نیکی کا صلہ

161

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ایک لڑکا علی جو کہ اپنی امی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے والد اس کے کچھ سال ہوئے وفات پاچکے تھے۔ جب تک اس کے والد حیات تھے وہ پڑھتا رہا۔ لیکن جب گھر میں کوئی کمانے والا نہ رہا تو وہ اور اس کی امی کام کرنے لگیں۔ اس کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ لیکن وہ اسکول کی فیس کیسے بھرتا ۔ ناچار اس کی امی کو اس کی پڑھائی چھڑوانی پڑی۔
وہ ایک موٹر مکینک کے پاس کام کرنے لگا ۔ جب کہ اس کی امی گھروں میں لوگوں کے کپڑے سینے لگیں۔ وہ بہت سمجھدار تھا۔ وہ اکثر کام پر جانے سے پہلے اپنے اسکول چلا جاتا۔ اور ایک کونے میں چھپ کر بچوں کو اسکول جاتے دیکھتا رہتا۔ اور چھپ چھپ کر آنسو بہاتا رہتا۔ اس روز وہ شام کو کام سے واپسی پر پارک چلا گیا۔ اس روز علی کا دل بہت اداس تھا۔ وہ اپنا دل بہلانے کے لیے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اچانک اس کی نظر پارک کے سامنے سے گزرتی عورت پر پڑی ۔ وہ بہت بوڑھی خاتون تھی۔ اور کچھ سامان لے جانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔ علی ان کے پاس گیا اور ان کو پہچان گیا ۔ وہ اس کے محلے میں ہی رہتیں تھیں۔ ان کو ان کے گھر پہنچا دیا۔ وہ اس کی شکر گزار تھیں۔
کیا تم اسکول جاتے ہو؟ انھوں نے پیار سے پوچھا۔
نہیں ” علی نے جواب دیا۔
” کیوں؟ انھوں نے حیرانی سے پوچھا۔
میر ابو وفات پا چکے ہیں۔ ہمارے پاس فیس کے پیسے نہیں ہیں۔” یہ کہتے کہتے علی کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
تم پڑھنا چاہتے ہو؟
جی ضرور اگر مجھے پڑھنے کا موقع ملے تو میں اسے ضائع نہیں کرونگا۔ ” علی نے حسرت سے کہا۔
کچھ دیر بعد علی گھر آگیا۔لیکن وہ بہت اداس تھا۔ کیونکہ اسکول جانے کی خواہش اس کے اندر زور پکڑتی جارہی تھی۔ اگلے دن جب وہ سو کر اٹھا تو ایک خوشخبری اس کی منتظر تھی۔وہ بوڑھی خاتون جن کی اس نے مدد کی تھی وہ علی کی پڑھائی کا خرچہ اٹھانے کو تیار تھیں۔ علی بہت خوش تھا۔ اسے نیکی کا صلہ مل گیا۔

حصہ