صلح حدیبیہ کا معاہدہ سیرتِ طیبہ کے واقعات میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی تناظر میں ایک اہم واقعہ حضرت عثمان غنیؓ کا بطور سفیر مکہ جانا ہے۔ قریشِ مکہ کی اشتعال انگیزیوں کے باوجود نبی اکرمﷺ کا صبر و تحمل اور حوصلہ بے مثال رہا۔ حدیبیہ میں قیام کے دوران قریش نے نہ صرف بار بار اہلِ اسلام پر شب خون مارے بلکہ عملاً ایک مسلمان ان کے ہاتھوں شہید بھی ہوا۔ آنحضورؐ کے صحابہ میں سے ایک صحابی حضرت زُنَیمؓ ایک گھاٹی کے اوپر چڑھے تو مشرکین نے ان پر تیر برسا دیئے جس کے نتیجے میں وہ شہید ہو گئے۔ آپؐ نے کچھ صحابہ کو ان کی گرفتاری کے لیے بھیجا جو قاتلین میں سے بارہ کفار کو پکڑ کر لے آئے۔ جب یہ آنحضورؐ کے سامنے پیش کیے گئے تو آپؐ نے فرمایا: کیا میرے اوپر تمھارا کوئی احسان ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپؐ نے پوچھا: کیا تمھارے اور میرے درمیان کوئی معاہدہ ہے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں۔ آپؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ (ان کے جرم کے باوجود) ان کو چھوڑ دو۔ چنانچہ صحابہ نے ان کو چھوڑ دیا اور وہ واپس چلے گئے۔ امام طبری نے اپنی تاریخ جلد دوم ص 629 پر یہ واقعہ نقل کیا۔ آنحضورؐ کے اس عمل کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ مسلمان واقعتاً کسی لڑائی جھگڑے کے لیے نہیں بلکہ محض عمرہ ادا کرنے کے لیے آئے ہیں۔
اسی دوران نبی اکرمؐ نے حضرت عثمانؓ کو گفت و شنید کے لیے اپنا سفیر بنا کر مکہ بھیجا۔ حضرت عثمانؓ کو سفیر بنانے کی رائے حضرت عمرفاروقؓ نے پیش کی تھی، کیونکہ ان کا خاندان بنو امیہ اس وقت مکہ کا سب سے طاقتور گھرانہ تھا اور حضرت عثمانؓ طبعاً بھی حلیم اور نرم مزاج تھے۔ حضرت عثمانؓ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے مکہ روانہ ہوئے۔ راستے میں وادیٔ بلدح کے قریب بعض مشرکین نے ان پر ہاتھ اٹھانا چاہا تو خاندانِ بنو امیہ کے لوگ آڑے آ گئے۔ بنو امیہ کے ایک شخص اَبان بن سعید بن العاص نے کہا کہ خبردار عثمانؓ کو کوئی زک نہ پہنچائے۔ اس کے بعد ابان بن سعید حضرت عثمانؓ کو اپنے ساتھ لے کر چل پڑا اور اعلان کیا کہ عثمانؓ بن عفان اس کی امان میں ہیں۔ یہ ابان حضرت عثمانؓ کا چچا زاد تھا اور اس کے دو بیٹے خالدؓ بن ابان اور عمروؓ بن ابان سابقون الاولون میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ دونوں ہجرت حبشہ میں بھی شریک تھے۔ وادیِ بلدح میں حضرت عثمانؓ نے قریش کے قائدین سے ملاقات کی۔
آنحضورؐ نے حضرت عثمانؓ کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ قریش کو دعوت دینا کہ وہ اسلام قبول کر لیں، ہم اور وہ ایک ہو جائیں گے۔ اگر انہیں یہ بات قبول نہ ہوتو پھر ہمارے ساتھ جنگ بندی قبول کر لیں اور ہمیں اور دیگر عرب قبائل کو ہمارے حال پر چھوڑ دیں۔ حضرت عثمانؓ نے انھی الفاظ میں یہ پیغام پہنچایا۔ قریش نے دونوں باتیں مسترد کر دیں۔ واقدی نے تو اس موقع پر حضرت عثمانؓ کی پوری تقریر نقل کی ہے جو بہت جامع اور حکمت و نصائح سے مالا مال ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: المغازی للواقدی ج 2۔ ص600-601)
وادیِ بلدح میں دیگر سردار تو موجود تھے مگر ابوسفیان نہ تھا۔ اَبان بن سعید نے حضرت عثمانؓ کو کہا کہ وہ انہیں شہر کے اندر لے چلتا ہے۔ حضرت عثمانؓ نے رضا مندی ظاہر کی تو ابان بن سعید نے ان کو گھوڑے پر اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ راستے میں کئی مشرکین نے حضرت عثمانؓ کو پہچان لیا اور ان پر ہاتھ اٹھانے کا ارادہ بھی کیا مگر جب دیکھا کہ ان کا ایک سردار اپنے گھوڑے پر انہیں بٹھائے چلا آرہا ہے تو سمجھ گئے کہ وہ اس کی امان میں ہیں؛ چنانچہ سب نے اپنے ہاتھ روک لیے۔ ابان بن سعید حضرت عثمان کو لے کر سیدھا ابوسفیان کے پاس گیا۔ ابوسفیان اپنے بھتیجے کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور عزت و تکریم سے بٹھایا۔ حضرت عثمانؓ نے اس کے سامنے بھی وہی بات رکھی جو اس سے قبل وادیِ بلدح میں دیگر زعمائے قریش کے سامنے پیش کر چکے تھے۔ اس موقع پر صفوان بن امیہ بھی ابو سفیان کے گھر میں موجود تھا۔
دیگر سرداروں کی طرح ان دونوں سرداروں نے حضرت عثمانؓ کی دعوتِ اسلامی کو قبول کرنے سے انکار کیا اور اپنے مؤقف سے دستبردار نہ ہوئے لیکن حضرت عثمانؓ سے کہا کہ وہ شہر میں جہاں چاہیں ان کو جانے کی اجازت ہے۔ انہوں نے آپؓ سے یہ بھی کہا کہ خانہ کعبہ کا طواف کریں اور عمرہ ادا کر لیں۔ یہ کمال ایمان افروز منظر تھا جب حضرت عثمانؓ نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ رسول اللہﷺ اور آپؐ کے صحابہ کو طواف کی اجازت نہ ملے تو میں ان کے بغیر طواف کرنا ہرگز گوارہ نہیں کرتا۔ حضرت عثمانؓ اگر طواف کر لیتے تو اس کا جو ثواب ملتا وہ تو ملتا لیکن اپنے دین اور اپنے قائد خاتم النبیینﷺ کے ساتھ اس وابستگی کے نتیجے میں یقینا انہیں اس سے کہیں زیادہ ثواب اور اجر ملا ہو گا۔ (طبری جلد دوم صفحہ 631 اور اس سے آگے)
حضرت عثمانؓ کے مکہ روانہ ہونے کے بعد صحابہ سوچ رہے تھے کہ ان کو تو بیت اللہ کے طواف کی سعادت مل جائے گی۔ آنحضورؐ کی مجلس میں بعض صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! عثمانؓ خوش قسمت ہے کہ وہ اب تک بیت اللہ کا طواف کر چکا ہوگا جبکہ ہم پر راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔ نبی اکرمؐ نے ان کی باتیں سن کر فرمایا کہ میں نہیں سمجھتا کہ عثمانؓ نے طواف کیا ہو گا۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! وہاں پہنچ کر کون سی چیز مانع ہے، تو آپؐ نے حضرت عثمانؓ پر اپنے اعتماد اور حسن ظن کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: مجھے اس کے بارے میں یہی نیک گمان ہے کہ وہ اس وقت تک طواف نہیں کرے گا جب تک ہمیں بھی طواف کا موقع نہ مل جائے۔ (واقدی، جلد دوم صفحہ:601 تا 603)
جب حضرت عثمانؓ واپس پلٹے تو بعض ساتھیوں نے ان سے کہا ’’عثمانؓ! تم نے اپنی آنکھیں اور دل طواف بیت اللہ سے ٹھنڈا کر لیا ہو گا‘‘۔ حضرت عثمانؓ نے یہ سن کر کہا کہ بھائیو! میرے بارے میں تم نے بہت غلط رائے قائم کی۔ مجھے قریش نے طواف کی بہت ترغیب دی مگر میں نے انکار کر دیا۔ بخدا اگر میں ایک سال بھی وہاں رہتا تو نبی اکرمؐ اور ان کے صحابہ کے بغیر طواف نہ کرتا۔ یہ ہے عشقِ رسول اور اسلام کے ساتھ غیر متزلزل اور والہانہ عقیدت۔ اس عمل سے بخوبی معلوم ہو سکتا ہے کہ حقیقی نیکی اور عبادت کیا ہے۔
ایک اور واقعہ جو واقدی ہی نے بیان کیا ہے‘ حضرت عثمانؓ کی سیرت کی جامعیت کو بہت نمایاں کرتا ہے۔ مکہ میں انہیں گھومنے پھرنے کی چونکہ آزادی تھی اور قریش نے انہیں چند دنوں تک وہاں روکے رکھا تھا اس لیے آپؓ نے اپنے اس قیام اور آزادی کو خوب استعمال کیا۔ انہیں معلوم تھا کہ مکہ میں کئی مستضعفین (عورتیں، بچے، غلام اور مسکین لوگ) اسلام قبول کر چکے ہیں مگر ان میں ہجرت کی ہمت اور سکت نہ تھی۔ ان میں سے بعض مبتلائے آزمائش و امتحان بھی تھے۔ حضرت عثمانؓ نے اس فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے ان سب لوگوں سے فرداً فرداً ملاقاتیں کیں اور انہیں حوصلہ اور تسلی دی کہ ابتلا کا یہ دور بہت جلد ختم ہونے والا ہے اور اسلام کے غلبے کا وقت قریب ہے۔ نبی اکرمﷺ نے بھی حضرت عثمانؓ کو یہ تلقین کی تھی کہ وہ ان اہلِ ایمان کو بشارت دیں کہ یہ مصائب عارضی ہیں، بہت جلد حالات کی یہ تنگی اور جبر‘ فراخی اور امان میں بدلنے والا ہے۔ ان مجبور لوگوں نے حضرت عثمانؓ کے ذریعے سے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں اپنا سلام اور نیک تمنائیں ارسال کیں۔ یوں حضرت عثمانؓ کا یہ سفر ہمہ جہتی اور کثیر المقاصد ثابت ہوا۔ اللہ کا اہلِ ایمان کے ساتھ وعدہ ہے ’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقینا اللہ نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے‘‘۔ (العنکبوت29: 69)
صلح حدیبیہ سے قبل قریش کی طرف سے ایک شخص مِکْرَز بن حفص بھی آنحضورؐ کے پاس آیا تھا۔ یہ اپنی شرارت و خباثت کے لیے بدنام تھا۔ نبی اکرمؐ اسے خوب جانتے تھے۔ آپؐ نے اسے دور سے آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: یہ بدعہد اور بدمعاملگی کرنے والا شخص ہے۔ اس کے باوجود آنحضورؐ نے اس سے ملاقات اور مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔ یہ شخص ملاقات کے دوران ہرگز سنجیدہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ آنحضورؐ کے واپس چلے جانے کے لیے اصرار اور دبائو ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا اور آنحضورؐ کی بات کو توجہ اور سنجیدگی سے سن ہی نہ رہا تھا۔ اس کے باوجود آپؐ نے اس پر اتمام حجت کرنے کے لیے اپنا مؤقف تفصیلاً اس کے سامنے پیش فرما دیا۔ آپؐ نے سابقہ لوگوں کی طرح اسے بھی یہ بتا دیا کہ ہم ہرگز لڑائی کے لیے نہیں آئے مگر قریش کو جان لینا چاہیے کہ اگر ہمیں اللہ کے گھر سے روکا گیا تو پھر ہم بھی خاموش نہیں رہ سکیں گے۔