’’یار! یہ پھوپھیاں ہوتی ہی فساد ہیں‘ دماغ کھا گئیں جاوید انکل کا کہ حصہ دو ہمارا… اوپر سے وہ عبداللہ اپنے ابا کے پیچھے ہے کہ بابا حق دار کو حق دے دیں۔ ابھی جاوید انکل سے نیچے ملاقات ہوئی وہ کہہ رہے تھے تم ہی عبداللہ کو سمجھاؤ کہتا ہے دین یہی ہے‘ مشکل حل کرنے والا اللہ ہے‘ دکان بیچنے سے رزق کے دروازے بند نہیں ہوں گے۔ اس کو کون سمجھائے کہ میں چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہوں کیا ملے گا حصے میں۔‘‘
’’عبداللہ کے دادا کے انتقال کو ڈیڑھ سال ہوگیا ناں…؟ میں نے اپنے میاں سے پوچھا‘ جو اپنے پڑوسی جگری دوست کے گھر کے متعلق بات کر رہے تھے اور کافی پریشان تھے‘ کہنے لگے ’’ہاں دو سال ہوگئے… مگر دیکھو مجبوری بھی کوئی چیز ہے یوں بنی بنائی دکان کا بٹوارہ آسان نہیں۔‘‘
’’مگر اپنا ہی حق تو مانگ رہی ہیں۔‘‘
’’ان کا ہی ہے کون منع کرتا ہے‘ مگر تھوڑے صبر سے کام لیں‘ اُن لوگوں کو کہیں اور اپنے قدم جمانے دیں پھر دے دیں گے۔ یہ عبداللہ جب سے جماعت میں جانا شروع ہوا ہے یک طرفہ بات کرنے لگا ہے۔ بھئی دین دنیا دونوں دیکھنے چاہئیں۔ اپنے باپ کی مجبوری کو بھی تو دیکھیے۔‘‘
’’اچھا کھانا ٹھنڈا ہوجائے گا‘ آپ ہاتھ دھو کر کھانے پر تو آئیں۔‘‘
…٭…
جاوید انکل ہمارے پڑوسی تھے اور عبداللہ ہمارے میاں کے بچپن کا جگری یار۔ ان دنوں ان کے گھر میں بڑی پریشانی چل رہی تھی اور سدباب نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے کوفتے بنائے تو سوچا ایک پیالہ جاوید انکل کے گھر بھی دے آؤں۔ رشیدہ خالہ کو میرے ہاتھ کے کوفتے بہت پسند تھے یوں ملاقات بھی ہو جائے گی۔ سو میں نے کوفتوں کا ایک پیالہ بھرا اور رشیدہ خالہ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
’’ارے ماہم تم! بڑے دنوں بعد دیدار کرایا۔‘‘ ہمیشہ کی طرح نہایت گرم جوشی سے استقبال ہوا پھر شربت منگوایا۔ باتوں کے دوران انہوں نے کہا کہ ’’ماہم ہم یہ گھر چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔‘‘
’’کیوں خالہ جان؟‘‘
’’بیٹی تمہارے جاوید انکل نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دکان میں سے جو حصہ چار بہنوں کا ہے وہ گھر بیچ کر ادا کر دیں گے تاکہ کاروبار جما رہے‘ ہمارے پاس اتنا تو ہے نہیں کہ چاروں کا حصہ بنا کچھ بیچے دے دیں مگر اس محلے سے جانے کو دل نہیں کر رہا… یہ اپنائیت برسوں میں ملی ہے۔ نئی جگہ کہاں دل لگے گا۔‘‘
’’گھر بدلنا آسان نہیں مگر یہ بہتر تجویز ہے‘ اس طرح آپ کا کاروبار صحیح رہے گا تو جمع کرکے پھر اپنا گھر کر لیجیے گا ان شاء اللہ۔‘‘
’’بیٹی! اپنا گھر تو بہت دور کی بات ہے ابھی گھر کے کرائے کا روگ جڑ جائے گا پھر کہاں اس مہنگائی میں کچھ جمع ہو گا‘ بس میرا دل بیٹھے جا رہا ہے‘ تمہاری ساس اللہ بخشے بڑی نیک عورت تھیں میں پریشانی میں ان سے ہی بات کرتی تھی اور وہ دو بول سے میری پریشانی حل کر دیتی تھی اب وہ نہیں ہیں تو سوچا تم سے کہہ کر دل ہلکا کر لوں۔‘‘
’’خالہ جان…!‘‘ میں نے ان کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں تھام کر کہا ’’آپ استخارہ کریںاللہ بہترین راہیں کھولے گاان شاء اللہ۔‘‘
…٭…
دن یونہی گزرتے رہے تقریباً دو مہینے بعد رشیدہ خالہ میرے پاس آئی کہنے لگیں ’’گھر کا سودا ہو گیا ہے‘ ان شاء اللہ تین ہفتوں میں ہم گھر خالی کر دیں گے سوچا تم سے مل لوں پھر کاموں میں کہاں وقت ملے گا۔‘‘
’‘خالہ جان پیکنگ میں کوئی مدد چاہیے تو بتا دیں کسی دن آکر کرا دوں گی۔‘‘
’’بیٹی! تمہاری مہربانی تم اتنا ساتھ دیتی ہو… بھول مت جانا‘ہمارے نئے گھر بھی آنا عائشہ منزل پر کرائے پر لیا ہے بس مجھے اپنے پودوں کا غم کھائے جا رہا ہے وہاں ایسی انگنائی نہیں یہ میرے دل کی دنیا کہاں لگے گی۔‘‘
میں ہنس دی پھر گویا ہوئی ’’آپ کی نندیں خوش ہیں؟‘‘
’’ہاں بہن! سچی عبداللہ کی بات اب دل کو لگتی ہے اس نے کہا تھا یوں جائداد رکھنے سے سکون نہیں ملے گا جب تک ابو بہنوں کو راضی نہ رکھیں گے‘ اور سچی جب سے حصہ ملنے کی خبر ہوئی ہے ایک خوش گوار فضا خاندان میں ہوگئی ہے اور جاوید میاں کے چہرے پر جو ہر وقت بل رہتے تھے ان شکنوں میں بھی کمی آئی ہے۔‘‘ انہوں نے انکل کے بارے میں ہنس کر کہا۔
’’ماہم آپس کی بات ہے مجھے تو زرینہ پر بڑا غصہ تھا کہ اس کو سب سے زیادہ لگی تھی حصے کی مگر اب پتا چلا وہ خالد ہے ناں‘ زرینہ کا میاں‘ اُس کی ملازمت ختم ہوگئی اس لیے وہ حصے کے پیسوں سے کچھ کرنا چاہ رہا تھا اب ان لوگوں نے لیاقت آباد میں کرائے کی دکان لے کر بیعانہ اور مال کا بندوبست حصے کے پیسوں سے ہی کیا ہے۔ سوچتی ہوں اگر ہم حصے کے اوپر ناگ بن کر بیٹھ جاتے تو اللہ کے گھر کیا حساب دیتے سچ پوچھو تو عبداللہ نے مجھے آہستہ آہستہ قائل کیا ورنہ میرا خود دل نہ تھا… اچھا تم کل شام آجانا پیکنگ کے لیے میں نہاری بناؤں گی تم گھر سے کھانا کھا کر مت آنا۔
…٭…
’’السلام علیکم ! ماہم بیٹی! تمہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی سچی تقریب کا لطف دوبالا کر دیا‘ آؤ بیٹھو۔‘‘
’’آپ بتائیں خالہ جان! آپ کا دل لگ گیا نئے گھر میں؟‘‘
’’بیٹی اللہ کا کرم ہے اور پتا ہے کہ سامنے والوں کی بیٹی ہے ماہین وہ اسے ماہی کہتے ہیں تو مجھے تم ہر وقت یاد رہتی ہو۔‘‘
کھانے سے فارغ ہو کر میں نے چلتے ہوئے پوچھا’’خالہ جان! وہ پودے کہاں سیٹ کیے آپ نے؟‘‘
وہ مجھے اپنے کمرے میں لے گئیں اور کھڑکی کا پردہ ہٹایا وہاں انہوں نے لوہے کا جال بنوا لیا تھا جو اب پودوں کے لیے بہترین جگہ بن گئی تھی۔ کہنے لگیں ’’ماہم! میں نے جب ان رشتوں کی جڑوں کا خیال رکھا تو اللہ نے میرے پودوں کی جڑوں کی خود حفاظت کر لی۔‘‘