جدت، روایت سے کافی آگے نکل چکی۔ کبھی گھر اور گرہستی کو پوری دنیا مانا جاتا تھا پر اس موبائل نے ہم جیسی گھریلو خاتون کو اک نئے عہد سے روشناس کرایا۔ سوشل میڈیا فقط چند ایپ کا نام نہیں بلکہ ایک پورا جہان ہے۔ مختلف نظریات و افکار کے رنگ برنگ لوگ، کوئی سنجیدہ تو کوئی شرارتی، کہیں دانش وری تو کہیں حماقت۔ اسکرول کرتے جاؤ اور ایک نئے جہت سے متعارف ہوتے جاؤ۔ مسکراہٹ، کھلکھلاہٹ، جھنجھلاہٹ، ہچکچاہٹ، لمحہ بہ لمحہ پوسٹ اور جذبات ساتھ ساتھ بدلتے جائیں پر کبھی ایسی گڑبڑاہٹ بھی وارد ہوگی‘ یہ کبھی سوچا نہ تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ سہ پہر کو دو لمحے فراغت سے گزارنے کے لیے چار دانش وروں کی آٹھ لفظی دانش وری کو اسکرول کرکے جب پانچویں پوسٹ پر پہنچے تو کسی نوبیاہتا نادان لڑکی کی پوسٹ تھی جو ساس کا طعنہ ہو یا گھر کا کھانا ، سبھی کچھ فیس بک پر شیئر کرنے کی عادی تھی پر اس بار پوسٹ نے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ’’میرے میاں جہنم گئے ہیں، چار دن بعد واپسی ہے۔‘‘
ہائیں یہ کون سا ڈیجیٹل جہنم آگیا ، جہاں جا کر واپس بھی آیا جاتا ہے اور اگر سچ میں ایسا کوئی جہنم ایجاد ہو ہی چکا ، جو ہماری معلومات سے پرے ہے تو بھئی جا کر شرم سے ڈوب مرو، فیس بک پر اعلان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ذرا دھیان لگا کر دوبارہ پڑھا تو میاں جی جہنم نہیں جہلم گئے تھے۔
اوہ! سکون کا سانس لے کر اسکرول کیا تو اگلی پوسٹ کسی پھڑپھڑاتی بلبل کی تھی۔ آہ یہ فیک آئیڈیاز والے شاعرانہ نام رکھنے کے چکر میں جابرانہ نام رکھ لیا کرتے ہیں۔ کوئی شعر پوسٹ کیا گیا تھا
’’ایک تیرا بچھڑنا مجھے خارش کرگیا‘‘
ہیں جی…! وہ محبوب تھا یا پریکلی ہیٹ پاؤڈر محبوب کے جانے سے نیند کی کمی، سینے میں درد، بھوک کا نہ لگنا تو سنا تھا حالانکہ علامات ساری نمونیا کی ہیں پر نہ جی ڈال دو محبوب کے سر ہمیں کیا، پر اب خارش بھی؟ کوئی نیا ٹرینڈ نکلا تھا کیا! ایک بار پھر شعر پر نظر جمانی ہی پڑی:
’’ایک تیرا بچھڑنا مجھے خاموش کر گیا‘‘
اُف کھسیاہٹ ہی کھسیاہٹ، جانے یہ لفظ آج اتنی شرارت کیوں کر رہے تھے ، خاموش گزر جانا ہی بہتر تھا۔
اگلی پوسٹ کچھ منچلی لڑکیوں کے گروپ میں تھی، جنہیں ہر سوال کا جواب سوشل میڈیا سے ہی چاہیے تھا۔ امتحان میں تو ڈھنگ کا جواب دینے جوگی تھی نہیں ، تب ہی سپلی پر سپلی لیتی تھیں۔
’’سوہنی کڑیو! جلدی جلدی آجاؤ اور دسو اگر حُسن اور داغ میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑے تو کیا لو گی۔‘‘
بڑا ہی عجیب سوال تھا بھئی! لڑکیوں کے جواب جاننے کے لیے کمنٹ باکس میں گئے تو ہر لڑکی کو داغ چاہیے تھا۔ مانا کہ داغ اچھے ہوتے ہیں پر کیا اتنے اچھے ہوتے ہیں کہ حُسن کو ہی داغ داغ کرلیا جائے؟ موبائل کو تھوڑا دور کرکے ان حسیناؤں کے خیالات پھر سے جاننے چاہے تو وہ حُسن اور دماغ میں سے دماغ کا انتخاب کرتی پائی گئیں۔
ایک لمحے کے لیے دوپٹہ کا کونا دانتوں میں دبایا پر دوسرے ہی لمحے چھڑا لیا کیوں کہ اسی دوپٹے سے چشمہ صاف کرنے کی ضرورت آن پڑی تھی، چشمہ اتار کر جونہی اس کا شیشہ صاف کرنا چاہا انگلیاں اور انگوٹھا آپس میں ہی ٹکرا گئے۔
یہ کیا چشمہ کے تو دونوں عدسے ہی غائب تھے… تو گویا صبح ہمارے سرہانے سے گزرتے ہوئے بیٹے کے پیر میں جو چُبھا تھا وہ ہمارا چشمہ تھا اور ہمارے پوچھنے پر کہا کہ آپ کا قلم پیروں میں آگیا اور عجلت میں باہر چلا گیا تھا۔ اس کی ساری عجلت تو ہاتھ آنے پر ہم نے نکال ہی دینی تھی پر اُس وقت موبائل کا رکھ دینا ہی بہتر تھا کیوں کہ مزید گلوں کی گل افشانیاں سہنے کا یارا نہ رہا تھا۔