یہ کراچی ہے میاں بحران رہتے ہیں یہاں
ملٹی پرپز قسم کے انسان رہتے ہیں یہاں
کراچی کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی معاملات پر نظر رکھنے والوں کو اس بات کا پوری طرح شعور ہے کہ یہ شہر مختلف النوع قسم کی محرومیوں اور بے چینیوں کا مرکب بن چکا ہے۔ ان مسائل اور محرومیوں کی تہوں اور سطحوں پر وقت کی دبیز دھند چھائی ہوئی ہے۔ وقتی حادثات انھیں کچھ لمحوں کے لیے اجاگر کردیتے ہیں اور وقت گزرنے کے بعد اس شہر میں زندگی دوبارہ اسی ڈگر پر رواں ہوجاتی ہے۔ اس شہر میں مسائل کے جال کے تانے بانے ایسے بُنے ہوئے ہیں کہ انھیں دیکھ کر ایک عجیب سے خوف کا احساس پورے جسم میں سرایت کرجاتا ہے۔
کراچی کے ان مسائل کی تصویر کو دیکھ کر جب ہم ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو بدانتظامی، افراتفری، فتنہ وفساد، رشوت ستانی اور قانون شکنی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کراچی جسے روشنیوں کا شہر اور ملکہ مشرق کے خطاب سے نوازا گیا، جس طرح اس پر لاقانونیت اور سفاکی کو تھوپا گیا ہے اس کی مثال پاکستان کے کسی اور شہر میں نہیں ملتی۔ اس پورے عمل نے اہلِ کراچی کے فکری اعتماد کو مجروح کیا ہے۔ سیاسی ارتقائی عمل کے تعطل نے اس شہر کے باشعور ذہنوں کو تنگ، سوچ کو محدود اور نظریاتی الفت پر جمود طاری کردیا ہے۔ لوگوں کی ذہنیت بگڑگئی، محبت و نفرت کے پیمانے تبدیل ہوگئے، اور ان چپ چاپ گزر جانے والے ماہ و سال نے اہلِ کراچی کی پیٹھ پر ایسے نشانِ ستم چھوڑے ہیں جنھیں بھلانے کے لیے کئی برسوں کی ضرورت ہے۔
کراچی کی ترقی کے لیے ما ضی، حال میں کیا منصوبے بنے، مثلاً ذرائع آمد ورفت، آب رسانی، نکاسی کا نظام، کراچی میں تعلیمی اداروں کا قیام، ثقافتی مراکز، تفریح گاہوں اور دیگر اہم ترقیاتی امور پر احمد حسین صدیقی، عثمان دموہی، عارف حسن اور کئی اہم مصنفین کی کتابیں موجود ہیں، ان تفصیلات میں جائے بغیر اس مضمون میں صرف سیاسی، سماجی منظرنامے پر ہونے والی شاعری کی چند جھلکیاں پیش کرنا مقصود ہے، تاکہ حقوق کراچی کی جدوجہد میں شعرا اور ادبا نے جو نگارشات پیش کی ہیں ان سے ہماری شناسائی ہوجائے۔ رئیس امروہوی، دلاور فگار، ذیشان ساحل، سرشار صدیقی اور دیگر اہم شعرا نے اس شہر کے مسائل کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا ہے۔ لیکن یہاں پر طوالت سے بچتے ہوئے چند شعرا کی تخلیقات پیش کروں گا تاکہ آپ اس اجمال کی جھلکیاں ملاحظہ کرسکیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قیام پاکستان کے بعد اردو بولنے والوں پر سندھ کا بڑا احسان ہے۔ اس صوبے نے نئے آنے والے لوگوں کو خطۂ زمین فراہم کیا، جس سے باہمی انجذاب کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہوگیا۔ خاندانوں کے مابین رشتے طے پانے لگے، اور اس پُرسکون فضا میں شہر کراچی کو پھلنے پھولنے کا بہترین موقع ملا۔ لیکن یہ فضا تادیر قائم نہ رہ سکی۔ بعض اردو بولنے والے رہنماؤں کے جاہلانہ احساسِ برتری اور سندھ کی سیاسی جماعتوں کی قوم پرستی نے ایسے حالات پروان چڑھائے جس میں باہمی تعاون کا سلسلہ ٹوٹ گیا، اور یہ آج تک جڑنے کا نام نہیں لیتا۔
ایوب خان کے مارشل لا سے لے کر جنرل ضیا کے دور تک… بے نظیر اور نوازشریف کی سیاسی چپقلش، جنرل پرویزمشرف کے مارشل لا کو بھی ہم شامل کرلیں تو ان ادوار میں بھی اس شہر کے لیے ٹھوس اور جامع حکمت عملی ترتیب نہیں دی گئی۔ کراچی کے دانش وروں کو مقامی سطحی مسائل پر الجھا دیا گیا… اس شہر کی مقامی آبادی اور دیگر قومیتوں کے مابین سیاسی خلیج کو منصوبہ بندی کے تحت منافرانہ سیاست میں تبدیل کردیا گیا۔ فرانسیسی مصنف لوراں گائے (Laurent Gayer) کی تصنیف ؛Karachi:Order Disorder and the struggle for the city، اسی طرح نکولا خان(Nichola Khan) کی کتابMohajir Militancy in Pakistan: Voilance and taransformation in the Karachi conflictکا مطالعہ کریں تو یہ بات مزید آشکار ہوجائے گی۔ کراچی ایک ایسا شہر ہے جس سے انکم ٹیکس کی مد میں کئی ملین امریکی ڈالر ماہانہ حاصل ہوتے ہیں، پھر بھی یہ شہر انسانی بنیادی حقوق کے ڈھانچے سے محروم ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
اس شہر کے ماضی اور حال کے اوراق کو کھنگال کر دیکھیں تو چند بڑے اور دیرینہ مسائل اب عفریت کا روپ دھار چکے ہیں۔ مردم شماری میںکیے جانے والے گھپلے اپنی جگہ… پانی، بجلی، نکاسیِ آب، ذرائع آمدورفت اور روزگار کے مسائل اپنی جگہ… دیگر شہروں سے آنے والے مصیبت کے ماروں کا دم بھرتے بھرتے اس شہر کا دم نکل چکا ہے۔ پھر کوٹا سسٹم کے عفریت نے طبقاتی کش مکش کے ایک ایسے جال میں اس شہر کو جکڑا ہوا ہے جس سے نکلنے کے لیے اس شہر کے لوگوں کی صلاحیتیں تباہ و برباد ہورہی ہیں۔
شہر کے ساتھ برتی جانے والی بے رخی اور لاقانونیت نے اس کا نقشہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ رئیس امروہوی نے لکھا ہے کہ:
مسائل کی کثرت ہے اس شہر میں
زمانے کی حالت یہ کیا ہو گئی
کراچی تھی پہلے عروس البلاد
مگر اب عروس البلا ہو گئی
احمد حسین صدیقی نے اپنی کتاب ’’گوہر بحیرہ عرب‘‘ میں لکھا ہے کہ: ’’تمام بڑے شہروں کی طرح کراچی بھی بے شمار مسائل کا شکار ہے، بلکہ یہ شہر تحقیقی مضامین اور رپورٹوں میں ضروری سہولتوں کے فقدان اور پے چیدہ ترین مسائل کے حامل شہر کی حیثیت سے ایک’’کیس‘‘ یا مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔‘‘ انھی مسائل کو شبنم رومانی نے اپنی نظم ’’سیر کراچی‘‘ میں پیش کیا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ معرکہ آرا مثنوی ملک کے ادبی و ثقافتی حلقوں میں کس قدر مقبول رہی ہے۔ ’’مثنوی سیر کراچی‘‘ کلیدِ میکدہ کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ درحقیقت یہ مثنوی کراچی کی سیربین ہے۔ اس سیربین کے عدسے سے کراچی اور اس کی زندگی کے سارے ابعاد اپنی تمام تر وسعت اور گہرائی کے ساتھ جلوہ فگن نظر آتے ہیں۔ تفریح گاہیں ہوں یا صنعت و حرفت کے مراکز… بستیاں، ادارے ہوں یا درس گاہیں… سڑکیں ہوں، بازار، یا ادب و صحافت کی سر گرمیاں… غرض کہ اس شہرِ نگاراں کی بھرپور زندگی کی جملہ رونقیں اور ہنگامے اس مثنوی کے صفحات میں سمٹ آئے ہیں۔شبنم رومانی نے کراچی میں یکجا ہونے والی مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کی بھرپور طریقے سے تر جمانی کی ہے۔ ان مختلف تہذیبوں کے پس منظر میں ہمیں مختلف علاقوں کے چلتے پھرتے، ہنستے بولتے، جیتے جاگتے انسانوں کے پیکر متحرک نظر آتے ہیں۔ مثنوی سے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
یہ کالونی دلّی کے لمڈوں کیا جاں
مرے چاند تو جا ریا ہے کہاں
(مضافات)
اگر چاہ تھی چائے کو بولتے
تم ایسا بھلا کائے کو بولتے
(حیدر آباد کالونی)
اے من لیا تُسّی او وڈّے نیک جی
پیا اے اتھے اک نَلو اک جی
(ہائوسنگ سوسائٹی)
اسی طرح شوکت تھانوی کی نظموں میں اس شہر کا کرب اور مسائل دیکھے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے طنزیہ انداز اپنا کر پُرہجوم روشنی کے اس شہر میں چھائی ہوئی اندرونی خاموشی کو گویائی عطا کی۔ شوکت تھانوی کی نظموں میں واقعات کی جھلکیاں تہ در تہ موجود ہیں جسے بجا طور پر ’’روحِ عصر‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ آپ نے اپنے عہد میں کراچی شہر کے مسائل کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ اس کی مثال ان کی نظم ’’ہم جہاں ہیں‘‘ کے چند اشعار میں دیکھیے:
ناظم آباد میں جو رہتے ہیں
عافیت ان کے گھر نہیں آتی
مچھروں اور مکھیوں کے سوا
کوئی شے وقت پر نہیں آتی
دن کو بجلی تو رات کو پانی
شرم ہم کو مگر نہیں آتی
مجھ سے کھٹمل سوال کرتے ہیں
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
گندگی کی ہوئی ہے عادی ناک
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
سید ضمیر جعفری کی نظم ’’کراچی کی بس میں سفر ہورہا ہے‘‘ تو زبان زدِ عام ہے، لیکن شوکت تھانوی کی نظم’’کراچی کی بسیں‘‘ بھی اس شہر کے دیرینہ مسائل کی جانب بھرپور توجہ مبذول کرواتی ہے۔
دل ربا، اے نازنینو! اے کراچی کی بسو
تم پہ صدقہ ہو کہ ہم مر جائیں لیکن تم جیو
ہو کے چکنا چور اترے بس سے باحالِ خراب
جیسے بندر نوچ کے پھینکے منڈیری سے کتاب
اس زبوں حالی پہ بھی خوش ہیں کہ ہم ہیں کامیاب
مل گئی ہے گھر کی جنت جھیل کر یوم حساب
رات بھر یہ بس رہے گی ذہن پر اپنے سوار
صبح دم ہم پھر وہی ہوں گے وہی اپنی قطار
اس کے علاوہ دلاور فگار نے بھی ذرائع آمد ورفت، ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزیوں، ٹریفک نظام اور نظم و نسق میں ہونے والی بے قاعدگیوں کا ذکر کیا ہے۔ آج اس شہر سے یہ ٹوٹا پھوٹا نظام بھی رخصت ہوگیا۔ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ ایک میٹرو پولیٹن شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہیں۔ چنگ چی رکشوں نے اس شہر کے ماحول کو دیہاتی قصبے میں تبدیل کردیا ہے، اور جو نظام کام کررہا ہے وہ اس شعر کی مانند بنا ہوا ہے:
بس میں لٹک رہا تھا کوئی ہار کی طرح
کوئی پڑا تھا سایۂ دیوار کی طرح
سہما ہوا تھا کوئی گناہ گار کی طرح
کوئی پھنسا تھا مرغِ گرفتار کی طرح
ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی حکمرانی نے سندھ کی لسانی اکائیوں میں محرومی کی نفسیات کو فروغ دیا۔ انھوں نے کوٹا سسٹم جیسے تفریق کے نظام کو سندھ کے عوام پر لاگو کرکے معاشی اور معاشرتی سطح پر پہلے سے موجود لسانی اکائیوں میں خلا کو اور زیادہ وسیع کردیا۔ ضیاء الحق کے مارشل لا نے اسے مزید تقویت دی۔ ہر فرقہ دوسرے فرقے کے خلاف محاذ بنائے کھڑا تھا۔ ہر دوسرے دن ہڑتال کی کال سامنے آجاتی۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے بھتہ وصولی کلچر کا آغاز کردیا تھا۔ اس پر محسن بھوپالی نے جو اظہار کیا وہ آج ضرب المثل کی صورت میں