ڈاکٹر صاحبہ کو عید پر شاپنگ نہ کرانے کا قلق و افسوس اتنا تھا کہ بقرعید سے کافی پہلے ہی ہم نے انہیں شاپنگ کرانے کی پیش کش کر دی۔
خواتین کو سمجھنا واقعی آسان نہیں‘ وہی بیگم صاحبہ جو عید سے دو ماہ قبل شاپنگ‘ شاپنگ کی گردان کر رہی تھیں اب بقرعید سے ایک ماہ پہلے بھی آئیں بائیں شائیں کرنے لگیں۔
’’بھلا بقرعید کی بھی کوئی شاپنگ ہوتی ہے؟ اس میں تو صرف مردوں کو ہی بازار جانا چاہیے۔‘‘
ہم نے پوچھا ’’وہ کیوں؟‘‘
بھئی گائے ‘ بکرا خریدنے‘ چھری بغدا لینے‘ بھوسا چارہ لانے وغیرہ وغیرہ۔‘‘
’’اپنی بیگمات کے لیے ایک سوٹ لینے بھی جا سکتے ہیں۔‘‘ ہم نے اضافہ کیا۔
’’پہلے ہی خرچے بڑھ جاتے ہیں‘ کیا ضرورت ہے بھلا؟‘‘ انہوں نے توجیہ پیش کی۔
’’ہم آپ کو ایک سوٹ تحفتاً دینا چاہتے ہیں۔ کیا آپ اسے قبول نہ کر کے سنت کی خلاف ورزی کریں گی؟‘‘
ہم نے ایسا ہتھیار استعمال کیا کہ وہ ڈھیر ہوگئیںاور کچھ ہی دیر بعد ہم شہر کی ایک معروف مارکیٹ میں گھوم رہے تھے۔
’’امی جان دکان پسند کرنے میں بالکل وقت نہیں لگاتیں‘ ہر دکان میں بیٹھ جاتی ہیں صرف کپڑے پسند کرنے میں وقت لگتا ہے۔‘‘
ہم یہ دیکھتے ہوئے بولے کہ وہ دکان کو باہر ہی سے دیکھ دیکھ کر آگے بڑھ رہی ہیں۔
’’ہوں…‘‘ وہ بس اتنا ہی بولیں۔
’’آپ تو دکان ہی منتخب کرنے میں اتنا وقت لگا رہی ہیں‘ کپڑے پسند کرنے میںکیا حال ہوگا؟‘‘ ہمارے حساب سے دگنا وقت صَرف ہونا تھا۔
’’دکان ٹھیک ہوئی تو سوٹ پسند کرنا منٹوں کا کام ہوگا۔‘‘انہوں نے دعویٰ کیا۔
اس مارکیٹ میں چار گلیاں تھیں‘ دو گلیاں دیکھنے کے بعد وہ تیسری میں داخل ہونے کے بجائے چوتھی میں داخل ہو گئیں۔
وہاں بھی کوئی دکان سمجھ نہ آئی تو واپس ہوئیں اور تیسری گلی پر پھر ہچکچائیں اور آگے دوسری گلی کی طرف بڑھنے لگیں۔
’’یہ گلی رہ گئی نازیہ! یہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔‘‘ ہم نے ہاتھ پکڑ کر انہیں تیسری گلی میں موڑ دیا۔
وہاں وہ سر اٹھا کر دکانوں کا جائزہ لینے کے بجائے سر جھکا کر کچھ تیزی سے چلنے لگیں۔ ہمیں یہ کچھ عجیب لگا‘ لیکن جلد ہی عقدہ کھل گیا۔
ایک آدمی بھاگا بھاگا آیا اور آکر ہمارے سامنے کھڑا ہوگیا۔
’’آپ… آپ! وہی والی باجی ہیںناں؟‘‘ اس نے ڈاکٹر صاحبہ کی طرف اشارہ کیا۔
’’نازیہ نے ایک گہرا سانس لے کر پہلے ہمیں دیکھا اورپھر سر ہلا کر بولیں’’جی… میں وہی ہوں۔‘‘
’’آپ بھلا ہماری شاپ سے ہوئے بغیر کیسے جاسکتی ہیں؟ میں تو کئی دنوں سے آپ کی راہ دیکھ رہا ہوں۔‘‘
وہ دکان دار بولا تو ہمیںتجسس ہوا۔
’’چھوڑیں… کیا ضرورت ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحبہ کہہ کر آگے بڑھنے لگیں لیکن وہ دکان دار شاید انہیں چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا۔
’’نہیں باجی! دو منٹ کے لیے ہی سہی‘ آیئے تو۔‘‘
’’ٹھیک ہے… چلیے۔‘‘ ہم نے اپنی فکر دور کرنے کے لیے ہامی بھری۔ چار و ناچار نازیہ بھی ہمارے پیچھے ہو لیں۔
ہم دکان میں داخل ہوئے تو احساس ہوا کہ دوسری دکانوں کی نسبت یہاں رش کچھ زیادہ ہے۔ شاید ہماری طرح وہ ہر آتے جاتے کو زبردستی پکڑ کر دکان پرلے آتا تھا۔
’’یہ دیکھیں باجی!‘‘ اس نے ایک چھوٹے سے بورڈ کی طرف اشارہ کیا جس پر لکھا تھا ’’خریدا ہوا مال مندرجہ ذیل شرائط پر واپس یا تبدیل کر لیا جائے گا۔‘‘ اور نیچے کچھ شرائط لکھی تھیں۔
’’تو کچھ فرق پڑا؟‘‘ ڈاکٹر صاحبہ مسکرا کر بولیں۔
’’فرق…!‘‘ دکان دار نے ایسے کہا جیسے یہ بہت چھوٹا لفظ ہو اور رش کی طرف اشارہ کر دیا۔
’’کچھ مجھے بھی بتائیں گے کہ یہ چل کیا رہا ہے؟‘‘ ہم آخر بول ہی پڑے۔
’’آپ کو نہیں بتایا باجی نے؟‘‘ دکان دار حیرت سے بولا تو ہم نے نازیہ کو دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’عید سے پہلے بھی باجی یہاں آئی تھیں، ایک اور خاتون کے ساتھ‘ تب باجی کو ایک سوٹ پسند آگیا مگر بولیں کہ گھر جا کر شوہر کو دکھائوں گی‘ اگر انہیں پسند نہ آیا تو واپس یا تبدیل کرائوں گی۔‘‘
’’ہوں…! پھر کیا ہوا؟‘‘ ہم اپنا ذکر سن کر اور زیادہ دل چسپی محسوس کرنے لگے۔
’’میں نے اسی جگہ لگے پرانے بورڈ کی طرف اشارہ کیا تھاجس پر لکھا تھا خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا۔‘‘ دکان دار سانس لینے کو رکا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ ہم نے اسے دھکا لگایا۔
’’باجی نے کہا کبھی اس پالیسی کو بدل کر بھی دیکھیں‘ تو ہم نے کہاکہ ایسے کیاتو ہم تو برباد ہو جائیں گے۔ اس پرباجی نے ایسی بات کہی کہ ہماری دنیا ہی بدل گئی۔‘‘
’’اور وہ کیا کہا تھا؟‘‘ ہم نے دکان دار کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحبہ کو بھی دیکھا۔
’’انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خرید و فروخت میں نرمی کرنے اور بکا ہوا مال واپس لینے پر بشارتیں سنائی ہیں‘ کمال ہے آپ کو ان سے اختلاف ہے۔‘‘
’’اوہ…!‘‘ ہمارے منہ سے نکلا۔
دکان دار کی بات جاری تھی ’’باجی سوٹ چھوڑ کر چلی گئیں اور ہمارے دلوں پر آرے چلا گئیں۔ ہم نے تجرباتی طور پر یہ پالیسی تبدیل کی اور اب ہم کچھ نہیں تو بھی ڈیڑھ گنازیادہ سیل پر آگئے ہیں۔‘‘
’’شکر اللہ کا۔‘‘ ڈاکٹر صاحبہ نے سکھ کا سانس لیا۔
’’یہ سوٹ ہم نے اسی دن سے سنبھال کر رکھ لیا تھا اور کسی کو نہیں بیچا۔ دنیا کی وہ واحد خاتون جو اس کے لائق ہیں وہ آپ ہیں۔‘‘
اس نے ایک گہرے رنگ کا سوٹ‘ جس پر سنہری کام ہوا تھا‘ نکال کر ڈاکٹر صاحبہ کو پیش کیا۔
’’کتنے کا ہے بھئی؟‘‘ ہم نے بٹوا نکالا۔
’’اس کی قیمت کا تو اندازہ ابھی کیا ہی نہیں جاسکتا لیکن جو بھی تھی باجی نے پچھلی مرتبہ ایک جملہ میں ادا کر دی تھی۔‘‘
’’کچھ تو رکھ لیں بھائی!‘‘ نازیہ نے اصرار کیا مگر اس نے نظر انداز کر دیا۔
’’آپ بیٹھیں‘ میں آپ کے لیے کچھ ٹھنڈا منگواتا ہوں۔‘‘ اس نے ضیافت کی کوشش کی تو ہم نے بڑی مشکل سے اسے روکا۔
’’باجی! اس دکان میںجو بھی سوٹ آپ کو پسند آئے، اٹھائیں اور لے جائیں‘ یہ سب آپ کے طفیل ہے۔‘‘
ہم تو اس کی پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے لیکن ڈاکٹر صاحبہ نے ہمیں ہاتھ پکڑ کر باہر کھینچا۔
جاتے جاتے بھی دکان دار نے صدا لگائی ’’باجی! تبدیلی یا واپسی کی پالیسی دکان کے ہر سوٹ پر ہے‘ مگر اس پر نہیں جو آپ لے جا رہی ہیں۔‘‘ اس نے کچھ انداز سے کہا کہ ہماری ہنسی چھوٹ گئی جب کہ ڈاکٹر صاحبہ ایک لمحے کو رکیں‘ سر جھکا کر کچھ سوچا اور پلٹ کر کہا ’’جزاک اللہ۔‘‘
ہم نے ان کی آنکھوںمیں نمی کی جگمگاہٹ دیکھی۔
واپسی پر ہم نے گاڑی برگر کی ایک مشہور برانڈ پر روکی اور دو برگرز کا آرڈر دیا۔
نازیہ کو گاڑی میں بیٹھ کر ہی کھانا زیادہ پسند تھا کہ اس میں بے پردگی نہیں ہوتی تھی۔ شیشوں پر ہم کالے شیڈ لگائے رکھتے تھے۔
’’بھئی جو چیز تمہیں پسند آگئی تھی تو مجھے کیونکر پسند نہ آتی‘ آئندہ اس کی بالکل فکر نہ کرنا۔‘‘
’’آپ اگر ساتھ ہوئے تو ضرورت ہی نہیں رہے گی۔‘‘ نازیہ نے جذباتی ہو کر کہا۔
’’خیر‘ ہمارا تحفہ دینے کا خواب تو ادھورا ہی رہ گیا۔ تمہارا دکان دار بھائی تمہیں تحفہ دے گیا۔‘‘ ہم نے چھیڑا تو وہ جھینپ کر رہ گئیں۔
جیسے ہی برگرز آئے تو دو‘ تین فقیر بچے بھی ساتھ آکر کھڑے ہوگئے۔ نازیہ نے آئو دیکھا نہ تائو اپنا برگر ان بچوں کے حوالے کر دیا۔
’’مل کر کھانا‘ جھگڑنا نہیں۔‘‘ ہدایت بھی جاری کر دی۔
ہمیں بہت برا لگا اور اس کا اظہار بھی کر دیا۔ ’’بھئی نازو! ان کے لیے دوسرا منگوا لیتے‘ یہ تو تمہیں میرے ساتھ کھانا چاہیے تھا۔‘‘
’’سوری…‘‘ انہوں نے فوراً ہاتھ جوڑے۔
’’اب دوسرا آنے میں پھر دس منٹ لگیں گے۔‘‘ ہم نے خفگی سے کہا۔
’’کیوں نہ ہم اس کو آدھا آدھا کھا لیں۔‘‘ انہوں نے ہمارے برگر کی طرف اشارہ کیا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ہم نے کندھے اچکائے اور برگر کو بیچ میں سے دو ٹکڑے کرنے لگے۔
’’ایسے نہیں…‘‘ انہوں نے برگر ہمارے ہاتھ سے لے لیا اور اسی لقمہ کے اندر سے دائیں جانب ایک لقمہ لیا جو ہم برگر سے کھا چکے تھے۔ ہم ہل کر رہ گئے‘ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اور ہم نے آنکھیں بند کر کے اس لمحے کو محسوس کیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث کئی مرتبہ سنی تھی جس میں آپؐ نے ایک پیالے سے حضرت عائشہؓ کی پی ہوئی جگہ سے منہ لگا کر پانی نوش فرمایا تھا۔ لیکن اس سنت پر عمل کی کیا تاثیر تھی وہ ہمیں آج معلوم ہوئی۔
ڈاکٹر صاحبہ نے ہمیں شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ برگر واپس لوٹایا تو ہم نے بھی انہی کے کھائے ہوئے کے دائیں طرف سے کھایا اور خوب لطف اندوز ہوئے۔
چند لقمے کھانے کے بعد اندازہ ہوا کہ اس طرح تو برگر بہت جلد ختم ہو جائے گا‘ لہٰذا لقمے چھوٹے کر دیے اور یوں آٹھ لقموں کا برگر کوئی بیس مرتبہ والی بال کی طرح اِدھر اُدھر ہو کر ختم ہوا۔
ہم نے زندگی میں اب تک سینکڑوں برگر کھائے ہوںگے‘ لیکن ان سب کا مزہ ایک طرف اور اس برگر کا سواد ایک طرف، جو ہماری زندگی کا یادگار ترین برگر تھا۔
…٭…
برگرختم ہوا تو ہمارے شیشے پر کھٹ کھٹ ہوئی‘ وہی فقیر بچے تھے‘ ہم نے غور کیا تو معلوم ہوا پھول فروش ہیں‘ ہم نے شیشہ نیچے کرکے کہا’’ابھی کھلے پیسے نہیںہیں‘ پھر کبھی لے لیںگے۔‘‘
بچے نے ہاتھ بڑھا کر پھولوں کے دو خوب صورت گجرے اندر رکھ دیے اور بولا ’’پیسے مانگ کون رہا ہے؟‘‘
جب ہم نے وہ گجرے ڈاکٹر صاحبہ کو پہنائے تو بچوں نے خوش ہو کر تالیاں بجائیں۔
چونکہ ہم نے اس دورے پر شاپنگ کے بجائے تحفے کی نیت کی تھی لہٰذا ڈاکٹر صاحبہ کے لیے کچھ خریدنے کی نوبت نہ آئی اور ہم یہ تحائف ہی لے کر گھر لوٹے، اور تب سے ہم سوچ رہے ہیں کہ اس کو شاپنگ کہہ بھی سکتے ہیں کہ نہیں؟ آپ ہی بتائیں!