ماں 

149

اللہ تعالیٰ کی بنائی اس دُنیا کا سب سے عظیم تحفہ اور رشتہ ماں کا ہے۔ یہ بے لوث محبتوں اور خلوص سے بھرا رشتہ ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔ ماں کسی زمانے کی، کسی طبقے کی ہو‘ وہ اپنی اولاد کے لیے محبت اور سکون کی جگہ ہی ہوتی ہے حالانکہ بدلتے وقتوں اور دُنیا کی برق رفتاری کے ساتھ ماں میں پنہاں محبتوں اور خلوص میں کمی نہیں آرہی اور نہ آسکتی ہے، گویا اس کا وجود ہی سراپا محبت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہو سکتا۔ ہاں اگر کچھ تبدیل ہو رہا ہے تو وہ اس کی سوچ، اس کے فرائض کا تعین، توازن اور درجہ بندی ہے جو کہ غیر فطری سمت اور غلط راہ پر گامزن ہے۔ عورت کا اصل فریضہ گھر اور خاندان کی تعمیر ہے اور ایسی سرگرمیاں جو اس مقصد میں مخل نہ ہوں، اس کے اصل مقصد زندگی کے خلاف ہیں اور ان سے معاشرے کا توازن بگڑجاتا ہے۔
پہلے زمانے کی سات سے آٹھ بچوں کی تربیت کرنے والی ماں، رشتوں کو نبھانے والی، ہنستے مسکراتے گھروں کو بسانے میں کامیاب تھی۔ وہی گھر جو ایک مضبوط اور مستحکم معاشرہ کی بنیاد ہوتا ہے۔لیکن آج کا معاشرہ، سرمایہ دارانہ نظام کا ایک دلدل بن چکا ہے۔ اس پیرائے میں اس حقیقت کو سمجھانا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ اللہ نے مرد و زن کو جن ذمے داریوں کے ساتھ بھیجا ہے جب ان کو اپنی مرضی سے تبدیل کر دیا جائے گا تو یہ ناممکن ہے کہ ہے قدرت کے نظام کو انسان چھیڑے اور کوئی نقصان نہ ہو۔
آج کے دور کا بگڑتا معاشرہ اور ٹوٹتے گھر چیخ چیخ کر فریاد کر رہے ہیں کہ خدارا! اس سرمایہ دارانہ نظام کے طِلسم سے باہر آؤ اور جاگو‘ دیکھو تم نے کیا کھو دیا ہے اور کس کی غلامی میں جھوم رہے ہو۔
مگر افسوس اس غلامی کا نشہ بے حد مدہوش کر دینے والا ہے۔ جہاں اس نے گھر بسانے والی عورتوں کو ان کے گھروں سے نکال کر اپنی کمائی کے لیے استعمال کیا۔ وہاں اس نظام نے ان کے دلوں میں اجڑتے گھروں کی تڑپ پیدا نہ ہونے کا بھی انتظام کیا کہ ’’بچے دو ہی اچھے، عورت اور مرد بالکل برابر،میری ملازمت میری اوّلین ترجیح…‘‘ وغیرہ۔ آج خواتین گھروں سے نکل کر سیلز گرل بننے سے لے کر اسکولوں کے ننھے بچوں کی معلمات بننے تک کا سفر طے کر رہی ہیں۔ ساتھ ہی وہ اسی نظام کو اپنی آنے والی نسلیں بھی بیچتی چلی جا رہی ہیں جس کا انہیں شعور نہیں۔ کمائی صرف نظام کی ہو رہی ہے اور نقصان معاشرے کا۔
آج ہمارے معاشرے میں بڑی بڑی عمارتوں اور مکانوں کی کمی نہیں۔ ان ہنستے بستے گھروں کی کمی ہے جن میں گھر میں قرار پائی ماں ہر ایک کی مدد و رہنمائی کے لیے چوبیس گھنٹے موجود ہوا کرتی تھی۔
پچھلے زمانے کی وہ مائیں جو اپنے شوہر کے حلال کمائی کے چند پیسوں میں خوشی سے گزارا کر لیتی تھیں، اپنے دس بچوں کی تربیت سے لے کر اپنے غموں کا علاج اللہ کے کلام اور رسولؐ کے فرامین سے کر لیا کرتی تھیں۔
آج کے دور کی موجودہ ماں شوہر کے ساتھ مل کر ملازمت کرنے کے باوجود خوش نہیں ہے، حصول سکون کے لیے نیند کی گولیاں استعمال کرتی ہے یا پھر مشقت میں ہوئے دو عدد بچوں کے لیے کسی بچوں کے ماہرین نفسیات کی تلاش میں کوشاں نظر آتی ہے۔ افسوس ان کوششوں اور محنتوں پر ہے جو آج کے دور کی ماں بغیر سوچے سمجھے کر رہی ہے۔ مسلمان اس کرۂ ارض پر ایک مسافر کی طرح ہے۔ اس کی ایک منزل ہے اور وہ منزل اللہ کی رضا اور اخروی کامیابی ہے جو کہ یہاں کی دنیا سجانے اور دنیاوی ترقی کی سیڑھیاں چڑھنے سے حاصل نہ ہوں گی بلکہ معاشرے کو مضبوط‘ مستحکم اور اپنے لیے صدقہ جاریہ بنتا چھوڑ جانے پر حاصل ہوں گی۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلم گھرانوں کو ہدایت سے نوازے‘ انہیں امت کو قوت بخشنے کی توفیق عطا فرمائے اور دُنیا و آخرت کے نقصانات سے بچا کر اپنی رضا عطا فرمائے‘ آمین۔

حصہ