کوئی بھی انسان تنہا نہیں جی سکتا۔ ڈھنگ سے جینے یعنی اپنی زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں سے معیاری تعلقات استوار رکھنا پڑتے ہیں۔ تعلقات بہتر بنانے میں مرکزی کردار ابلاغ کا ہوتا ہے۔ انسان کو اپنی بات کہنے کا سلیقہ آنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ اُسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کسی بھی بات کو بروقت اور برمحل کس طور کہا جاسکتا ہے۔ تمام انسان گفتگو یا ابلاغ کی غیر معمولی صلاحیت کے ساتھ اِس دنیا میں نہیں آتے۔ بہت سوں کو یہ لیاقت اپنے اندر پیدا کرنا پڑتی ہے۔ تعلقات کا معیار بلند کرنے میں ابلاغ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کوئی آپ کی سمجھ ہی نہ سکے تو آپ سے بہتر تعلقات کیونکر استوار کرسکتا ہے۔
شخصی ارتقاء، گفتگو کے فن، باڈی لینگویج، مثبت سوچ اور رجائیت پر مبنی طرزِ زندگی کی طرف رہ نمائی کرنے والے سیمنار اور ورکشاپس کی مدد سے لوگ اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اِس میں ایک خاص حد تک کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ شخصی ارتقاء سے متعلق ورکشاپس متعلقہ ماہرین کے لیے بھی اب کمائی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔
لوگ اپنے مشاہدے کی بنیاد پر پانچ مثبت اور پانچ منفی خصوصیات یا علامات کی بنیاد پر دوسروں کو پرکھ رہے ہوتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ لوگ کس طور کسی کو پرکھتے ہیں۔ پہلے پانچ مثبت خصوصیات اور پھر پانچ منفی خصوصیات۔
1 ۔ خوبیوں کو بھی سراہا جائے :
اگر آپ کسی میں خامیاں تلاش کریں، کردار یا عمل میں کیڑے نکالیں تو یہ معاشرتی حیوان ہونے کے حوالے سے آپ کا استحقاق ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جب خاندان یا قریبی ماحول میں کوئی فرد اپنی لیاقت اور محنت کے ذریعے کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہوتا ہے تب سب کے منہ پر تالے لگ جاتے ہیں۔ جب کوئی ناکام ہوتا ہے تو اُس کی خامیاں تلاش کرکے طشت از بام کی جاتی ہیں، خوب رونا رویا جاتا ہے۔ یہ سب کامیابی کی صورت میں کیوں نہیں ہوتا؟ اگر کوئی اپنی محنت اور دیانت سے کامیاب ہو تو اُسے دل کھول کر سراہا بھی جائے۔ اگر کوئی وسیع القلب شخص کسی کو سراہنے لگتا ہے تو کوئی نہ کوئی بیچ میں کوئی ایسی ویسی بات کرکے سلسلۂ کلام توڑنے پر تُل جاتا ہے۔ کسی کو سراہنے کی کوشش کیجیے کوئی نہ کوئی قطعِ کلام کے ذریعے متعلقہ (کامیاب) فرد کے بارے میں کوئی بھی ایسی ویسی بات کرکے حسد کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے۔
بہت سے لوگ کسی بھی مشکل گھڑی میں دوسروں کو دلاسے دے رہے ہوتے ہیں۔ ایک حقیقت پسند اور انسان دوست شخصیت ایسی ہی ہوتی ہے۔ مشکل گھڑی میں کسی کو دلاسا دینا نہ تو کسی کو سراہنا ہے نہ اِس میں کسی کی تذلیل کا پہلو ہے۔ کسی کی خرابیوں کو بڑھ چڑھ کر بیان کیا جاتا ہے تو اُس کی خوبیوں کو بھی تو سراہا جانا چاہیے۔ بہت سوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جیسے ہی کسی کی کامیابی کا ذکر چھڑے، وہ اُس سے بڑی کامیابی کا تذکرہ کرکے متعلقہ فرد کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کسی کی کامیابی سے خوش ہوکر اُسے سراہنے میں ذرا سی بھی خِسّت (کنجوسی) کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
2۔ اچھے لوگ پستی کو نہیں اپناتے :
بیشتر کا یہ حال ہے کہ ’’جیسے کو تیسا‘‘ کے اُصول کی بنیاد پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کی طرزِ عمل سے معاشرہ ٹِکا رہتا ہے۔ یہ طبقہ ہے اُن لوگوں کا جو ’’جیسے کو تیسا‘‘ کے اُصول پر بالکل یقین نہیں رکھتے۔ اگر بُرے سلوک کے جواب میں بُرا ہی سلوک روا رکھا جائے تو یہ بُرائی کو بُرائی سے ضرب دینے والا معاملہ ہوا۔ دوسروں کی بُرائی کا بھلائی سے جواب دینے والے مہذب گھرانوں یا افراد پر مدِمقابل کی پست ذہنیت کا کوئی خاص اثر مرتب نہیں ہوتا یعنی یہ لوگ اپنی اچھائی ترک کرنے پر آسانی سے آمادہ نہیں ہوتے۔ تہذیب اور شائستگی کو برقرار رکھنے کی یہ لوگ جو قیمت ادا کرتے ہیں اُسے گنتے ہی نہیں۔ بُرائی کا بدلہ بھلائی سے دینے میں اِنہیں غیر معمولی مسرّت محسوس ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کی بنیادی سوچ یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی بُرا انسان اپنے بُرائیوں سے چمٹا رہنا چاہتا ہے تو اچھے لوگوں کو اپنی اچھائیوں سے الگ نہیں ہونا چاہیے۔ فریقِ ثانی اگر صرف اپنا ذاتی فائدہ دیکھ رہا ہو تب بھی اِن اچھے لوگوں کو کچھ خاص بُرا نہیں لگتا۔
3۔ ’’ہم تو بھائی خوش رہتے ہیں‘‘
معاشرے میں ایک طبقہ اُن کا بھی ہے جو کسی بھی صورتِ حال کا منفی اثر آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ وہ ہلکے پھلکے مزاج کے ساتھ جیتے ہیں اور کسی بھی پریشانی کو اپنے مزاج پر اثر انداز نہیں ہونے دیتے۔ اُن کا بنیادی نظریہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خوش رہنے کے لیے پیدا ہوا ہے اور اُسے خوش ہی رہنا چاہیے۔ ایسے لوگ کسی بھی ملتے وقت کسی بھی نوع کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اگر کوئی متوجہ نہ ہوتا ہو یا غیر متوجہ ہونے کی اداکاری کر رہا ہو تو یہ لوگ اُسے بھی آواز دے کر بلاتے ہیں اور ہنسی خوشی ملتے ہیں۔ ایسے لوگ ہاتھ ہلاکر کسی کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں۔ اپنی بات کہنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بات بھی سنتے ہیں، اُنہیں اُن کی خوبیوں اور کامیابیوں پر سراہتے ہیں۔ یہ سب کچھ فطری دلچسپی کے تحت ہوتا ہے اور اِس کی پُشت پر کوئی غرض نہیں ہوتی۔
4۔ چھوٹوں سے بھی بخوشی ملنا :
ہر مہذب انسان چوکیدار، مالی، گھر میں کام کرنے والی خادماؤں، ڈرائیور، دھوبی، نائی وغیرہ سے کبھی کبھی، بالخصوص تہوار کے موقع پر، ہنس کر ملتا ہے، اُنہیں اپنی خوشیوں میں شریک کرتا ہے، اُن کی مدد کرتا ہے اور اُنہیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ وہ بھی برابر کے انسان ہیں اور اُن کا بھی احترام کیا جانا چاہیے۔ آپ کا باس یا آجر جب آپ سے ہنس کر بات کرتا ہے تو آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟ خوشی محسوس ہوتی ہے نا! یہ حال اُن کا بھی ہے جن کے لیے آپ باس کے درجے پر فائز ہیں۔ اُن کا خیال رکھیے۔
5۔ تشکر کا اظہار یاد رہے:
مہذب ہونے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اگر کسی نے مدد کی ہو، کچھ دیا ہو تو اُس سے فوری طور پر اظہارِ تشکر کیا جائے۔ اگر کسی کی بات سے خوشی ملی ہو تو اُسے بتایا جائے کہ اُس نے خوش کیا ہے۔ ’’ایموجی‘‘ کے ذریعے بھی اظہارِ تشکر کیا جاسکتا ہے مگر یہ خاصا میکانیکی انداز ہے۔ کسی کو فون کرکے اُس کا شکریہ ادا کرنے میں جو بات ہے وہ بھلا ایموجی کے استعمال میں کہاں؟ اگر آپ کسی کا شکریہ ادا کریں گے تو وہ آپ کا ذکر اچھے لفظوں میں کرے گا اور دوسروں کو آپ کی خوبیوں کے بارے میں بتائے گا۔ جب آپ دوسروں کو اچھی طرح یاد رکھیں گے تو وہ بھی آپ کو اچھی طرح یاد رکھیں گے۔ اگر آپ کسی ایونٹ میں شریک ہوں گے تو ایسے لوگ آپ کو اپ ڈیٹ کریں گے۔ آپ کا تشکر آمیز رویہ آپ کے بارے میں متعلقین کی رائے درست کرنے کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ جب کسی کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے تو وہ آپ کے بارے میں اچھی رائے رکھنے تک محدود نہیں رہتا۔ وہ خود بھی آپ سے اچھا سلوک روا رکھتا ہے اور اپنی اولاد کو آپ کا احترام کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ آئیے، اب ذرا معاشرے کے منفی کرداروں کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔ ون وے پارٹی :
معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کسی کے ہاں جاتا ہے تو غیر معمولی احترام پاتا ہے۔ میزبان اُسے خوش کرنے کے لیے بہت کچھ کرتا ہے۔ یہ سب کچھ بہت اچھا لگ رہا ہوتا ہے مگر یہی مہمان جب میزبان بنتا ہے تو معمولی سطح پر موزوں ریسپانس بھی نہیں دیتا۔ ایسے لوگوں کو اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ جس نے کئی بار عزت دی ہو اُسے بھرپور عزت دی جائے، اُس کا خیال رکھا جائے، اُس کی آؤ بھگت کی جائے۔ ایسے لوگ اچھے سلوک کی قدر نہیں کرتے اور اچھی طرح پیش آنے والوں کے احسانات بھلاکر اُنہیں نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔
ہم میں سے بیشتر صرف اپنی سہولت دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اگر کسی نے اچھا سلوک کیا ہے، مدد کی ہے تو اُسے یاد رکھا جائے تاکہ جب اُسے ضرورت ہو تو بھرپور مدد کی جائے۔ جو آپ سے بھلائی کرے اُسے آپ دوسروں کے ساتھ جوڑ کر مت دیکھیے۔ ایسا کرنے سے آپ اپنا ہی نقصان کریں گے۔ ہم عمومی سطح پر تسلیم کرتے ہیں کہ سب سے اچھا اور یکساں سلوک روا رکھا جانا چاہیے مگر جب عمل کی بات آتی ہے تو ارادے ڈولنے لگتے ہیں، نیت میں خلل واقع ہونے لگتا ہے۔
2۔ پہلے آپ :
اِسی معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ہر چھوٹے بڑے معاملے کا حساب کتاب، ریکارڈ رکھتے ہیں کہ کس نے مجھے پہلے مبارک باد دی، کس نے مجھے پہلے مسترد کیا، کس نے ضرورت پڑنے پر میری مدد سے صاف انکار کیا، کس نے مجھے اپنی دوستی کے قابل نہیں سمجھا۔ ایسے لوگ کبھی اپنے طور پر آگے بڑھ کر کسی کا خیر مقدم نہیں کرتے، کسی کو مبارک باد نہیں دیتے اور کسی کی خوشی میں بخوشی شریک نہیں ہوتے۔ یہ ہمیشہ یہی سوچتے رہے ہیں کہ فریقِ ثانی کو پہل کرنی چاہیے۔
3۔ مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں!
بہت سے لوگ کسی کی طرف سے مدد ملنے پر شکریہ تو ادا کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی گمان کرلیتے ہیں کہ اب برسوں اِس سے کوئی کام نہیں پڑنے والا۔ پھر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ گزشتہ برس اِس شخص سے کام پڑا تھا تو اِس نے توقع کے مطابق مدد نہیں کی تھی۔ جب اِتنا سوچ لیا جاتا ہے تو پھر یہ بھی سوچ لیا جاتا ہے کہ اب اِسے نئے سال کی نیک تمنّائیں نہیں دینی۔ ایسے لوگ کسی بھی شخص سے صرف کام کا تعلق استوار رکھتے ہیں یعنی کام پڑگیا تو بات کی ورنہ نہیں۔ جب کام نکل جائے تو یہ پہچاننے سے بھی گریز کرتے ہیں۔
4۔ ’’ہمیں سلام کرو‘‘
اِسی معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ طے کرلیتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں اُن کا احترام سب پر فرض ہے۔ وہ اِس توقع اور مطالبے کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں اُن کا شکریہ ادا کرنا، نیک خواہشات کا اظہار کرنا فریقِ ثانی کی ذمہ داری ہے۔ مزاج کی پیچیدگی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی کو احترام کی نظر سے دیکھا جائے اور وہ اِس کے جواب میں دوسروں کا احترام کرنے کے بجائے یہ سمجھنے لگے کہ وہ بہت اہم ہے۔ رفتہ رفتہ وہ سوچنے لگتا ہے کہ اُس کا احترام سب پر فرض ہے اور سبھی کو اُس سے جھک کر ملنا چاہیے۔
5۔ ایک دور تھا کہ گھر، خاندان اور پورے سماج میں بزرگوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اُن سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ چھوٹوں کا فرض تھا کہ خود چل کر بزرگوں کے پاس جائیں، اُن کے پاس بیٹھیں، اُن سے باتیں کریں اور اہم معاملات میں اُن سے رائے لیں۔ اب معاملہ اُلٹ، پلٹ گیا ہے۔ اب چھوٹوں نے سوچنا شروع کردیا ہے کہ بزرگوں کو اُن کے پاس آکر اُنہیں دعائیں دینی چاہئیں۔ بزرگوں کو فون کرکے اُن کی خیریت دریافت کرنے کے بجائے اب یہ توقع وابستہ کی جاتی ہے کہ بزرگ خود فون کرکے خیریت پوچھیں گے، دعائیں دیں گے۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اب والدین بھی اولاد کو خصوصی طور پر ایسی تربیت نہیں دیتے کہ بزرگوں کو احترام کی نظر سے دیکھنے کا مزاج پیدا ہو۔ کوئی آکر مبارک باد دے، نیک خواہشات کا اظہار کرے اِس توقع کے پنجرے میں قید رہنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ نئی نسل آگے بڑھ کر بڑوں کے آگے سر جھکائے، اُن سے دعائیں لے۔
٭ قدر کرنا سیکھیے :
آج بہت سے نوجوان یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ہمیں تو شہرت اور ستائش کی بھوک نہیں اور یہ کہ ہم تعلیم کے حوالے سے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کریں تو والدین اور خاندان کے بزرگ اُس طور نہیں سراہتے جس طور سراہنا چاہیے۔ یہ بات ایک خاص حد تک درست ہے۔ ہر انسان اس خواہش کا حامل ہوتا ہے کہ کامیابی کی صورت میں اُسے سراہا جائے۔
اگر کسی نے ادھوری کامیابی حاصل کی ہو تب بھی اور اگر محض کوشش کی ہو اور کچھ حاصل نہ کرسکا ہو تب بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ جب بھی کوئی کوشش کرتا ہے تو اُس کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کوشش کو سراہا جائے۔ اگر کامیابی نہ بھی ملی ہو اور کوئی کوشش کو سراہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کامیابی مل ہی گئی ہے۔
بہت سوں میں یہ بُری عادت ہوتی ہے کہ جب بھی کسی کی کامیابی کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ کسی اور کی زیادہ بڑی کامیابی کا ذکر کرکے متعلقہ فرد یا افراد کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ عادت اُنہیں سب کی نظر میں گرانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ستائش ہر انسان کو اچھی لگتی ہے اور اگر یہ بلا جواز نہ ہو تو تعلقات بہتر بنانے کا بہت اچھی ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ اگر کسی نے کچھ کیا ہے، کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل کی ہے تو اُسے سراہنے میں بُخل کا مظاہرہ مت کیجیے۔ سراہنا ہے تو کُھلے دل سے سراہا جانا چاہیے۔ تعریف ایسی ہونی چاہیے کہ دکھائی بھی دے اور سُنائی بھی دے۔ بہت سے نوجوان یہ شکایت کرتے پائے گئے ہیں کہ اُن کی صلاحیتوں اور کامیابی کو سراہا نہیں جاتا۔ اور یہ بھی کہ جب کبھی اُن کی کامیابی کی بات ہوتی ہے تو ساتھ ہی کسی اور کی بڑی کامیابی کا ذکر کرکے ستائش کے بجائے تنقید کی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مثبت اور منفی سوچ کے نتیجے میں جو کچھ پیدا ہوتا ہے وہ اب آپ کے سامنے ہے اور آپ کو یہ طے کرنا ہے کہ کس طرف جانا ہے، کس طرح کا رویہ اپنانا ہے، کون کون سے رویوں کو ترک کرنا ہے۔