سلامت‘ امن‘ اعتدال پسندی‘ رواداری‘ حسن اخلاق اسلام کی اہم خصوصیات ہیں۔ یہ آفاقی دین آزادیٔ رائے‘ اختلاف رائے‘ جمہوریت اور شہادت کا بھی درس دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نہ صرف دہشت گردی کی سختی سے مذمت کرتا ہے بلکہ کسی بھی دوسرے مذہب کے افراد کو جبراً قبول اسلام پر بھی مجبور نہیں کرتا۔ دین اسلام کے ان سنہری جنگی اصولوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کا کوئی مذہب اور قانون انسانی حقوق کے تحفظ‘ عمل مساوات‘ انسانی حقوق کے احترام اور امن و آشتی کا تصور پیش نہیں کرسکتا جیسی دوران جنگ غیر مسلموں سے حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کے برعکس آج کل غیر مسلموں کی طرف سے مسلم مماک پر حملے اور ظالمانہ کارروائیاں قابل مذمت ہیں۔
اسلامی تقویم میں سن ہجری کا آغاز محرم الحرام سے ہوا۔ مسلمانوں کو غیر مسلموں سے مہمیز کرنے اور ان کی شان کو برقرار رکھنے کے لیے سن عیسوی سے ہٹ کر سن ہجری کا اجرا ہوا اور یہ تجویز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عمر بن خطابؓ نے پیش کی۔ حضرت عمرؓ نے چالیس مردوں اور گیارہ مسلمان عورتوں کے بعد اسلام قبول کیا مگر اسلام میں آپؓ کا مرتبہ اور اعزاز حضور اکرم کی اس حدیث سے حاصل ہوا کہ ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔‘‘ حضرت عمرؓ کی اصابت رائے کی اس سے بڑی کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔ عموماً آپؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مشورے دیتے قرآن میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ذریعے اس کے تائید کر دی جاتی۔
حضرت عمرؓ کا تعلق قبیلہ بنی عدی خاندان سے تھا‘ زمانہ جاہلیت میں بھی آپؓ کے سپرد سفارت کا کام تھا۔ قبول اسلام کے بعد بھی آپؓ ہر غزوہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں بھی آپؓ ان کے مشیر خاص رہے اور سلطنت اسلامی کے استحکام کے لیے انتہائی گراں قدر خدمات انجام دیں۔
حضرت عمرؓ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دورِ خلافت میں مرکز کو اتنا منظم اور مستحکم کر دیا تھا کہ وہ وحدت کا محور بن گئی تھی اور اس وحدت کا سرچشمہ اور اساس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مقدس تھی۔ حضرت عمرؓ کا دورِ خلافت فتح و نصرت‘ عدل و انصاف‘ اطمینان و سکون‘ سادگی اور طمانیت کا دور تھا اس دور میں غزوات میں جو فتوحات حاصل ہوئیں اس نے مسلمانوں میں اپنی قوت کا شعور اور ادراک پیدا کر دیا تھا۔ مسلمانوں نے اپنے پیغام اسلام کو ساری دنیا تک پہنچایا اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اسلام کی اشاعت سے باز نہیں رکھ سکی۔
حضرت عمرؓ اپنے نفس کا ہر لمحہ محاسبہ کرنے والے انتہائی صائب الرائے مدبر‘ سیاسی بصیرت رکھنے والے منتظم اور فاتح تھے۔ عدل و انصاف میں وہ اپنے قریبی رشتے دار سے بھی کوئی رو رعایت نہ کرتے۔ آپؓ کا دور عدل و انصاف میں ضرب المثل ہے۔ ایک مرتبہ عبدالرحمٰن بن عمرؓ نےمصر میں ابو سروعہ کے ساتھ نبیز پی جس سے ان پر نشہ طاری ہو گیا۔ وہ دونوں عمر بن عاص کے پاس پہنچے کہ وہ ان دونوں پر حد جاری کردیں۔ ابن عاص نے ان کو جھڑک کر نکال دیا۔ اس پر عبدالرحمٰن بن عمرؓ نے کہا اگر آپؓ نے حد جاری نہ کی تو جب میں والد کے پاس جائوں گا یہ بات ان سے کہوں گا۔ عمرو بن عاص جانتے تھے کہ اگر انہوں نے نبیز پینے والوں پر حد جاری نہ کی تو عمر بن خطاب ناراض ہوں گے اور مجھے معزول کر دیں گے اس لیے وہ ان دونوں کو گھر کے صحن میں لائے اور ان پر حد لگائی۔ عبدالرحمن بن عمرؓ گھر کی کوٹھری میں گھس گئے اور اور اپنا سر مونڈھا‘ حصرت عمرو بن عاص نے اس بارے میں خلیفہ حضرت عمرؓ کو ایک لفظ بھی نہ لکھا مگر انہیں حضرت عمرؓ کا خط موصول ہوا جس میں عمرو بن عاص کو سرزنش کی گئی تھی کہ تم نے عبدالرحمٰن کو اپنے گھر میں تازیانے لگایا اور وہیں سر مونڈھا حالانکہ تم جانتے تھے کہ یہ کام میری مرضی کے خلاف کر رہے ہو۔ عبدالرحمٰن تمہاری رعایا کا ایک فرد ہے‘ تمہیں اس کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیے جو تم دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہو۔ جس وقت میرا خط تمہیں پہنچے اسی وقت اسے ایک ادنیٰ عبا پہنائو اور کاٹھی پر بٹھا کر فوراً میرے پاس بھیجو تاکہ وہ بدکرداری کی حقیقت سے آگاہ ہو جائے۔
حضرت عمرؓ کا دور حکومت اپنے عدل و انصاف کی بنا پر ایک مثالی دور تھا اور تمام خلفا اور تمام مسلمان بادشاہ انصاف کے سلسلے میں وہ کام نہ کر سکے جو حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سقیفہ بن ساعدہ میں حضرت عمرؓ نے جرأت اور ہمت سے حضرت ابوبکرؓ کو خلیفہ اوّل بنا کر دوسروں کو ترغیب دی اس سیاسی فہم و فراست کے مظاہرے سے وہ اختلاف ختم ہو گیا جو انصار و مہاجرین میں شروع ہونے کا خطرہ تھا۔
حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں شام‘ عراق‘ ایران‘ مصر مسلمانوں کے زیر نگیں آگئے تھے اور ہزارہا میل کی سرزمین کا انتظام آپؓ تیار رہتے۔ حصرت عمرؓ کا جاسوسی نظام اتنا مکمل اور مستحکم تھا کہ آپؓ مدینے میں بیٹھے بیٹھے ان جنگوں میں اپنے سپہ سالار کو آگے بڑھنے‘ پیچھے ہٹنے‘ کسی جگہ ٹھہرنے‘ دشمن پر حملے کے احکام بھیجا کرتے تھے اور اسلامی فوج ان احکامات کے مطابق عمل کرکے ہمیشہ کامیاب ہوتی۔
حضرت عمرؓکی عاجزی اور انکساری کا یہ عالم تھا کہ دن رات بے کل رہتے اور فرماتے اگر میں دن میں سو جائوں تو رعایا کا نقصان کروں گا اور اگر رات کو سو جائوں گا تو اپنا نقصان کروں گا۔ ان دونوں اوقات میں کیسے سو سکتا ہوں۔ رات کا بیشتر حضہ مدینے کی گلیوں میں رعایات کا حال معلوم کرنے میں گشت لگاتے رہے‘ ان کے عمال بھی سیرت و کردار میں یکتا تھے کیوں کہ آپؓ ان پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ آپؓ کے مضبوط جاسوسی نظام کی وجہ سے مدینے میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔
13 ہجری سے 14 ہجری تک خلیفہ حضرت عمر کے زمانے میں کرمان‘ سجتان‘ مکران اور اصفہان کے علاقے فتح ہو چکے تھے‘ سلطنت اسلامی بائیس لاکھ مربع میل تک پھیل چکی تھی‘ حج سے واپسی پر راستے میں ٹھہر کر بہت سی کنکریاں جمع کرکے ان پر چادر بچھا کر لیٹ گئے‘ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا کی ’’خداوند! اب میری عمر زیادہ ہو گئی ہے‘ میرے قویٰ کمزور ہو گئے ہیں‘ میری رعایا ہر جگہ پھیل چکی ہے اب اس حالت میں مجھے اٹھا لے کہ میرے اعمال برباد نہ ہوں اور میری عمر کا پیمانہ اعتدال سے متجاوز نہ ہو۔‘‘
حضرت کعب بن احبار نے کہا ’’میں تو رات میں دیکھتا ہوں کہ آپؓ شہید ہوں گے۔‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ عرب میں رہتے ہوئے میں شہید ہو جائوں؟‘‘ پھر آپؓ نے دعا کی ’’اے خداوند!مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب فرما اور اپنے محبوب کے مدینے کی حدود کے اندر پیغام اجل پہنچا۔‘‘
امام زہریؓ کہتے ہیں کہ حصرت عمرؓ نے حکم دیا کہ کوئی بالغ مشرک مدینے میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلے میں کوفے کے گورنر حضرت مغیرہ بن سعبہ نے آپؓ کو لکھا ’’کوفے میں فیروز نامی ایک شخص نقاش‘ تجاری اور آہن گری میں مہارت رکھتا ہے‘ اگر آپؓ اسے مدینے میں داخل کی اجازت دے دیں تو وہ مسلمانوں کے بہت کام آئے گا۔‘‘ حضرت عمرؓ نے اسے بھیجنے کا حکم دیا۔ فیروز نے مدینہ پہنچ کر شکایت کی کہ مغیرہ نے مجھ پر بہت زیادہ ٹیکس لگا رکھا ہے‘ آپ کم کرا دیجیے۔ حضرت عمرؓ نے اس سے دریافت کیا کہ ’’کیا ٹیکس ہے؟‘‘
’’دو درہم روزانہ۔‘‘
حضرت عمرؓ نے پوچھا ’’تمہارا پیشہ کیا ہے؟‘‘ فیروز نے کہا تجاری‘ نقاشی اور آہن گری۔‘‘ حضرت عمرؓ نے فرمایا ان صنعتوںکے مقابلے میں یہ رقم زیادہ نہیں ہے۔‘‘ فیرو زکے لیے امیر المومنین کا جواب ناقابل برداشت تھا‘ وہ دل میں ان کے خلاف بغض لے کر چلا گیا۔ پندرہ روز کے بعد حضرت عمرؓ نے اسے ہوا میں چلنے والی ایک چکی بنانے کا حکم دیا۔ جس پر اس نے ترش روئی سے کہا ’’میں تمہارے لیے ایسی چکی تیار کروں گا جس کو یہاں کے لوگ کبھی نہیں بھول سکیں گے۔‘‘ اس کے جانے کے بعد حضرت عمرؓ نے فرمایا یہ مجھے قتل کی دھمکی دے کر گیا ہے۔‘‘ دو سرے دن فیروز ایک دو دھار خنجر آستین میں چھپا کر لایا اور مسجد کے ایک گوشے میں بیٹھ گیا۔ حضرت عمرؓ فجر کی امامت کے لیے آگے بڑھے اور جونہی انہوں نے نماز شروع کی فیروز نے اپنے خنجر سے ان پر چھ وار کیے جس میں ایک وار ناف کے نیچے پڑا۔ حضرت عمرؓ نے گرتے گرتے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ پر کھڑا کر دیا اور خود زخموں سے چو ر زمین پر گر پڑے۔ فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا لیکن آخر پکڑا گیا اور اسی وقت اس نے خودکشی کر لی۔ حضرت عمرؓ نے سب سےپہلے اپنے قاتل کا نام پوچھا‘ لوگوں نے فیروز کا نام بتایا تو شکرادا کیا کہ کسی مسلمان کے ہاتھوں قتل نہیں ہوا۔ حضرت عمرؓ کے کاری زخم کے بعد مسلمانوں کو سب سے زیادہ یہی فکر ہوئی کہ اب ان کے بعد امت کا محافظ کون ہو گا؟ مسلمانوں کا اصرار بھی بڑھا تو آپؓ نے فرمایا ’’میرے بعد عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، عبدالرحمٰنؓ بن عوف اور سعدؓ بن وقاص تین دن کے اندر جس شخص کو منتخب کر لیں اسی کو خلیفہ بنا دیا جائے۔ آخر وقت میں اپنے صاحبزادے عبداللہ کو حضرت عائشہؓ کے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے پاس دفن ہونے کی درخواست کی۔ حضرت عائشہؓ یہ پیغام سن کر بہت غم زدہ ہوئیں اور فرمایا میں یہ جگہ اپنے لیے مخصوص رکھی تھی مگر آج میں عمرؓ کو اپنی ذات پر ترجیح دیتی ہوں۔ حضرت عائشہؓ کا جواب سن کر حضرت عمرؓ بہت خوش ہوئے اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ یکم محرم الحرام 24 ہجری کو آپؓ نے انتقال فرمایا۔ حضرت صہیبؓ نے نماز جنازہ پڑھایا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ، حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ بن وقاض، حضرت طلحہؓ اور عبدالرحمنؓ بن عوف نے قبر میں اتارا۔
دین اسلام سے بڑھ کر دنیا کا کوئی مذہب اور قانونؓ انسانی اقدار کے تحفظ کا تصور پیش نہیں کرسکتا جس میں دورانِ جنگ بھی غیر مسلموں سے حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام کے سنہری جنگی اصول ہمیشہ سے تابندہ رہے ہیں‘ مگر یزیدی دور میں کھلے عام ظالمانہ اور سفاکانہ دہشت گردی کا آغاز ہوا بلکہ یزید کی تخت نشینی اور حکومت کا آغاز ہی ظلم و ستم اور سیاسی جبر و تشدد سے ہوا۔ اس نے اپنے غیر قانونی اور بے اصولی حکومت کو دوام بخشنے اور اپنی مستقل بادشاہت قائم کرنے کے لیے ملوکیت اور آمریت سے کام لیتے ہوئے خلفائے راشدین کے قائم کیے ہوئے نہ صرف تمام ریاستی ادارے تباہ و برباد کر دیے بلکہ مشاورت اور جمہوریت کی دھجیاں بکھیر دیں اس نے قومی خزانے میں لوٹ مار اور اسے ذاتی استعمال میں لانے کو رواج دیا۔ فحاشی‘ شراب نوشی‘ بدکاری اور قمار بازی کو عام کیا۔ یزید کے دورِ حکومت میں صرف کر بلا میں ظلم و ستم کا بازار گرم نہیں ہوا بلکہ جب مدینے والوں نے اس کی بیعت سے انکار کیا تو اس نے گورنر دمشق اور گورنر شام کے ذریعے بڑے بڑے لشکر تیار کرکے انہیں مدینے پر چڑھائی کا حکم دیا اور تین دن کے لیے ان پر اہلِ مدینہ کا خون حلال کر دیا۔ اسی وجہ سے مشہور واقعہ حرہ پیش آیا جو شہر مدینہ کے ساتھ ہی ایک مقام کا نام ہے جہاں سے یزیدی فوجیں مدینے میں داخل ہوئیں اور ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کا قتل عام کیا۔ جو بچ گئے ان سے جبراً بیعت لی۔ مکہ میں بھی اس لشکر نے ریاستی دہشت گردی کی انتہا کر دی۔ اس ظلم و ستم کے لیے حضرت امام حسینؓ نے قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ حضرت حسینؓ کی حمیت نے اس چیز کی اجازت نہیں دی کہ جس دین کے تحفظ کے لیے ان کے ناناؐ نے سمجھوتہ نہیں کیا اور کفار قریش پر واضح کر دیا کہ اگر کفار میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لا کر رکھ دیں پھر بھی میں دعوت کے حق سے باز نہیں آئوں گا۔
شریعت اسلامیہ میں عام مسلمانوں کو رخصت کی اجازت دی تھی مگر حضرت امام حسینؓ نے ظالم یزیدی حکومت کے خلاف نعرۂ حق بلند کیا اور حرمین شریفین کی پامالی سے روکنے اور اس کے شر سے بچانے کے لیے کربلا کا سفر کیا۔ اپنے جگر گوشوں کو قربان کیا اپنی جان بھی جانِ آفریں کے سپرد کر دی مگر سر نہیں جھکایا اور سجدے کی حالت میں شہید کر دیے گئے۔ حضرت حسینؓ نے یہ عظیم قربانی اس لیے دی تاکہ احترام انسانیت کو بقا نصیب ہو اور دین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل روح کا تحفظ ہو۔ اسلام کے نظام مشاورت و جمہوریت کو د ام ملے‘ مظلوموں کو قیامت تک ظالموں کے خلاف آظازِ حق بلند کرنے کا حولہ ملے‘ محکوموں کو اپنے حقوق کی جگن لڑنے کا درس ملے‘ ظلم و جبر پر مبنی نظام کے خلاف آزادی کے متوالوں کو اٹھ کھڑے ہونے کا جذبہ ملے۔ دین اسلام کی امن پسندی‘ اعتدال پسندی رواداری اور اخلاقی اقدار کو قیامت تک زندہ کر دیا۔
حصرت حسینؓ نے کربلا میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے دینِ اسلام کو قیامت تک کے لیے زندہ رکدیا اور دشمنانان اسلام وک سزائے موت سے ہمکنار کر دیا۔ حضرت حسینؓ نہ صرف دین اسلام کے علمبردار تھے بلکہ عدل و انصاف‘ مساوات انسانی‘ حرمتِ آزادی اور انسانی جمہوریت کے علمبردار تھے۔ وہ حق کا نمائندہ‘ سچائی کا نشان‘ روشنی کا مینار‘ علم و حکمت کا نیر تاباں‘ احترامِ انسانیت کی مثال تھے۔ یزید ظلم اور دہشت گردی کا نام ہے۔ وہ قیامت تک اسی پہچان سے جانا جائے گا۔