کے تحت کام کرنے والے ادارے اپنے بجٹ کو منطقی حدود میں رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ کسی بھی ادارے کے لیے سب سے اہم معاملہ ہے بجٹ کا متوازن رہنا۔ زیادہ سے زیادہ آمدن اور کم سے کم اخراجات کم و بیش ہر کاروباری ادارے کا خواب ہے۔ اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی تگ و دَو بھی جاری رہتی ہے۔ کم ہی ادارے اخراجات کو معقول حد تک کم رکھنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ منافع کی شرح یقینی بنانے کے لیے افرادی قوت کے معیار پر سمجھوتا کرنے والے اداروں کو اُلٹنے، پلٹنے میں دیر نہیں لگتی۔
آج تک دنیا بھر میں تعلیم کے جس نظام کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی رہی ہے اُس کا تعلق حافظے سے ہے۔ امتحانات میں حافظے کی آزمائش ہوتی ہے، علم کی نہیں۔ جو جتنا زیادہ رٹّا لگاسکتا ہے وہ اُتنا ہی زیادہ کامیاب ہے۔
کسی محفل میں جب علم و فن کے حوالے سے بحث چھڑی تو ایک صاحب نے اپنی الجھن کا رونا رویا کہ اُن کی قابلیت سے کوئی انکار نہیں کرتا مگر آگے بڑھنے کا موقع کبھی ہاتھ آیا نہیں۔ یہ صاحب اسکول اور کالج کے زمانے میں نصاب سے ہٹ کر بہت کچھ جانتے تھے۔ مطالعے کی عادت چھوٹی عمر سے پروان چڑھ چکی تھی اس لیے اِنہوں نے تمام بڑوں کو پڑھا۔ پھر مزاج میں تجربے کرنا لکھا تھا اس لیے جو کچھ سیکھتے تھے اُس کے حوالے سے تجربے بھی کرتے تھے۔ بہت سے آلات گھر ہی میں بنالیتے تھے۔ دو عشروں پہلے جب ڈجیٹل دور شروع ہوا تو اِنہوں نے ڈجیٹل آلات کی مرمت کرنے اور چند چیزوں کو ملاکر کوئی نئی چیز بنانے کے تجربے بھی کیے۔ اِن کا کہنا تھا کہ اللہ نے بے مثال قابلیت سے نوازا مگر نصاب کے مطابق پڑھنے میں یہ کبھی کامیاب نہ ہوسکے۔ امتحانات میں اِن کی کارکردگی بہت کمزور رہتی تھی۔ مارکس کم ہونے کے باعث کسی اعلٰٰی درجے کے کورس میں داخلہ نہ لے پائے۔ نوکری ڈھونڈنے نکلے تو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اِن کا کہنا ہے کہ یہ سرکاری ملازم تو ہیں مگر نچلے درجے کے۔ افسران اب بھی کسی فائل پر جب کوئی جواب لکھتے ہیں تو بلاکر دِکھاتے ہیں کہ دیکھو، صحیح جواب لکھا ہے نا! اب آپ سوچیں گے یہ صاحب آخر کرتے کیا ہیں۔ جناب، یہ چپڑاسی ہیں! قابلیت سے کوئی انکار نہیں کر رہا مگر نظام ایسا ہے کہ جس کے مارکس کم ہیں وہ آگے نہیں جاسکتا۔ یہ پورا کا پورا تعلیمی نظام رٹّے پر چل رہا ہے۔ جو پرچے میں جتنا زیادہ لکھتا ہے وہ اُتنے ہی زیادہ مارکس حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ آج بھی ہزاروں افراد انتہائی قابل ہونے کے باوجود بہت ہی نچلے درجے کی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ اِس میں اُن کا اپنا بھی قصور ہے کہ منصوبہ سازی کے ہنر سے واقف نہ ہوئے اور زمانے کے مطابق تبدیل نہ ہوئے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام زیادہ ذمہ دار ہے جو کسی کی قابلیت کی قدر کرنا نہیں جانتا اور نوازنا تو بالکل ہی نہیں جانتا۔
ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو دنیا بھر کی معلومات رکھتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ڈجیٹل ٹیکنالوجی نہیں آئی تھی تب کوئز پروگرام بہت مقبول ہوا کرتے تھے کیونکہ جو لوگ بہت پڑھتے تھے وہ اپنے معلومات کے خزانے کی بنیاد پر مقابلوں میں شریک ہوتے تھے اور اُن کی معلومات کا وسیع دائرہ دیکھ کر لوگ حیران رہ جاتے تھے۔ خاکسار کو بھی 1982 سے 1985 تک یعنی کالج کے زمانے میں معلوماتِ عامہ کے مقابلوں میں حصہ لینے کا بہت شوق تھا۔ تب ریڈیو پاکستان کراچی سینٹر سے محمد نقی مرحوم کے پروگرام ’’ذہانت شرط ہے‘‘ اور عظیم سرور مرحوم کے پروگرام ’’کوئز شو‘‘ میں باقاعدگی سے شرکت کی جاتی تھی۔ ایک بار کوئز شو جیتا بھی۔ آج وہ زمانہ یاد آتا ہے تو کچھ عجیب سے احساسات دل میں ابھرتے ہیں کیونکہ اب کوئز پروگرامز کی کچھ قدر ہی نہیں رہی۔ یہ کوئی ناقابلِ فہم بات نہیں۔ آج کوئی بھی شخص اینڈرائڈ فون کی مدد سے کوئی بھی بات کسی بھی وقت بہت تیزی سے جان لیتا ہے۔ اب کسی سے کچھ پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ انٹرنیٹ راہ نمائی کے لیے ہر وقت حاضر ہے۔ جو لوگ کسی زمانے میں معلومات کا چلتا پھرتا ذخیرہ سمجھے جانے تھے اُنہیں آج صرف رٹّو طوطا سمجھا جاتا ہے! بڑے کاروباری اداروں کی سوچ بدل گئی ہے۔ وہ ایسی افرادی قوت چاہتے ہیں جو عقل سے کام لینا جانتی اور چاہتی ہو۔ اگر کسی کو بہت کچھ معلوم ہے تو محض اس بنیاد پر اُسے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی کیونکہ ہر طرح کی معلومات ہر وقت فراہم کرنے کے لیے مشین موجود ہے۔ آج کے انسان کو معلومات کا نہیں، علم و فن کا خزانہ ہونا ہے۔ کسی بھی کاروباری فرد کو اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ آپ دنیا بھر کی معلومات کے حامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ وہ کاروباری فرد چاہتا ہے وہ آپ کو آتا ہے یا نہیں۔
ہمارے ہاں کسی کو قابلیت کی بنیاد پر ملازمت دینے کا چلن کبھی رہا ہی نہیں۔ یہاں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی کے پاس متعلقہ شعبے کی سند ہے یا نہیں۔ اگر سند نہیں تو پھر قابلِ رشک حافظہ اور ذہانت دونوں کسی کام کے نہیں۔ آج بھی ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری ہر دو طرح کے اداروں میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو محض ڈگری کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے مگر اُنہیں آتا کچھ بھی نہیں۔ نظام کچھ ایسا ہے کہ جس کا تقرر ہوگیا ہو اُسے آسانی سے نکالا نہیں جاسکتا۔ خالص نجی اداروں سے بھی نا اہل افراد کو آسانی سے نکالا نہیں جاسکتا۔ سوال قانون کا نہیں، لابنگ کا ہے۔ کسی بھی نا اہل کو بچنے کے لیے کئی نا اہل آگے بڑھ کر دیوار بن جاتے ہیں!
کاروباری دنیا نے اب اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے کہ معیاری افرادی قوت کا سند یافتہ ہونا لازم نہیں۔ ایک زمانے سے یہ ہوتا آیا ہے کہ کوئی کتنا ہی قابل ہو، اگر متعلقہ سند کا حامل نہیں تو کسی بھی منصب کے لیے درخواست گزار ہی نہیں ہو پاتا تھا۔ جاب مارکیٹ پر سے سند کی ضرورت کے بادل اب چھٹ رہے ہیں۔ دنیا بھر میں بڑے کاروباری اداروں اور بالخصوص ہائی ٹیک اداروں نے سند کو حتمی شرط تسلیم کرنے کے رجحان کو ترک کرنا شروع کردیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ گوگل، ایپل، آئی بی ایم، بینک آف امریکا، چیپوٹلے، کوسکو اور ارنسٹ ینگ سمیت 25 بڑے کاروباری اداروں نے بین الاقوامی سطح پر امیدواروں کا اہتمام کرنے والے ادارے ’’گلاس ڈور‘‘ کو ہدایت کی ہے کہ کسی بھی منصب کے لیے درخواست گزار ہونے والے کے لیے تعلیم یا سند کو لازمی شرط کے طور پر پیش نہ کیا جائے بلکہ متعلقہ شعبے میں اُس کی قابلیت اور لگن کو بنیادی اہمیت دی جائے۔ ان اداروںکو اصلاً غرض اس بات سے ہے کہ معیاری افرادی قوت میسر ہو۔ اِسی صورت اِن اداروں کی کارکردگی کا گراف بلند رہ سکتا ہے۔ یہ ادارے اب ایسے کسی بھی فرد کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں جس نے تھیوری نہ پڑھی ہو مگر پریکٹیکل کرسکتا ہو۔ صرف یہ دیکھا جائے گا کہ وہ انگریزی یا کسی اور زبان میں کارآمد علم رکھتا ہو، ہدایات اچھی طرح پڑھ اور سمجھ سکتا ہو اور جو کچھ بھی کرنے کو کہا جائے وہ کرسکتا ہو۔
سوال صرف تھیوری کا بھی نہیں۔ اگر کوئی اپنے شعبے میں عملی تجربہ رکھتا ہو تو اُس سے کسی ادارے میں کام کرنے کا تجربہ بھی طلب نہیں کیا جائے گا یا پھر زیادہ سے زیادہ ایک سے دو سال تک کا تجربہ دیکھا جائے گا۔ کسی بھی بڑے ادارے میں کام کرنے کے ماحول سے تھوڑی بہت واقفیت بھی کافی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ادارہ جو کام کرانا چاہتا ہے وہ کام درخواست گزار کو آتا ہے یا نہیں۔
آج کل بڑے کاروباری اداروں نے امیدواروں سے آن لائن ٹیسٹ بھی لینا شروع کردیا ہے۔ یہ ٹیسٹ تحریری بھی ہوتا ہے اور زبانی بھی۔ دونوں ہی طرح کے ٹیسٹ اس طرح کے ہوتے ہیں کہ کسی بھی نا اہل کے لیے اِس مرحلے سے آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ٹیسٹ کے نتائج ہی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ امیدوار کتنے پانی میں ہے۔ بعض شعبوں میں امیدوار کے پاس کچھ زیادہ قابلیت نہیں بھی ہوتی۔ میڈیا انڈسٹری کے اداروں کو ایسے لوگوں کی ضرورت رہتی ہے جو کسی بھی اسٹوری پر ڈھنگ سے کام کرسکیں، معاملات کا تجزیہ کرسکیں، تحقیق کے نتیجے میں اپنے کام کو بہتر بناسکیں۔ میڈیا انڈسٹری، ہائی ٹیک اور اِن دونوں شعبوں سے متعلق دیگر اداروں کو ایسی افرادی قوت درکار ہے جو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے مزیّن ہو۔ یہ زمانہ سیکھتے رہنے کا ہے۔ وہ دور گیا کہ جب کسی بھی شعبے میں ایک خاص سند کے حصول تک ہی پڑھنا کافی تھا۔ اب تو زندگی بھر کچھ نہ کچھ سیکھنا ہی پڑتا ہے۔ اب انسان میں اِتنا عِجز لازم ہے کہ کسی راج مستری کے پاس مہارت ہو تو کوئی بلڈر بھی اُس سے کام کی کوئی بات پوچھنے میں شرم محسوس نہ کرے۔ آج ایسے شیف بھی پائے جاتے ہیں جو کسی ڈھابے یا خوانچے میں کام کرنے والے باورچی سے بھی کوئی خاص ڈش سیکھنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے اور اُس ڈش کو انٹرنیشنل مینو کا حصہ بناتے ہیں۔ سچن تینڈولکر ایک بھی ٹیسٹ میچ نہ کھیلنے والے رنجی ٹرافی کے تجربہ کار کھلاڑیوں سے ٹپس لینے میں کبھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔ یہ زمانہ کسی بھی شخص سے علم و فن حاصل کرنے کا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے بہت سے ذہین افراد ہیں جنہوں نے کسی بھی بڑے تعلیمی ادارے سے کوئی سند نہیں پائی مگر وہ کامیاب الیکٹریشین، پلمبر، مستری، آٹو میکینک یا ڈرائیور ہیں اور کوئی بھی بین الاقوامی آن لائن سرٹیفکیٹ کورس مکمل کرکے کسی بین الاقوامی ادارے میں ملازمت پاسکتے ہیں۔
سوال صرف صلاحیت کا نہیں۔ اُسے بروئے کار لانا بھی تو آنا چاہیے۔ ہمارے ہاں انتہائی قابل افراد کو پوچھا نہیں جاتا۔ یہ لوگ جب بیرونِ ملک جاتے ہیں تو ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ ایسا راتوں رات نہیں ہوتا۔ یہ لوگ باہر کی جامعات میں تعلیم و تربیت حاصل کرکے اعلٰی اسناد حاصل کرتے ہیں، اپنی قابلیت کا لوہا منواتے ہیں تب کہیں جاکر اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔
آج کل بھارتی میڈیا یہ بات بہت زور و شور سے بیان کر رہا ہے کہ گوگل، امیزون، ناسا اور دوسرے بہت سے امریکی اداروں میں بھارتی باشندے کلیدی عہدوں پر تعینات ہیں۔ یہ بات بھارت کے عام باشندوں کے لیے یقیناً فخر کی ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ بھارتیوں کو اعلٰی عہدے دیئے جانے کی قابلیت سے ہٹ کر بھی وجوہ ہیں۔ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ امریکی ہائی ٹیک اور میڈیا ادارے چاہتے ہیں کہ اپنے آپ کو بھارت میں زیادہ سے زیادہ قابلِ قبول بنائیں۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے وہ بھارتی باشندوں کو کلیدی عہدوں پر تعینات کرتے ہیں۔ اِن بھارتیوں کی قابلیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ امریکا اور یورپ کے اعلٰی تعلیمی اداروں ہی سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ اِن کی اضافی قابلیت یہ ہے کہ یہ ایک بڑی مارکیٹ سے آبائی تعلق کے حامل ہیں۔
بات صرف ٹیکنالوجی کے شعبے پر ختم نہیں ہو جاتی۔ معاشیات، کاروباری نظم و نسق اور فنونِ لطیفہ کے شعبوں میں بھی ایسے لوگوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو کسی سند کے بغیر منوایا ہے۔ مائکروسوفٹ کے بانی بل گیٹس، ایپل کے بانی اسٹیو جابز، فیس بک کے بانی زکر برگ اور اُوبر کے بانی کلانیک کے پاس کوئی بھی تعلیمی سند نہیں تھی مگر انہوں نے اپنا آپ منوایا۔ اِن تمام شخصیات نے ہمیں بیسویں صدی کے اندھیرے سے نکال کر اکیسویں صدی کے اجالے میں پہنچایا ہے۔
امریکا اور یورپ کے متعدد اعلٰی تعلیمی اداروں سے تعلیم ادھوری چھوڑ کر نکل جانے والوں نے بھرپور کامیابی کا مزا چکھا ہے۔ جن کے دل میں کچھ کرنے کی لگن ہوتی ہے وہ اس بات کی پروا کب کرتے ہیں کہ اُن کے پاس کوئی سند ہے یا نہیں۔ اُنہیں تو ذاتی دلچسپی کی بنیاد پر کی جانے والی تحقیق کی روشنی میں چند تجربے کرنے ہوتے ہیں۔ اِن تجربوں کی بنیاد پر وہ اپنے لیے کوئی راہ منتخب کرتے ہیں اور اُس پر چل پڑتے ہیں۔ ایسے لوگ کہیں نوکری کرنے کا سوچتے ہی نہیں۔ اِنہیں تو اپنے ادارے قائم کرکے دوسروں سے کام لینا ہوتا ہے، اُنہیں ملازم رکھنا ہوتا ہے۔ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تعلیمی سند کی کوئی وقعت نہیں اگر متعلقہ شعبہ کا حقیقی علم نہ ہو، تجربے کرنے کی ہمت نہ پائی جاتی ہو۔
اگر آپ کو تاریخ اور جغرافیہ سے شغف نہیں۔ ٹیکنالوجی اور مختلف فنون میں دلچسپی ہے تو تاریخ اور جغرافیہ پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ٹیکنالوجی اور ہنر مندی پر پوری توجہ دیجیے۔ اگر کھیلوں کی دنیا میں آگے بڑھنا ہے یا پرفارمنگ آرٹ کی دنیا کو اپنانا ہے تو کسی سند کی خاطر خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع مت کیجیے۔ آج کی دنیا میں محض سند کے لیے کچھ پڑھنا انتہائی فضول مشق ہے۔ جاب مارکیٹ بدل چکی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کے تقاضے بدل رہے ہیں۔ سند کی طرف دیکھنے کی روایت دم توڑ رہی ہے۔ اب ہم ایک ایسے ماحول میں جی رہے ہیں جس میں قابلیت ہی سب کچھ ہے۔ جسے کام آتا ہے وہ آگے بڑھے گا۔ جسے کام نہیں آتا وہ بالعموم عمومی سطح پر جیے گا۔ آج ترقی یافتہ دنیا میں ایک ایسا ورک ماڈل تیار کرلیا گیا ہے جس میں ہر انسان کو اُس کے مرضی کے مطابق کام دیا جاتا ہے۔ جسے جو کچھ اچھا لگتا ہے اُسے وہی کرنے کو کہا جاتا ہے۔ یوں کارکردگی کا گراف بلند ہو رہا ہے۔ لوگ جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس سے اُن کے دل کی تشفّی بھی ہوتی ہے۔ کوئی اگر کم بھی کما رہا ہو تو اُسے محض کمائی یا تعلیمی سند کی بنیاد پر کمتر نہیں سمجھا جاتا۔
امریکا، یورپ، چین، کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی انسان کو اُس کی قابلیت، مہارت اور لگن کی بنیاد پر جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ اگر آپ میں کام کرنے کی بھرپور لگن پائی جاتی ہے تو سرمایہ کاری کرنے والے مل جائیں گے۔ لوگ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ بندہ کام کرنے میں دلچسپی لے رہا ہے یا نہیں۔
ہمارے ہاں بہت سے بڑے کاروباری ادارے یہ شکایت کرتے پائے گئے ہیں کہ بھرتیاں تو خوب کی جاتی ہیں مگر ادارے کو ترقی دیتے دیتے بین الاقوامی سطح پر شناخت قائم کرنے میں مدد دینے والی افراد قوت مشکل سے مل رہی ہے۔ ہماری نئی نسل باصلاحیت ہونے کے باوجود کچھ زیادہ نہیں کر پارہی۔ ایک طرف اُن کی راہ نمائی کا خاطر خواہ اہتمام نہیں کیا جارہا اور دوسری طرف یہ بھی ایک مشکل ہے کہ نوجوانوں کے ذہن واضح نہیں۔ وہ فضول سرگرمیوں میں الجھ کر اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ جو نوجوان ایسا نہیں کر رہے ہیں وہ ہچکچاہٹ کی منزل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اُن میں کچھ نیا کرنے، دنیا کو کچھ کر دکھانے کی ہمت پیدا نہیں ہو پارہی۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے نوجوانوں کے پاس سند تو ہے مگر وہ اپنے تعلیمی ادارے میں عملی تجربے کے مرحلے سے نہیں گزرے۔ وہ اپنے شعبے کے بارے میں بہت سی باتیں نہیں جانتے۔ نئی نسل کو یہ بات خصوصی طور پر سمجھانے کی ضرورت ہے کہ محض سند کے ساتھ زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ آج کی کاروباری دنیا فوری اور کارآمد نتائج چاہتی ہے۔ کوئی بھی کاروباری ادارہ کسی کو محض سند کی بنیاد پر نہیں رکھنا چاہتا کیونکہ ایسا کرنے سے اُس کا بھلا نہیں ہونے والا۔ کوئی بھی کاروباری ادارہ حتمی تجزیے میں یہ دیکھتا ہے کہ وہ کسی کو جو کچھ دے رہا ہے اُس کے برابر مل بھی رہا ہے یا نہیں۔
دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کا بول بالا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ اب تک اس سے پوری طرح واقف بھی نہیں۔ مصنوعی ذہانت بہت سی اشیاء میں استعمال کی جارہی ہے مگر ہمیں اِس کی حقیقی اہمیت کا کچھ اندازہ ہی نہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی مصنوعی ذہانت کے حوالے سے نئی نسل کی ذہنی تیاری پر توجہ نہیں دی جارہی۔ ہمارے ذہین نوجوان جب یہاں روشن مستقبل کا امکان نہیں دیکھتے تو ترقی یافتہ ممالک کی راہ لیتے ہیں اور پھر واپس آنے کا نام نہیں لیتے۔ حکومت کو اس حوالے سے سوچنا چاہیے۔
ہمارے ہاں بارہویں جماعت تک امتحانی نظام ایسا ہے کہ طلبہ کے صرف حافظے کو جانچا جاتا ہے۔ ہر چیز طے شدہ ہے۔ سوالات بھی اور اُن کے جواب بھی۔ اگر کسی نے ہٹ کر کچھ لکھ دیا ہے کہ تو ممتحن مارکس کاٹ دیتا ہے۔ کسی میں اگر غیر معمولی قابلیت پائی جاتی ہو اور وہ لگے بندھے ڈھانچے سے ہٹ کر امتحان دے تو اُسے یقین ہونا چاہیے کہ اُس سے نا انصافی نہیں ہوگی اور ممتحن کسی جواز کے بغیر اُس کے مارکس نہیں کاٹے گا۔
ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو درست کرنا ہے۔ محض حافظے کی بنیاد پر کسی کو قابل قرار دینا درست نہیں۔ ہمارے ہاں امتحانی نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ جو جتنا رٹّا لگائے وہ اُتنا کامیاب ٹھہرتا ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ کسی میں ذہن کو بروئے کار لاتے ہوئے کُھل کر کام کرنے، کچھ نیا کر دکھانے کی لگن اور قابلیت بھی ہے یا نہیں۔ آج کی جاب مارکیٹ قیامت ڈھارہی ہے اور ہمیں اس قیامت کا پورا احساس ہونا ہی چاہیے۔

حصہ