میں گائوں کی پگڈنڈی پہ اپنی پرانی سائیکل کے پینڈل پر تیزی سے پائوں مارتا ہوا گھر کی طرف رواں دواں تھا۔ مئی کی جھلسا دینے والی گرمی اور لو کے تھپیڑوں نے اسکول سے گھر تک کا مختصر سفر انتہائی طویل کر دیا تھا۔ دور ہی سے تایا رحمتے کے گھر کے صحن میں لگا بڑا، گھنا اور سایہ دار درخت نظر آ رہا تھا‘ ہرا بھرا یہ برگد کا درخت آنکھوں کو ٹھنڈک کا احساس دے رہا تھا اور اس کے سائے کا تصور ہی گرمی کی شدت کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو رہا تھا۔
اس درخت کی بھی بڑی برکت تھی، گھر کے اندر اس کے سائے میں چارپائیاں ڈلی رہتی تھیں، جن پر بیٹھ کے گھر کی خواتین کام کاج مثلاً سبزی کاٹنا، سلائی کڑھائی‘ کروشیا اور سوئٹر بُنا کرتی تھیں۔ اسی درخت کے نیچے مہمان داری بھی ہوتی تھی۔ ایک طرف اس کی ایک ڈال میں گائوں کی لڑکیوں کے لیے جھولا بھی تھا جس پر گھر کی خواتین اور پڑوس کی بچیاں جھولا جھول کے اپنا دل خوش کیا کرتی تھیں۔ درخت کے چوڑے تنے کے ساتھ تایا رحمتے نے گولائی میں چبوترا بنوایا ہوا تھا جس پر مٹی کے دو صاف ستھرے گھڑے رکھے رہتے تھے۔ چبوترے کے داہنی طرف مرغیوں کا ڈربہ تھا، جس میں مرغیاں رات میں ہی آرام فرماتی تھیں دن میں تو بڑے سے صحن میں گھومتی پھرتی تھیں، جو کہ برگد کے سائے کی وجہ سے ٹھنڈا اور پرسکون رہتا تھا۔
میں یہ تمام باتیں سوچتے ہوئے آخر تایا رحمتے کے گھر کے قریب پہنچ گیا جہاں گھر کی چار دیواری کے باہر تک سایہ کرتے درخت کے نیچے گنے کے رس والا اور بھٹے والا شام تک کھڑے آرام سے اپنا کاروبار چلاتے تھے۔ میں بھی روز وہاں سے ایک گلاس رس پی کے تازہ دم ہو کے آگے گھر تک جاتا تھا۔
رس پیتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ اس برگد اور تایا رحمتے کی زندگی میں بہت مماثلت ہے۔ تایا رحمتے بھی تو خاندان بھر کے لیے ایک شجرِ سایہ دار ہیں۔ اپنے تمام بھائی بہنوں کے حقیقت میں بڑے۔ ان کی ہر مشکل، ہر پریشانی میں کام آنے والے… سب کے لیے چھتر چھائوں پھیلائے ہوئے، ان کی خوشیوں میں دل سے خوش ہونے والے… رشتے داروں کے حقوق ادا کرنے اور روٹھوں کو منانے میں پیش پیش۔ محلہ داروں سے اچھے تعلقات، ہاری اور مزارعوں کے دکھ درد کے ساتھی۔
غرض کہ وہ اپنے ذریعے ہر فرد کو نفع پہنچا کے خوش ہونے والوں میں سے ہیں۔ گائوں کے کئی گھر ان کے زیر سایہ پرورش پا رہے تھے… مجھ سمیت کئی بچوں کی تعلیم کے اخراجات ان کے مرہون منت تھے۔
گائوں کا ہر فرد، ہر بچہ ہر خاندان ان کی صحت اور زندگی کے لیے دعاگو رہتا اور یہی وجہ ہے کہ ماشا اللہ لمبی عمر کے ساتھ اللہ نے انہیں اچھی صحت اور خوشیوں بھری زندگی عطا کی ہے۔
میں بھی اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑا ہوں۔ ہر بات میں‘ میں تایا رحمتے کو کاپی کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں۔ تایا رحمتے نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ اگر میٹرک میں اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا تو میرا داخلہ شہر کے سب سے ا چھے کالج میں کروائیں گے اور نئی سائیکل بھی دلائیں گے۔
میرا نصب العین ہے کہ پڑھ لکھ کے ان شا اللہ میں تایا رحمتے کے نقشِ قدم پہ چلوں گا… لوگوں کو اپنی ذات سے نفع پہنچائوں گا اور اپنے گھر کے صحن میں تو میں ابھی سے ہی سایہ دار درخت لگائوں گا بالکل تایا رحمتے کے برگد کی طرح۔