میرے ووٹ کا حقدار کون؟

240

”شیدے کیا حال ہے، آج کل کہاں رہتا ہے، سب ٹھیک تو ہے نا؟“
”جی جی شاہ صاحب سب ٹھیک ہے، آپ کے ہوتے ہوئے بھلا کیا مسئلہ ہوسکتا ہے! آپ مائی باپ ہیں ہمارے، آپ کو دیکھ کر جی اٹھتے ہیں۔“
”یہ رفیق نظر نہیں آرہا، محلے میں بھی رونق نہیں ہے، اور چاچا شرفو کی دکان بھی بند ہے۔ سب مزے میں تو ہیں نا؟“
”جی شاہ صاحب سب مزے میں ہیں۔ چاچا شرفو تو فوت ہوگیا ہے اور رفیقہ گاؤں چھوڑ گیا ہے۔“
”چاچے کا انتقال ہوگیا ہے! کب؟“
”اس بار گندم کی کٹائی پر چاچے کی فوتگی کو چوتھا سال لگ جائے گا۔“
”اور رفیق کو کیا ہوا جو برادری کو چھوڑ کر چلا گیا؟“
”کیا کرتا، وڈیرہ اُس کے پیچھے پڑ گیا تھا، اور پھر پٹواری نے بھی تو اچھا نہیں کیا، اُس کی زمین پر شریکوں سے قبضہ کروا دیا۔ سنا ہے اپنے سسرالیوں میں جا بسا ہے۔“
”اوہو بڑی زیادتی ہوئی ہے، یار اتنا کچھ ہوگیا تُو نے مجھے اطلاع تک نہیں دی۔ چاچا شرفو میرا قریبی تھا، مرنے سے پہلے میرے بارے میں سوچتا ہوگا کہ اشرف بے وفا ہوگیا ہے۔ یہ سب تیرا ہی قصور ہے۔ دیکھ، اگر چاچا اپنے دل میں میرے بارے میں کوئی غلط فہمی لے کر مر گیا ہے تو قیامت کے روز تُو میرا مجرم ہوگا۔“
”نہیں نہیں شاہ جی ایسی کوئی بات نہیں۔ چاچا تو مرتے وقت بھی آپ کو ہی یاد کررہا تھا، کہتا تھا کہ سائیں اشرف اب بڑا آدمی بن گیا ہے، وزیر ہوگیا ہے، اُس کے پاس ہم جیسے غریبوں کے لیے وقت کہاں! اور ویسے بھی آپ سے ملتے بھی کیسے، کئی مرتبہ کوشش کی، کوئی ملنے نہیں دیتا تھا، ہر مرتبہ جواب ملتا کہ شاہ صاحب مصروف ہیں۔ پھر سوچا ہم جیسے غریبوں کو بھلا کون ملنے دے گا!“
”یار یہ سیاست بھی عجیب ہوتی ہے، اپنوں سے ملنے بھی نہیں دیتی۔ خیر تُو اپنا دل چھوٹا نہ کر، اب میں آگیا ہوں سب پہلے کی طرح ٹھیک ہوجائے گا۔ اچھا اب کام کی بات سن.. ابھی تو میں جلدی میں ہوں، شام کو سارے گوٹھ کا چکر لگانا ہے۔ رفیق اور حنیف کو بھی پیغام بھیج دے، الیکشن آگئے ہیں برادری کا نام اونچا کرنا ہے۔“
”شاہ صاحب! رفیق سے تو کہہ دوں گا، لیکن حنیف کا وعدہ نہیں کرتا، جب سے اُس کا بیٹا پڑھ لکھ گیا ہے وہ آپے سے باہر ہوگیا ہے۔“
”تو چھوڑ اسے، میرا بتانا کہ سائیں اشرف خود آیا تھا، باقی میں دیکھ لوں گا۔ بس تجھے سب کو یہی پیغام دینا ہے کہ شام کو بوڑ والے میدان میں جمع ہوجائیں، باقی باتیں وہیں پر کروں گا۔ اتنی بڑی برادری ہے، سب سے ملنا ہے۔“
شاہ اشرف کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق شیدے پر سارے ہی گوٹھ والوں کو بوڑ والے میدان میں جمع کرنے جیسی بھاری ذمہ داری آن پڑی تھی۔ خیر، برادری کا مسئلہ تھا اس لیے اشرف شاہ کے آنے کی خبر سارے ہی گوٹھ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ اِس مرتبہ لوگوں کے ذہن بدل چکے تھے، یہی وجہ تھی کہ بوڑ والے میدان میں لوگ اشرف شاہ کی سننے کے بجائے اپنی باتیں سنانے کو جمع ہورہے تھے، اب انتظار تھا تو فقط اشرف کی آمد کا۔ کوئی کہتا: پانچ سال غائب رہ کر اب ووٹ مانگنے آگیا ہے، تو کہیں سے برادری کے نام پر پیسہ کمانے کا الزام لگایا جاتا… کوئی سڑکوں اور گلیوں کی خستہ حالی پر سیخ پا دکھائی دیتا، تو کوئی روزگار نہ ملنے پر انتہائی غصے میں نظر آتا۔ غرض یہ کہ وہاں موجود ہر شخص اپنے ذہن کے مطابق کسی نہ کسی حوالے سے اشرف شاہ کی مخالفت کررہا تھا۔ شام گہری ہوتی جارہی تھی کہ اسی اثناء میں گاؤں کی جانب آتی خستہ حال سڑک پر آنے والی گاڑیوں کے قافلے کو دیکھ کر لوگوں کے جذبات مزید بھڑک اٹھے، اور ان کی بڑی تعداد سڑک کے کنارے جمع ہونے لگی۔ سڑک کے دونوں طرف لوگوں کا جم غفیر اشرف کے لیے حیران کن تھا، وہ استقبال کو آئے ہوئے لوگوں کی کیفیت سے بے خبر تھا۔ وہ دل ہی دل میں اپنے لیے برادری والوں کی محبت کے بارے میں سوچتا ہوا بوڑ والے میدان تک آن پہنچا۔ جوں ہی وہ گاڑی سے اترا، لوگوں نے اسے اپنے حصار میں لیتے ہی بولنا شروع کردیا۔ شور شرابے کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ کوئی بھی اشرف کی بات سننے کو تیار نہ تھا۔ کوئی فوتگیوں پر نہ آنے کا گلہ کرتا، تو کوئی ٹریکٹر ٹرالی کے لیے قرض نہ دینے کا شکوہ کرتا… کوئی مہنگی کھاد کا ذکر کرتا تو کہیں سے گوٹھ میں مڈل اسکول کی تعمیر کا وعدہ یاد دلانے کے لیے آوازیں لگائی جاتیں… زیادہ تر لوگ سیلاب کی تباہ کاریوں کا رونا روتے اپنی داستان سنانے میں مصروف تھے۔ اس صورتِ حال میں برادری سے ووٹ مانگنا تو درکنار، اشرف کو اپنی عزت بچانا بھی مشکل لگ رہا تھا۔ لوگ اشرف شاہ کی بات کسی صورت بھی سننے کو تیار نہ تھے، لیکن اشرف بھی تو اسی برادری کا تھا، بھلا ہار کیسے مان سکتا تھا! لوگوں کے درمیان خاصی دیر خاموش کھڑے رہنے کے بعد اپنی سیاسی بصیرت کا کمال دکھاتے ہوئے اپنے پیروں سے جوتے اتارکر چاچا غلامو کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے بولا:
”چاچا سو جوتے مار لے، اب آگیا ہوں، برادری کو راضی کیے بغیر نہیں جاؤں گا۔ تُو بڑا ہے، تیرا ہر فیصلہ مجھے منظور ہے، اگر میں پانچ سال برادری سے دور رہا تو اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ میں اپنوں سے کٹ گیا ہوں۔ پانی میں لاٹھی مارنے سے پانی کے دو ٹکڑے نہیں ہوتے، پانی پھر مل جاتا ہے۔ برادری والوں کی باتیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں، سزا دے لے مگر ایسا تو نہ کر! برادری کی عزت تیری عزت ہے، اور تیری عزت میری عزت ہے۔ غیر مارے تو دھوپ میں پھینک دیتا ہے، اپنا مارے گا تو کم سے کم چھاؤں میں تو پھینکے گا۔ اگر مخالف قوم کا آدمی جیت گیا تو ہماری دو ٹکے کی عزت بھی نہیں رہے گی۔ برادری کا شملہ اونچا کرلے یا اس کی عزت مٹی میں ملا دے، اب تُو جو چاہے فیصلہ سنادے۔ میں تیرا اپنا ہوں، برادری کی خوشی غمی میں آدھی رات کو بھی حاضر ہوجاؤں گا، اگر مخالف آگئے تو برادری کی ناک کٹ جائے گی۔“
اشرف شاہ کی لچھے دار باتیں سنتے ہی بوڑ والے میدان میں خاموشی چھا گئی، اشرف کی طرف سے کھیلا گیا برادری کارڈ کام کرگیا۔ چاچا غلامو نے ایک موقع دیتے ہوئے اشرف شاہ کو گلے لگا لیا۔ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات کے حصول کے مطالبات پر برادری سسٹم غالب آگیا۔ بوڑ والے میدان میں جہاں کچھ دیر پہلے تک اپنے جائز حقوق کی عدم فراہمی پر احتجاج کیا جارہا تھا، وہاں اب ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا جانے لگا، دعائے خیر کروائی جانے لگی اور پورا گوٹھ ”جیتے گا بھئی جیتے گا… اشرف شاہ جیتے گا“ جیسے نعروں سے گونج اٹھا۔
پاکستانی سیاست میں وڈیروں، ملکوں، چودھریوں اور جاگیرداروں کا کردار نیا نہیں۔ یہ ہمیشہ سے ہی نئی پارٹی اور نئے مونوگرام کے ساتھ اپنی اپنی برادریوں اور خاندانوں کے ووٹوں کی بنیاد پر حکمرانی کرتے آئے ہیں۔ ذات پات اور مسلک کی بنیاد پر سیاست کرتے ان الیکٹ ایبلز کا خاصہ رہا ہے کہ یہ اپنی اپنی برادریوں کے معصوم اور مظلوم عوام کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں پھنسانے کا خوب ہنر جانتے ہیں۔ آپ کو ایسے کئی کردار 1977ء سے 2018ء تک ہونے والے تمام انتخابات میں دیکھنے کو ملیں گے۔ ایسے لوگ چہرے بدل بدل کر، اور مختلف برادریوں کے کرتا دھرتا جو آپ لوگوں کے ساتھ اُن گلی محلوں میں جہاں سے گزرنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں اس قسم کی باتیں کرتے دکھائی دیں گے۔ وہ آپ کے ساتھ ایسے گھل مل جائیں گے جیسے برسوں کا یارانہ ہو۔ آپ کے ساتھ چارپائی پہ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے، آپ سے ہمیشہ کی طرح بڑے بڑے وعدے کریں گے، خود کو عام آدمی جیسا ثابت کرنے کی کوشش کریں گے، آپ کے مسائل اور پریشانیوں کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھیں گے، کسی غریب بچی کی شادی کے انتظامات کرنا ان کی اوّلین ترجیح ہوگی۔ گاؤں میں انتقال کر جانے والوں کے گھروں میں جاکر فاتحہ خوانی کرنا اور اپنی غلطی مان کر ناراضی ختم کرنا ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہوگا۔ وہ دعائے خیر بھی کروائیں گے۔ یہاں بتاتا چلوں کہ گاؤں کے رسم ورواج کے مطابق دعائے خیر کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے، یہ ایک قسم کا ایسا زبانی حلف نامہ ہوتا ہے جس سے انحراف ممکن نہیں۔ یہ دعا ایک طرح سے اس شخص کو ووٹ دینے کا پابند کرتی ہے۔ جب ایک شخص کے لیے یہ دعائے خیر ایک مخصوص گوٹھ یا برادری کی طرف سے ہوجاتی ہے تو پھر کسی دوسرے کے لیے نہیں ہوسکتی، یعنی پہلے آئیے پہلے پائیے.. جھوٹ بولیے، جھوٹے وعدے کیجیے، جھوٹے لارے لگاکر غریبوں کے ووٹ کے صحیح حق دار بن جائیے۔ اشرف شاہ نے بھی اسی فارمولے پر عمل کیا۔ میرا مطلب ہے اسی طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے ہی اشرف شاہ جیسے شاطر سیاست دانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ جلد سے جلد بڑی اور خاص طور پر اپنی برادری کو لچھے دار باتوں میں پھنسا کر اپنا ووٹ پکا کیا جائے، سو وہ اس میں کامیاب رہا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ ستّر سالوں سے ہم یہی کچھ دیکھتے اور سنتے چلے آرہے ہیں۔
بہت ہوچکا، اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو موروثی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ڈر اور خوف کی فضا کو ختم کرنا ہوگا۔ پانچ سال مسائل میں گھرے رہنے سے بہتر ہے کہ اپنے اچھے مستقبل کے لیے ایک دن کی سختی برداشت کرلی جائے۔ گھر بیٹھ کر اپنا ووٹ ضائع کرنے کے بجائے ایک ایک ووٹر کو نکلنا ہوگا۔ خاندانوں اور برادریوں کی جکڑن سے خود کو آزاد کرانا ہوگا۔ ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو پانچ سال پہلے بالکل اسی طرح آپ کے شہروں، محلے کی گلیوں میں آئے تھے اور کامیاب ہوجانے کے بعد آپ اُن کی شکل دیکھنے کو بھی ترستے رہے۔ عوام کو ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو کہ اپنی پارٹی کے لیڈروں کے لیے اپنے حلقوں میں بڑے بڑے جلسے منعقد کرائیں گے، پیسے دے کر نوجوانوں کو جلسے میں شرکت کرنے کا کہیں گے، اور اپنے ذاتی پیسوں سے غریب لوگوں کو کھانے اور بریانی کھلائیں گے۔ سب سے بڑھ کر اپنے لیڈر سے اپنے حلقے کے لیے بڑے بڑے اور جھوٹے منصوبوں کے وعدے کروائیں گے۔
خدارا ان لوگوں کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے یقین مت کیجیے گا، ورنہ اگلے پانچ سال پھر در بدر کی ٹھوکریں ہی آپ کا مقدر ہوں گی۔ اُن لوگوں کو بھی پہچانیے جو کہ ہر بار نئی سیاسی پارٹی میں شامل ہوکر خود کو نظریاتی اور اصولی سیاست کا شاہکار بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوچنا ہوگا کہ جو اپنی پارٹی بدل کر اپنے محسنوں سے.. جنہوں نے ان پر اربوں روپے لگا کر وزیر بنایا.. وفادار نہ رہے وہ ہم جیسے غریب لوگوں کے ساتھ کس طرح مخلص ہوسکتے ہیں، یا کیے گئے وعدے وفا کرسکتے ہیں!
ماضی کے ہر الیکشن پر نظر دوڑائیے، انہی لیڈروں کی طرف سے کیے گئے وعدوں کو ذرا ذہن نشین کیجیے اور اُن وعدوں کو یاد کیجیے جو انہوں نے آپ کے حلقے، گوٹھ اور گلی محلے میں جلسے کے دوران کیے تھے۔ ان وعدوں میں کسی موٹروے کی تعمیر، بڑے ہسپتال اور میڈیکل کالج کی تعمیر، کسی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ، یا پھر کسی شہر کو ضلع کا درجہ دینے کے وعدوں کی گونج سنائی دے گی۔
اگر ان وعدوں میں سے کوئی ایک بھی وعدہ وفا ہوا ہو تو پھر یہ سیاست دان سچے ہیں۔ اور اگر یہ وعدے پورے نہیں ہوئے تو پھر سوچ سمجھ کر اور دانش مندی کے ساتھ کسی پڑھے لکھے شخص یا جماعت کو ووٹ دیجیے، اور ووٹ دیتے وقت یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ووٹ کی کتنی اہمیت ہے۔ کیونکہ آپ کے ووٹ کی بدولت ہی کوئی شخص ملک کا وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا پھر وزیر بن سکتا ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ عوام کی طاقت ہی حقیقی طاقت ہے۔ عوام اگر کسی سیاست دان یا جماعت کو مسترد کردیں تو پھر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاسی قبر میں اتر جاتی ہے۔ اس لیے اپنے ووٹ کو کسی شخص کی جانب سے دیے گئے ایک دن کے مفت کھانے، چند ہزار روپوں یا پھر کچھ دن کی چمچماتی گاڑیوں کی سواری کے عوض قربان نہ کیجیے، بلکہ اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق صحیح وقت پر ٹھیک فیصلہ کیجیے۔ یہ آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔

حصہ