قیصرو کسریٰ قسط(59)

196

عاصم نے آگے بڑھ کر کہا۔ ’’یہ لوگ ایرانیوں کا خون اپنے خون سے زیادہ قیمتی نہیں سمجھتے۔ تمہیں ان پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ میں یہاں آنکلا ورنہ اُس رومی کی تلوار تمہاری شہہ رگ تک پہنچ چکی تھی۔ اُس نے زبردستی ایک بے بس مصری کے گھر پر قبضہ کر رکھا تھا۔ بہرحال وہ اپنے کیے کی سزا پا چکا ہے۔ اب ہمیں تمہارے زخم کی فکر کرنی چاہیے۔ عاصم نے آگے بڑھ کر ایک یہودی کی کمر سے ریشمی پٹکا کھولا اور اُسے پھاڑ کر ایرانی کے بازو پر پٹی باندھ دی۔
ایرانی نے کہا۔ ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں اور آئندہ میں کبھی یہودیوں کا اعتبار نہیں کروں گا۔ یہ لوگ صرف مُردوں کی لاشیں مسخ کرسکتے ہیں‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’میں بہت تھکا ہوا ہوں اور میرا خیال ہے کہ پڑائو میں جانے کی بجائے اسی مکان میں آرام کرلوں۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ان لوگوں کو کسی اور گھر کا راستہ دکھادیں‘‘۔
’’جناب! آپ اندر جا کر اطمینان سے آرام کریں۔ میں ان سے نبٹ لوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر ایرانی یہودیوں کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’تم سب یہاں سے بھاگ جائو۔ ورنہ میں اپنے سپاہیوں کو بلاتا ہوں وہ تمہارے سرکاٹ کر دریائے نیل میں پھینک دیں گے‘‘۔
یہودی ایک ایک کرکے وہاں سے کھسکنے لگے لیکن چند نوجوان تذبذب کی حالت میں اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔
ایرانی بلند آواز میں چلایا۔ ’’اہرموزدہ کی قسم! میں تمہاری گردنیں اڑادوں گا۔ کیا دیکھ رہے ہو؟ بھاگ جائو!‘‘۔ آن کی آن میں گلی خالی ہوگئی۔
عاصم نے کہا۔ ’’اب تمہیں چاہیے کہ سیدھے پڑائو میں جا کر اپنا زخم کسی طبیب کو دکھائو مجھے ڈر ہے کہ رومی کی تلوار زہر آلود نہ ہو۔ تمہیں دیر نہیں کرنی چاہیے‘‘۔
زہر کا لفظ سن کر ایرانی کسی توقف کے بغیر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اور عاصم اپنے ساتھی کو دروازے پر موجود رہنے کی تاکید کرکے مکان کے اندر داخل ہوا۔
رومی جسے فرمس نے نئی صورت حال سے باخبر کردیا تھا ابھی تک فرش پر پڑا تھا اور نوجوان لڑکی اُس کے قریب کھڑی اپنے آنسو پونچھ رہی تھی۔
عاصم نے فرمس سے کہا۔ ’’وہ سب جاچکے ہیں، لیکن اب آپ کے لیے کسی کمرے کے اندر چھپ کر بیٹھنا زیادہ مناسب ہوگا۔ ممکن ہے سپاہیوں کی کوئی اور ٹولی یہاں پہنچ جائے‘‘۔
رومی نے آنکھیں کھول کر اِدھر اُدھر دیکھا اور اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد یہ چاروں مکان کے ایک کمرے میں کھڑے تھے۔ فرمس کی آنکھیں تشکر کے آنسوئوں سے لبریز تھیں، نوجوان لڑکی سسکیاں لے رہی تھی اور رومی پریشانی کی حالت میں عاصم کی طرف دیکھ رہا تھا۔
عاصم نے فرمس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’شاید آپ نے ابھی تک مجھے نہیں پہچانا‘‘۔
فرمس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور اُس نے جواب دیا۔ ’’میں یہ سوچ رہا تھا کہ اب کوئی معجزہ بھی ہمیں غلامی کی ذلت یا موت سے نہیں بچاسکتا۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ تم وہی ہو یہ کون کہہ سکتا تھا کہ ہماری آئندہ ملاقات ان حالات میں ہوگی۔ میں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے ہاتھوں قتل ہوتے وقت بھی میرے دل میں یہ خیال نہیں آسکتا تھا کہ ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ یہ میری بیٹی انطونیہ ہے اور یہ نوجوان میرا داماد ہے اس کا نام کلاڈیوس ہے‘‘۔
’’آپ کی بیوی؟‘‘ عاصم نے سوال کیا۔
’’وہ مرچکی ہے‘‘۔
’’کب؟‘‘۔
’’چھ مہینے ہوئے۔ میں تم سے کئی سوال کرنے چاہتا ہوں۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ ہم کب تک زندہ ہیں اور تم کس حد تک ہماری مدد کرسکتے ہو؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’سردست آپ کو کوئی خطرہ نہیں لیکن احتیاط ضروری ہے۔ میں تھوڑی دیر کے لیے سپہ سالار کے پاس جارہا ہوں۔ میری غیر حاضری میں میرا ساتھی اِس مکان پر پہرا دے گا اگر مجھے کسی وجہ سے دیر ہوگئی تو چند اور عرب سپاہی اس مکان کی حفاظت کے لیے پہنچ جائیں گے۔ اگر آپ اپنے داماد کا لباس تبدیل کراسکیں تو بہتر ہوگا۔ اس کے علاوہ گھر کا کچھ سامان اُٹھا کر صحن میں پھینک دیجیے۔ اس سے ظاہر ہوگا کہ یہ مکان لُٹ چکا ہے‘‘۔
عاصم وہاں سے چل پڑا لیکن دو تین قدم اٹھانے کے بعد کچھ سوچ کر رُکا اور انطونیہ سے مخاطب ہو کر بولا۔ ’’میں تہارے شوہر کی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کروں گا‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’آپ جلد واپس آنے کی کوشش کریں۔ آپ کو دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہوگیا ہے کہ قدرت کو ہماری تباہی منظور نہیں‘‘۔
’’آپ مطمئن رہیں، میں بہت جلد آجائوں گا‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل آیا۔ دروازے کے سامنے اُس کا ساتھی پریشانی کی حالت میں ٹہل رہا تھا۔
اُس نے کہا۔ ’’جناب! آپ نے بہت دیر لگائی اور میں اِس بات پر حیران ہوں کہ آپ ایک رومی کو پناہ دینے کی کوشش کررہے ہیں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’یہ رومی اُس شخص کا داماد ہے جس نے مجھے انتہائی بے کسی کی حالت میں سہارا دیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ شہنشاہ کے اُس جرنیل کا بھی محسن ہے جسے قسطنطنیہ پر ایران کی فتح کا پرچم گاڑنے کی مہم سونپی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم اِس گھر کی حفاظت کرکے شہنشاہ کی خوشنودی حاصل کرلیں۔ میری غیر حاضری میں تم یہاں پہرا دو گے۔ تمہیں دروازے کی بجائے صحن کے اندر کھڑے رہنا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ اوّل تو رات کے وقت مکان کا ٹوٹا ہوا دروازہ دیکھ کر ہی کوئی لوٹ مار کی نیت سے اندر داخل ہونے کی کوشش نہیں کرے گا اور اگر ان لوگوں کو کوئی خطرہ پیش آیا بھی تو حملہ کرنے والوں کو دھمکانے کے لیے تمہارا یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ اندر تمہارے چند معزز ساتھی آرام کررہے ہیں۔ اگر مجھے راستے میں کوئی اور قابل اعتماد ساتھی مل گئے تو انہیں اس گلی میں پہرا دینے کے لیے بھیج دوں گا‘‘۔
O
قریباً ایک پہر رات گزر چکی تھی۔ فرمس، انطونیہ اور کلاڈیوس مکان کے تاریک کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔
کلاڈیوس نے سہمی ہوئی آواز میں سوال کیا۔ ’’آپ کو یقین ہے وہ ہماری مدد کرے گا؟‘‘
فرمس نے جواب دیا۔ ’’کلاڈیوس تم اطمینان رکھو، مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر بھی ہمیں بچانے کی کوشش کرے گا‘‘۔
’’لیکن آپ کہتے ہیں کہ وہ یثرب کا باشندہ ہے اور آپ کو غریب الوطنی کی حالت میں ملاتھا پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اچانک ایرانی فوج میں اس قدر اثرورسوخ کا مالک بن گیا ہو۔ کہیں ہم اپنے آپ کو دھوکا تو نہیں دے رہے؟‘‘
فرمس نے جواب دیا۔ ’’موجودہ حالات میں خود فریبی کو بھی میں قدرت کا انعام سمجھتا ہوں۔ لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ قدرت نے اسے ہماری مدد کے لیے بھیجا ہے‘‘۔
انطونیہ نے کہا۔ ’’بہت دیر ہوگئی وہ ابھی تک نہیں آیا‘‘۔
کمرے میں کچھ دیر خاموشی طاری رہی پھر اچانک صحن میں چند آدمیوں کی چاپ اور آوازیں سنائی دیں۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’معلوم ہوتا ہے قدرت ہمیں زیادہ دیر خود فریبی میں مبتلا رکھنا نہیں چاہتی۔ لیکن میں آپ سے یہ وعدہ کرچکا ہوں کہ اپنی زندگی میں انطونیہ کی بے بسی کا تماشا نہیں دیکھوں گا‘‘۔
کلاڈیوس اپنی تلوار سنبھال کر کھڑا ہوگیا۔ لیکن فرمس نے اس کا دامن پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا! حوصلے سے کام لو، مجھے یقین ہے کہ اب قدرت ہمارے ساتھ مذاق نہیں کرے گی‘‘۔
باہر سے عاصم کی آواز سنائی دی۔ ’’میں عاصم ہوں۔ اب آپ کو کوئی خطرہ نہیں۔ دروازہ کھول دیجیے!‘‘
فرمس نے دروازہ کھول دیا۔ ’’عاصم کے ہاتھ میں مشعل تھی۔ ایک آدمی ٹوکرا اُٹھائے اس کے ساتھ تھا اور سات مسلح سپاہی چند قدم پیچھے کھڑے تھے۔ فرمس پریشانی، خوف اور اضطراب کی حالت میں باہر نکلا اور عاصم نے مشعل اسے دیتے ہوئے کہا۔ اب آپ کو تاریکی میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں۔ میرے آدمی آج رات یہیں رہیں گے۔ انہیں صحن میں آرام کرنے کے لیے صرف ایک کشادہ چٹائی کی ضرورت ہے‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’میں اپنا بہترین قالین دے سکتا ہوں۔ آئیے! ’’وہ کمرے میں داخل ہوئے فرمس نے مشعل سے چراغ روشن کیا اور پھر دوسرے کمرے میں جا کر ایک بھاری قالین نکال لایا‘‘۔
عاصم نے اپنے ساتھی سے کہا۔ ’’تم یہ قالین لے جائو اور اپنے ساتھیوں کو بیرونی دروازے کے سامنے بٹھادو میں ابھی آتا ہوں‘‘۔ نوکر نے ٹوکرا نیچے رکھ کر قالین اُٹھالیا اور عاصم نے فرمس کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’اس ٹوکرے میں آپ کے کھانے کا سامان ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ تینوں بھوکے ہیں۔ پہلے اطمینان سے کھالیجیے۔ اس کے بعد ہم جی بھر کر باتیں کرسکیں گے‘‘۔ لیکن یہ تینوں کھانے کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے انتہائی بے چارگی کی حالت میں عاصم کی طرف دیکھ رہے تھے۔
عاصم نے قدرے توقف کے بعد کہا۔ ’’شاید آپ کو میری بات کا یقین نہیں آیا۔ دیکھیے! میں سپہ سالار سے وعدہ لے چکا ہوں کہ یہ گھر محفوظ رہے گا اور جس آدمی کو بابلیون کا حاکم بنایا گیا ہے اس سے بھی میں آپ کی حفاظت کا وعدہ لے آیا ہوں۔ آپ کو شاید یہ معلوم نہیں کہ آپ ایرانی فوج کے ایک جرنیل اور شہنشاہ کے بہت گہرے دوست کے محسن ہیں۔ آپ نے جس معزز خاتون کو دمشق پہنچانے کی خدمت میرے سپرد کی تھی وہ اس جرنیل کی بیوی تھی۔ وہ کسی اور محاذ پر جاچکا ہے اگر آج وہ یہاں ہوتا تو شاید ایرانی فوج کے بڑے بڑے سردار آپ کو سلام کرنے آتے‘‘۔
فرمس کے چہرے سے اچانک مایوسی کے بادل چھٹ گئے اور وہ پُراُمید ہو کر عاصم کی طرف دیکھنے لگا۔ لیکن چند ثانیے بعد اس کے چہرے پر دوبارہ اضطراب کے آثار ظاہرہونے لگے۔ اس نے گھٹی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’کیا کلاڈیوس کے متعلق بھی مجھے اطمینان دلا سکتے ہیں؟‘‘
عاصم نے جواب دیا۔ ’’کلاڈیوس ایک رومی ہے اور میرے لیے اس کے حق میں کچھ کہنا آسان بات نہ تھی۔ تاہم ایک شرط پر میں نے اس کی جان بخشی کا وعدہ لے لیا ہے‘‘۔
’’وہ شرط کیا ہے؟‘‘ کلاڈیوس نے چونک کر پوچھا۔
’’وہ شرط یہ ہے کہ تم میرے ساتھ رہو گے۔ میں نے پہلی بار اپنی خدمات کا صلہ مانگا ہے اور وہ یہ کہ مجھے ایک قابل اعتماد رومی کو غلام بنانے کی اجازت دی جائے‘‘۔
کلاڈیوس نے سراپا احتجاج بن کر کہا۔ ’’تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں تمہاری غلامی کو موت سے بہتر سمجھوں گا‘‘۔
’’مجھے صرف اس بات کا یقین تھا کہ تم اگر اپنے لیے نہیں تو کم از کم فرمس اور اس کی بیٹی کے لیے زندہ رہنا پسند کرو گے۔ میرے لیے تمہاری جان بچانے کی واحد صورت یہی تھی اور میں یقین دلاتا ہوں کہ تمہیں اپنا دوست اور بھائی سمجھوں گا۔ شہنشاہ کی فوجیں پرسوں اسکندریہ کی طرف روانہ ہوجائیں گی اور مجھے اسی دن جنوب کی طرف پیش قدمی کا حکم ملا ہے۔ اگر بابلیون تمہارے لیے محفوظ ہوتا تو میں صرف یہ وعدہ لے کر تمہیں یہاں چھوڑ جاتا کہ تم میری غیر حاضری میں بھاگنے کی کوشش نہیں کرو گے۔ اب تمہاری جان بچانے کی یہی ایک صورت ہے کہ میں تمہیں اپنے ساتھ لے جائوں اور جب تک حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تمہاری حفاظت کرتا رہوں۔ ممکن ہے کسی دن ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ تم اپنی بیوی کے ساتھ اپنے وطن جا سکو اور میں ایرانی فوج میں اپنی شہرت کو داغدار کیے بغیر تمہاری مدد کرسکوں‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں کسی مہم میں آپ کے ساتھ تعاون کروں گا تو آپ غلطی پر ہیں میں ایک رومی ہوں اور کسی قیمت پر اپنی قوم کے ساتھ غداری نہیں کروں گا‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ