کاغذ کی مہک

235

ڈاکٹر نے اس کو ایک ہفتے تک روزانہ کچھ وقت پارک میں گزارنے کا مشورہ دیا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ مشینوں کے مصنوعی ماحول سے نکل کر قدرتی ماحول میں وقت گزارے۔ اس لیے وہ آج پارک کی جانب گامزن تھا۔ یوں تو سفر چند منٹوں کا تھا لیکن اس کو چہل قدمی بھی کرنی تھی، لہٰذا وہ پیدل محوِ سفر تھا۔ اطراف کا ماحول ہر قسم کے احساس سے بے نیاز مشینی انداز میں رواں دواں تھا۔ کسی زمانے میں مشینوں سے مختلف اقسام کا شور بلند ہوتا ہوگا لیکن اب مشینیں بھی بے آواز چلتیں۔ اردگرد خاموشی تھی لیکن سکون نہیں تھا۔ دو منٹ چلنے کے بعد ہی وہ تھکنے لگا۔ چلنے کی اسے عادت ہی نہیں تھی۔ اس نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی میں نصب بٹن دبایا تو اس کا روبوٹ کار لے کر سامنے تھا۔ اس نے ڈاکٹر کی ہدایت کو خیرباد کہا اور کار میں سوار ہوگیا۔ اب چند منٹ میں وہ پارک کے سامنے تھا۔ ’’چلنے میں تو بیس منٹ لگ جاتے‘‘ اس نے سوچا اور پارک کی جانب قدم بڑھا دیے۔
پارک میں داخل ہونے سے پہلے وہ ایک دروازے سے گزرا جہاں اس کے وجود سے منسلک تمام مشینیں اتار لی گئیں۔ اس کو پارک میں جانا اس لیے پسند نہیں تھا کہ وہاں تمام مشینوں کے بغیر ہی وقت گزارنا ہوتا جو بے حد دشوار تھا۔ لوگ ڈاکٹر کی خصوصی ہدایت پر ہی یہاں آتے، ورنہ کوئی پارک کا رُخ نہ کرتا۔ داخلی دروازے سے گزرتے ہی وہ تمام مشینوں سے آزاد ہوگیا۔ اس نے دروازے کے دائیں طرف نصب ایک مشین سے کارڈ اٹھاکر جیب میں ڈالا اور پارک میں داخل ہوگیا۔
پارک میں قدرتی ماحول تھا، جس میں سکون تھا۔ درختوں کی چھاؤں میں ہری بھری گھاس سے سجا کھلا میدان، کچی اینٹوں سے بنی تنگ راہ داریاں جن کے اطراف میں خوب صورت پودوں کی قطاریں، حُسن میں مزید اضافہ کرتے خوش رنگ پھولوں کی بہار… یہ مناظر سکون بخش اور فطرت کے قریب ہوتے ہیں، لیکن فطرت سے دور زندگی گزارنے والے کے لیے یہاں وقت گزارنا محال تھا۔
وہ چہل قدمی کرنے کے بعد اب ایک بینچ پر نیم دراز تھا۔ اس نے اطراف میں نظریں گھمائیں تو اس کو چند قدم کے فاصلے پر ایک شخص نظر آیا، اُس کے ہاتھ میں کچھ تھا جو اس کو عجیب لگا۔ اس نے اس طرح کی کوئی چیزکبھی نہیں دیکھی تھی۔ یقیناً وہ کوئی گیجٹ نہیں تھا کیوں کہ پارک میں کوئی ایسی چیز لے کر نہیں آسکتا۔ اس نے حیرت سے اس کو دیکھا، وہ اس چیز کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے غور و فکر کررہا ہو۔ لوگ ایک دوسرے سے کم ہی بات کرتے، وہ تو اجنبی افراد سے بات کرنے سے بہت ہی کتراتا تھا، لیکن اس چیز کو دیکھ کر اسے شدید تجسس ہوا، وہ اٹھ کر اس شخص کی جانب آیا اور سوال کیا ’’یہ کیا ہے؟‘‘
اُس شخص نے سر اٹھا کر اسے ایک نظر دیکھا اور پھر سامنے دیکھتے ہوئے جواب دیا، اس کا جواب حیران کن تھا۔ اس نے ایسا کچھ کبھی نہیں سنا تھا، وہ سر ہلاتے وہاں سے ہٹ گیا، لیکن یہ لفظ اس کے دماغ میں گھومتا رہا۔ اس کو جاننا تھا کہ آخر وہ کیا چیز ہے۔
واپسی میں پارک سے نکلتے ہوئے اس نے خارجی دروازے کے ساتھ نصب مشین میں اپنا کارڈ ڈالا اور دروازے سے گزرا تو اس کے تمام گیجٹس اس کے وجود سے منسلک ہوگئے۔
گھر پہنچتے ہی انٹرنیٹ پر اس نے پارک میں دیکھی گئی اس عجیب و غریب چیز کو تلاش کرنا شروع کیا۔ اس کے نتیجے میں جو معلومات اُسے ملیں وہ بہت حیران کن تھیں۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ پہلے لوگ کتاب پڑھا کرتے تھے، پارک میں بیٹھا وہ شخص بھی کتاب پڑھ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کئی سال پہلے تک ڈیجیٹل لائبریریز ہوا کرتی تھیں۔ لیکن کتاب کے بارے میں جان کر اسے پتا چلا کہ اس دور سے بھی بہت پہلے باقاعدہ کتابوں کی لائبریریاں بھی ہوتی تھیں۔ وہ حیران ہوا کہ آخر اتنی کتابوں کو کس طرح سنبھالا جاتا ہوگا! لوگ اپنے گھروں میں کتابیں جمع کرکے لائبریری بنایا کرتے تھے۔ یہ بھی لوگوں کے شوق تھے۔ ایک دور تھا جب یہ سب مشینیں اور روبوٹ نہیں ہوا کرتے تھے، لوگ کتابوں میں وقت گزارتے۔ کتب بینی ایک دلچسپ مشغلہ ہوتا تھا۔ آج کی طرح ہر چیز اسکرین پہ سامنے نہیں ہوتی تھی۔ لوگ کتاب پڑھ کر اپنے تصور میں مناظر تشکیل دیتے اور ان کو محسوس کرتے۔ آج کے دور میں یہ سب باتیں افسانوی معلوم ہوتی ہیں، اس نے سوچا۔ لیکن جوں جوں وہ کتاب کے بارے میں مزید پڑھتا گیا اسے یہ سب بہت دل چسپ لگنے لگا۔ لوگ کتاب کو بہترین دوست قرار دیتے۔ کتاب کے اقتباسات یاد کرکے ایک دوسرے کو سناتے اور ان کو اپنی ڈائری کی زینت بناتے۔ تبصرۂ کتب کی محفلیں ہوتیں۔ آج کی طرح گھر بیٹھے بیٹھے اسکرین پہ نہیں بلکہ لوگ جمع ہوتے اور ادبی محفلیں سجاتے۔ پڑھنے والوں کو کتابوں کی خوشبو سے شغف ہوتا، کتاب کو سنبھال کر رکھتے، ایک دوسرے کو تحفے میں کتاب دی جاتی۔ اسے یہ گزرا دور کتابوں کی دنیا لگنے لگا اور وہ کتابوں کی دنیا کے تصور میں کھو گیا، اس کو محسوس ہواکہ کاغذ کی مہک اس کے اردگرد پھیل گئی ہے۔

حصہ